اللہ جی آپ کو پتہ ہے پی ٹی وی پر روزانہ چھ بجے سے سات بجے تک کلام مجید کی تلاوت اور ترجمہ دکھایا جاتا ہے، امی کیساتھ میں بھی سنتا ہوں، آپ کو تو پتہ ہی ہوگا آج صبح ہی ایک آیت کا یہ ترجمہ بتایا گیا:- "اور اللہ کی تو کسی نے قدر ہی نہ کی جیسے اسکی قدر کرنا چاہیئے تھی" سچی بات ہے مجھے تو یہ سن کر بہت ہی دکھ آیا۔ میں نے امی کیطرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تو امی بھی رو رہی تھیں، انکو بھی اس بات سے رونا آیا ہوگا۔ اللہ جی آپ تو بہت اچھے ہیں، آپ تو اسوقت ہماری مدد کرتے ہیں جب سارے ہمیں چھوڑ دیتے ہیں، آپ تو بہت پیار کرنیوالے ہیں پھر آپ نے ایسا کیوں کہا؟؟سارا دن میں نے یہی سوچتے گزارا کہ واقعی لوگوں نے آپ کی قدر نہیں کی ہوگی اسلئے اپ نے شکوہ کیا۔۔۔۔۔اللہ جی میں بہانے بہانے سے امی سے پوچھتا رہا، امی کہنے لگیں، "پتّر تو نے یہ بات دل پر لے لی ہے"
اللہ جی کیوں نہ دل پر لوں، اگر لوگ آپ کی قدر نہیں کرتے تو اور کس کی کریں گے؟؟ ویسے اللہ جی میں آپ کی بہت قدر کرتا ہوں اور جب آپ میرے کام آتے ہیں تو میں بہت ہی زیادہ قدر کرتا ہوں۔ آپ بیشک میری امی سے پوچھ لیں۔ ٹھریں میں آپ کو بتاتا ہوں۔
جب میں دوسری کلاس میں پڑھتا تھا اسوقت مجھے پہلے پہل آپ کا پتہ چلا تھا۔ چھٹی سے پانچ منٹ پہلے ہمارے شہر میں خوب طوفانی بارش ہوئی۔۔۔آندھی آئی اور جھکڑ چلے۔ لگتا تھا سارا کچھ آندھی اڑا کر لیجائے گی۔ شاں شاں کی آواز اور کالی آندھی۔ سارے بچے باہر بھاگے، گیٹ تک پہنچے تھے کہ بارش شروع ہوگئی، اللہ جی ویسی بارش میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ لگتا تھا حضرت میکائیل فوارے کی بجائے بالٹیاں بھر بھر کے الٹا رہے ہیں اور آندھی سے بچی چیزیں بارش بہا کر لیجائیگی۔۔۔۔۔سردیوں کی بارش اور اتنی تیز، کوئی بچہ اپنے تانگے میں بیٹھا، کوئی سائیکل اور کوئی گاڑی میں۔۔۔۔۔۔۔دس منٹ کے اندر اندر سارا سکول خالی ہوگیا۔ بس بس ہم دو تین بچے تھے جن کی ملکیت سائیکل، گاڑی یا تانگے کی بجائے دو عدد ٹانگیں تھیں، ہم ایک قدم آگے بڑھاتے تو بارش دو قدم پیچھے کر دیتی۔۔۔۔۔۔سردی سے سارا جسم سّن ہو گیا تھا۔
اس دن میں نے سوچا یہ امیر لوگ تو بڑے عیش میں ہوتے ہی، مسئلے تو ہم جیسے غریبوں کیلئے ہیں جب بارش کا زور تھا، ہم دو بچے اپنے گھروں کی طرف چلے تو اللہ جی پتہ ہے ہم نے راستے میں کیا دیکھا منیب، فراز اور عبدالغفور تینوں اپنی سائیکلوں سمیت کیچڑ میں دھنسے ہوئے تھے، فراز کے چوٹ بھی خاصی لگی ہوئی تھی، ہم نے انکو اٹھایا، بیگ سائیکل پر رکھ۔۔۔۔۔۔۔۔آگے گئے تو تانگے والے کا گھوڑا بدکا ہوا تھا اور کلاس چہارم کے سات آٹھ بچے سہمے سہمے ایک طرف کھڑے تھے اور اللہ جی ہم چونکہ گھوڑے کو سمجھا نہیں سکتے تھے اسلئے ان بچوں کو تسّلی دیکر آگے بڑھے۔۔۔۔۔فوارہ چوک پر گاڑیوں کی لمبی لائن دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔۔۔۔۔ہم گاڑیاں گنتے گئے، دس، بارہ، پندرہ اور بیس کے بعد ہماری گلی آگئی۔۔۔۔بھائی نے بتایا کہ بائی پاس پربس اور ٹرالر کا بہت زبردست ایکسیڈنٹ ہوا تھا اسلئے ٹریفک بلاک ہے۔ وہ بچے جو گاڑیوں میں تھے بیچارے مغرب کے بعد گھر پہنچے ہونگے۔ اس رات امی نے مجھے انڈہ ابال کے دیا، گرم گرم چائے پلائی، کوئلوں والی انگیٹھی میری چارپائی کے پاس رکھی پھر بھی میں سویا نہیں، بس سوچتا رہا کہ اللہ جی آپ کتنے اچھے ہیں، آپ نے ہمیں کتنی قیمتی انمول ٹانگیں تحفے کے طور پر مفت دیں اور ہم آپ کی قدر ہی نہیں کرتے۔۔۔۔!! ساری رات مجھے آپ پر پیار ہی آتا رہا، سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیسے پیار کروں، مجھے کروٹیں لیتا دیکھ کر مجھے امی نے کہا:- "لگتا ہے میرا پتّر ابھی تک سویا نہیں، سردی لگ رہی ہے؟؟"
ابا بیچارے کی تو صحت ٹھیک نہیں رہتی، امی سے ہر بات کر لیتا ہوں، میں نے امی سے کہا:- "امی گاڑیوں موٹر والوں کے مقابلے میں اللہ جی نے ہمیں کتنی بڑی نعمت دی ہے ٹانگوں کی۔۔۔۔انکا شکر کیسے ادا کیا جائے؟" امی نے کہا:- "لو پتر یہ بھی کوئی بات ہے، جس کی ٹانگیں نہیں ہیں اسکی ٹانگیں بن جاؤ بس یہی شکر ہے اور یہ صفت تو اللہ کو اتنی پسند ہے کہ شکر کرنیوالوں کی کوئی چیز بھی واپس نہیں لیتا"
اس کے بعد تو اللہ جی میں جہاں کسی معذور کو دیکھتا، بھاگتا اسکی مدد کرتا، اسکے کام آتا اور ڈھیروں دعائیں بھی لیتا۔۔۔۔اللہ جی ایسے تو کئی بیشمار واقعات ہیں جو مجھے آپ کی قدر کراتے رہے۔۔۔۔۔ بہت زیادہ باتیں ہیں لیکن ایک بہت ہی خاص اور اہم بات جس نے مجھے مجبور کیا کہ اٹھتے بیٹھتے آپ کا شکر ادا کروں، آپ کو یاد کروں اور آپ کا احسان مانوں وہ یہ ہے کہ کلاس پنجم کا آخری سال تھا پھر ہمیںپرائمری سے ہائی سکول جانا تھا۔ ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب نے سارے بچوں سے کہا کہ اگلے ہفتے مینا بازار بھی ہے اور یومِ والدین بھی۔۔۔۔۔سب بچے زیادہ پیسے لائیں، تقریریں ہونگی، مقابلے ہونگے اور کھانے پینے کے سٹال لگیں گے، جھولے ہونگے اور ریچھ بندر کا تماشا بھی دکھایا جائے گا۔۔۔۔۔۔ہر بچہ کم از کم پچاس روپے تو ضرور لائے۔۔۔۔۔جتنے زیادہ پیسے جمع ہونگے سکول کیلئے اتنی ہی زیادہ چیزیں خریدیں گے۔۔۔۔۔۔اور ہاں بلدیہ کے چیئرمین سمیت کئی شخصیات بھی انعامات دینے آئیں گی۔
پورا ہفتہ میں امی سے پیسے مانگتا رہا لیکن امی ہر بار ٹال جاتیں۔ ابا بھی ان دنوں بہت بیمار تھے اور انکی چھابڑی پندرہ بیس دنوں سے پچھلے کمرے میں اوندھی پڑی تھی۔ مینا بازار کا دن آیا۔ نان چھولے پکوڑے، چاٹ، شکر قندی، ٹافیوں سمیت بیس طرح کے سٹال لگے، بچے کھیل رہے تھے، کوک پی رہے تھے، چیزیں کھا کر ہلا گلا کر کے ہضم کررہے تھے اور ہم (میں اور میرا کلاس فیلو انیس) ہنسنے کی کوشش کر رہے تھے۔
آپ کو تو پتہ ہے اللہ جی غریب تو بیچارہ ہنسنے کی کوشش ہی کر سکتا ہے۔ انیس کی امی بھی میری امی کی طرح لوگوں کے کپڑے سی کر گھر چلاتی ہیں۔ بارہ بجے یومِ والدین کی تقریب شروع ہوئی۔ اللہ جی بڑے بڑے لوگ ہار پہنے سٹیج پر بیٹھے تھے۔ کئی ایک کو تو میں پہنچانتا بھی تھا۔ ایک تو شاکر صاحب تھے، ہماری ہی گلی میں رہتے ہیں۔ انکا بڑاسا جنرل سٹور ہے۔ بہت امیر ہیں، جب میں سکول جاتا ہوں تو وہ جنرل سٹور کے باہر کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے ہوتے ہیں اور میں انکو سلام بھی کرتا ہوں۔ امی کہتی ہیں کہ پتّر جب بھی کوئی بڑا ملے تو سلام ضرور کرتے ہیں۔ سلام کرنے سے اللہ راضی ہوتا ہے۔ خیر انکے ساتھ چوھدری فیروز دین تھے جو ہماری پچھلی گلی میں رہتے ہیں، انکی فیکٹریاں ہیں کئی۔۔۔۔۔
جلسہ شروع ہوا، کئی بچوں نے تقریریں کیں، نظمیں پڑھیں، خوب تالیاں بجیں۔۔۔۔۔دوپہر کے دو بج چکے تھے۔ سب لوگوں کی جیبیں خالی اور پیٹ بھر ے ہوئے تھے۔ اکثر تو کھانے کے نشے میں سست ہو رہے تھے، کوئی جمائیاں لے رہا تھا اور کوئی ڈکار مار رہا تھا۔۔۔۔۔مجھے تو بھوک کی وجہ سے بہت بے چینی ہورہی تھی۔۔۔۔ میری اگلی کرسی پر ایک لڑکا مسلسل کچھ کھانے میں مصروف تھا۔ اسے کھاتا دیکھ کر میرا دل چاہ رہا تھاجھپٹّامار کر اس سے چھین لوں، پر میں ایسا کیون کرتا اللہ جی۔۔۔۔۔!!! میں اب سکول کے چپڑاسی کی طرف دیکھ رہا تھا وہ کب اٹھے گااور گیٹ کھولے گا۔۔۔۔۔ایک دم میں چونکا۔۔۔۔۔بہت زور سے تالیاں بج رہی تھیں۔ مجھے انیس نے بتایا کہ شاکر صاحب نے سکول میں پنکھے لگوانے کیلئے پندرہ ہزار روپے دیے ہیں، یہ تالیاں اسی خوشی میں بج رہی ہیں۔
میری آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں!پندرہ ہزار تو بہت ہوتے ہیں، اتنے میں ابا کا علاج ہو سکتا ہے، امی کی نئی مشین آ سکتی ہے، آپا کی میٹرک کی فیس کا انتظام ہو سکتا ہے۔ مجھے انیس نے ہلایا، اوئے بدھو۔۔۔۔۔تمھیں بلا رہے ہیں۔۔۔۔۔کیا مجھے؟ میں نے پریشانی سے پوچھا، ہاں تجھے۔۔۔۔۔اس نے میری نقل اتاری۔۔۔۔۔اوئے الّو تین دفعہ تیرا نام لے چکے ہیں۔ عرفان الحق ولد انوار الحق ۔۔۔۔۔کلاس پنجم سی۔۔۔۔۔میں نے زندگی میں کبھی تقریر نہیں کی، نعت نہیں پڑھی، کبھی فرسٹ یا سیکنڈ نہیں آیا، مجھے کیوں بلا رہے ہیں۔۔۔۔۔سٹیج پر جاتے ہوئے میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں، میری ہاتھ کی ہتھیلیاں شدید پسینے سے گیلی ہو رہی تھیں۔ جب میں سٹیج پر چڑھا تو شاکر صاحب نے کہا:- "پیارے بچو اور اساتذہ، یہ ہے وہ بچہ جس نے مجھے ہر دکھ اور پریشانی سے بچنے کا راستہ دکھایا" ہے، میں ہکّا بکّا، انکی شکل دیکھ رہا تھا، سارے سکول میں سنّاٹا طاری ہوگیا تھا۔ شاکر صاحب نے کہا:- "مجھے انکے محلے میں سٹور کھولےچار سال ہوگئے ہیں، ان چار سالوں میں اس بچے نے روزانہ مجھے صبح سکول جاتے ہوئے سلام کیا ہے!!! "
انہوں نے ایک انتہائی خوبصورت پیکٹ میری طرف بڑھایا، "بیٹے، یہ حقیر سا تحفہ ہے آپ کیلئے!"، میں بلا سوچے سمجھے بولنے لگا "نہیں انکل میں۔۔۔۔۔" لیکن میری بات سے پہلے ہی وہ دوبارہ کہنے لگے:- "کیوں بیٹا، جب آپ مجھے سلام کرتے ہیں تو وہ صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ سلام کرنے کا مطلب ہےکہ آپ نے اس شخص کو ہر طرح کی پریشانی سے بچنے، بیماریوں اور برائیوں سے محفوظ رہنے کی، امن و سلامتی کی دعا دی ہے۔۔۔۔۔کیا یہ معمولی تحفہ ہے جو آپ ہمیں روزانہ دیتے ہیں، ہم تو صرف آپ کا تحفہ لینے کیلئے اسوقت اخبار کے بہانے کرسی پر بیٹھتے ہیں ورنہ صبح دس بجے تک تو ہم اپنی زمینوں پر رہتے ہیں" انکی آواز میں غیر معمولی جوش آگیا، "پیارے بچو! میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں، بڑوں کا احترام ادب سب فرض ہے، مگر کسی انجانے کوبغیرکسی غرض کے سلام کرنا ان سے بڑھ کر ہے، دنیا میں تو ہے ہی لیکن آخرت میں اس سے بلند اجر کا باعث، اور جو دنیا میں سلام کرتا ہے سلامتی کی دعا دیتا ہے، جنّت میں اللہ تعالٰی ان جنتیوں کو خود سلام کریگا،
آپ سب اسے معمولی بات نہ سمجھیں، اگر آپ رجسٹر کریں تو چار سالوں میں دو ہزار دفعہ تو ضرور ہی اس بچے نے مجھے سلام کر کے نیکی کمائی ہے، اب یہ تو غیر مناسب ہے کہ یہ بچہ ہوکر نیکی کمانے میں اتنا بڑا تاجر بن جائے اور ہم پیچھے رہ جائیں، کیوں بیٹا۔۔۔۔۔" انہوں نے میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا، میرے کان میں ہیڈ ماسٹر نے کہا:- "لے لو کاکا لے لو تحفہ" میں تحفہ لیکرکانپتے قدموں سے سٹیج سے نیچے اتر آیا، اس دن انکی گاڑی میں گھر آیا ۔۔۔۔۔وہ گھر کے اندر بھی گئے، ابا کا پتہ چلا کہ ہسپتال میں ہیں تو آپا سے ہسپتال کا پتہ پوچھا۔۔۔۔۔جاتے ہوئے بہت دعائیں دیں۔ شام کو انکا منشی آٹے، چینی اور گھی والوں کیساتھ آیا، امی رکھنا نہیں چاہتی تھیں، مگر منشی نے کہا کہ بہن جی، کچھ ہمیں بھی احسان کا بدلہ اتارنے دیں۔ اس پیکٹ میں میرا سوٹ، نیا بیگ اور کاپیاں تھیں، اس رات میں بہت رویا۔ اللہ جی خوشی میں روتے تو نہیں مگر میں اس لئے رویا کہ اللہ جی آپ نے میری اتنی معمولی سی نیکی کا دنیا میں اتنا بڑا اجر دیا، اتنی عزّت قدر کروائی۔۔۔۔آخرت میں بھی دینا۔۔۔۔صرف سلام کرنے کی وجہ سے، اللہ جی تیری آپکی اتنی معمولی بات ماننے کی وجہ سے اگر آپس میں اتنی محبت پیدا ہو سکتی ہے تو تیرے بڑے بڑے حکم ماننے کی وجہ سے تو دنیا جنّت ہی نہ بن جائے!!! میں نے اللہ جی اپنے آپ سے وعدہ کیا، اب میں تیرا شکر ادا کرونگا، جتنے کام نیکی کے کر سکتا ہوں۔۔۔۔کرونگا۔۔۔۔۔۔اسی طرح اللہ جی آپکی قدر ہو سکتی ہے۔ اللہ جی رات بہت ہوگئی ہے، امی کہتی ہیں صبح جلدی اٹھنا چاہیئے۔ دیر تک سونے سے گھر میں نحوست پھیلتی ہے اور اللہ ناراض ہوا ہے۔ توبہ توبہ!!! اللہ جی آپ ناراض نہ ہوں، میں ابھی تین دفعہ دعا پڑھ کر سو جاتا ہوں۔
No comments:
Post a Comment