بسم الله الرحمن الرحيم
و صل اللهم وبارك وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى اله وصحبه اجمعين
صدر نے گزشته دنوں كيمپ ڈيوڈ ميں اپنے ہم منسب مسٹر بش سے ملاقات كے بعد واشنگٹن ميں صحافيوں سے گفتگو كرتے هوئے كہا كہ "مذهبي انتہا پسندوں كو اسرائيل پر ڈكٹيٹ نہيں كرنے دوں گا. سمجهـ ميں نہيں آتا كہ ہماري اسرائيل سے كيا دشمني ہے؟ جنگيں تو ہم بهارت سے كرتے ہيں ليكن ہمارے پاسپورٹ پر لكها ہوا ہے كہ اسرائيل كے علاوه تمام ممالك ميں جانے كي اجازة ہے."
صدر كے مذكوره بالا فرمودات سے اندازه هوتا ہے كہ كيمپ ڈيوڈ كي خفيه ملاقات كارگر رہي ہے, ورنہ اسلامي برادري كا بچہ بچہ اس حقيقت سے واقف ہے كہ اسرائيل سے ہماری كيا دشمني ہے؟ اس وقت چونكہ صدر پر روشن خيالي كا بهوت سوار ہے اس لئے وه چاہتے ہيں كہ مسلم اور كافر كا فرق مٹا كر سب ايك قوم بن جائيں اور ديني اختلافات اور اسلام وكفر كے تفاوت كو يكسر ختم كرديا جائے اور اسلامي روايات كو انتہا پسندي كا نام دے كر انہيں خيرباد كہہ ديا جائے تاكہ اغيار كے ساتهـ ہم بهي تالاب ميں ننگے نہا كر اظهار يكجهتي كريں اور مسلم, يهودي, عيسائي, مجوسي,هندو كے درميان فرق باقي نہ رہے, حالانكہ ہمارے اكابر اور برصغير كے مسلمين نے ايك عليحده سلطنت كي ضرورة كو كفر اور اسلام كے اسي واضح فرق كي بنا پر محسوس كيا تها اور اسي فرق كے نتيجے ميں دنيا پر سب سے بڑی نظرياتي سلطنت پاكستان وجود ميں آئي تهي, جس فرق كو آج "روشن خيالي" طبقه آج ختم كرنے كے درپے ہے. اس روشن خيالي كا نتيجہ بخوبي سمجها جا سكتا ہے كہ پاكستان اس فرق كو مٹانے سے يقيناً اپني نظرياتي بنيادوں سے محروم ہو جائے گا.
دنيا ميں دو ہي رياستيں ايسي ہيں جو كہ نظريه كي بنياد پر وجود ميں آئيں ايك پاكستان اور دوسرا اسرائيل. پاكستان اسلامي نظريه كي بنياد پر قائم هوا جبكہ اسرائيل كي بنياد يهودي نظريه پر ركهي گئي ہے, يهوديت كا نہ صرف كہ اسلام سے كوئي جوڑ نہيں بلكہ يهودیت اسلام دشمني كا نام ہے. يہ حقيقة ايك سطحي ذهن ركهنے والے مسلمان كي سمجهـ ميں بهي آسكتي ہے كہ جو قوم اسلام كي دشمن ہے وه ہماري وفادار نہيں هو سكتي. خداوند عالم نے اهل الايمان پر يہ واضح كرديا ہے كہ "يهود ونصارى كو اپنادوست مت بناؤ. وه آپس ميں تو دوست ہيں(ليكن تمهارے دوست نہيں هو سكتے)". يهود ونصارى كي اسلام دشمني ہي كي وجہ سے حضور اكرم صلى الله عليه وسلم نے اپنے دور حياة ميں اعلان فرما ديا تها كہ "يهود ونصارى كو جزيرة العرب سے نكال ديا جائے." پهر پيغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے متعدد بار امت كو يہ تاكيد فرمائي كہ يهود ونصارى كي مخالفت كرو. ان كے ساتهـ پيغمبر اقدس صلى الله عليه وسلم كي نفرت كا يہ عالم ہے كہ آپ صلى الله عليه وسلم نے صحابه كرام رضي الله تعالى عنه سے دس محرم كے روزے كے متعلق ارشاد فرمايا, كسي صحابي نے عرض كيا كہ "يا رسول الله! ان دنوں ميں تو يهودي بهي روزه ركهتے ہيں تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كہ "اگر ميں آئنده سال زنده رہا تو (دسويں تاريخ كے ساتهـ) ايك روزه (نويں يا گيارويں محرم كا) اور ملا لوں گا"
ان اسلامي تعليمات سے بخوبي اندازه هو جاتا ہے كہ يهوديت اور اسلام ايك دوسرے سے متصادم ہيں. يہي وجہ ہے كہ آحضرت صلى الله عليه وسلم نے يهود ونصارى كي مخالفت كرنے كا حكم ديا ہے. اسرائيل ايك يهودي رياست ہے جس كي بنياد ہي يهودي نظريه پر ركهي گئي ہے, اسلام اور اهل الاسلام كے خلاف سازش كرنا اس كا بنيادي مقصد ہے. پهر بهي اگر كوئي يہ كہے كہ "سمجهـ ميں نہيں آتا كہ ہماري اسرائيل سے كيا دشمني ہے؟" تو يہ دينِ اسلام سے اس كي ناواقفيت كي دليل ہے.
قرآن وسنت كے واضح دلائل اگر سمجهـ سے بالاتر ہيں تو اسرائيل كي اسلام دشمني فلسطيني مسلمين پر روا ركهے جانے والے مظالم سے بهي عياں ہے. جب سے اسرائيلي رياسة خليج ميں واقع هوئي ہے اس وقت سے لے كر آج تك بلا شبه لاكهوں فلسطيني مسلمان لقمه اجل بنائے جا چكے ہيں اور ان پر يهوديوں كے مظالم وشدائد كا سلسله تا حال جاري ہے. اهل الاسلام كے قبله اول پر يهودي مسلط ہيں, جب چاہيں مسلمانوں كو نماز تك پڑهنے سے روك ديتے ہيں اور اگر مسلمان وہاں نماز پڑهنے كي جسارت كريں تو ان پر گولياں برسائي جاتي ہيں تاكہ وه آئنده ادهر كا رخ كرنے كي جرأت نہ كرسكيں. جن كو حضور صلى الله عليه وسلم نے اسلام دشمني كے سبب جزيرة العرب سے نكال باهر كرنے كا حكم ديا تها, آج وہي يهودي مسلمانوں كو مسجد اقصى سے باهر نكال كر مسلم دشمني اور اسلام دشمني كا ثبوت دے رہے ہيں. پهر اس پر ايك مسلم رياست كے سربراه كا كہنا كہ"سمجهـ ميں نہيں آتا كہ ہماري اسرائيل سے كيا دشمني ہے؟" ان مظلوم مسلمين كي پيٹهـ ميں چهرا گهونپنے كے مترادف ہے.
صدر صاجب پريشان ہيں كہ "جنگيں تو ہم بهارت سے كرتے ہيں ليكن ہمارے پاسپورٹ پر لكها هوا ہے كہ اسرائيل كے علاوه تمام ممالك ميں جانے كي اجازت ہے." يہ جملہ بهي كسي سابق سربراه مملكت نے يقيناً ايماني جذبے سے مغلوب هو كر ہي لكهوايا هوگا, اس لئے كہ جو ملك مسلمانوں كے وجود ہي كو تسليم نہيں كرتا اور اس كا پسنديده مشغله مسلمان مردوں, عورتوں, بچوں اور بوڑهوں كو قتل كرنا ہے, ہم آخر اس ملك ميں كيا لينے جائيں گے؟ كيا فلسطيني شهداء كے مقدس لہو پر ہم يهوديوں سے دوستي كي عمارة كهڑي كريں گے؟ كيا ہمارے معصوم بهائيوں كے خون سے اپنے ہاتهوں كو رنگين كرنے والے ہمارے دشمن نہيں؟ كيا فلسطين كي بہو, بيٹيوں كي عزتوں پر شب خون مارنے والے يهوديوں كي مسلم دشمني سمجهـ نہيں آتي؟ كيا آئے دن ٹينكوں اور توپوں كے ذريعے نہتے فلسطينيوں كو خاك وخون ميں تڑپا كر قہقہے لگانے والے اسرائيلي مسلمانوں سے دوستي كا ثبوت دے رہے ہيں؟ كيا اسرائيلي غنڈے هر دوسرے تيسرے دن فلسطيني مسلمانوں كے گهروں, مكانوں, دكانوں اور دفتروں پر بلڈوزر چڑها كر انسانية كا كوئي فرض ادا كر رہے ہيں؟ كيا اسرائيل ہمارے ازلي وابدي دشمن بهارت سے جديد جنگي اسلحه كا معاهده كر كے ہمارے ساتهـ دشمني نہيں كر رہا؟ كيا ہمارے صدر ان تمام حالات سے بالكل بے بہره ونابلد ہيں يا جان بوجهـ كر اسرائيل كي مسلم دشمني سے چشم پوشي كركے محض كيمپ ڈيوڈ كے اعزاز كو برقرار ركهنے كيلئے يہ فرما رہے ہيں كہ "سمجهـ ميں نہيں آتا كہ ہماري اسرائيل سے كيا دشمني ہے؟ جبكہ جنگيں تو ہم بهارت سے لڑتے ہيں."
صدر صاحب شائد سمجهتے ہيں كہ جس سے جنگ لڑي جائے يس وہي دشمن هوتا ہے باقي سب دوست هوتے ہيں, حالانكہ يہ مفروضه صحيح نہيں, بهارت سے ہماري جنگيں صرف اس لئے هوئيں كہ اس نے ہم پر جنگيں مسلط كي تهيں ورنہ ہم تو عرصے سے جنگ وجهاد كے نام سے ہي لزده براندام ہيں, بهارت نے ہم پر جنگ مسلط كي تو ہميں مجبوراً اپنے دفاع كيلئے جنگ كرنا پڑي, جبكہ امة المسلمه پر تو جهاد فرض كرديا گيا تها اور اس كيلئے حكم تها كہ جهاد كے ذريعے پوري دنيا كو مسخر كركے اسلام كا پهريرا لہرا دو. كيا رسول الله صلى الله عليه وسلم اور آپ كے بعد خلفاء الراشدين المهديين رضي الله عنهم اجمعين نے يهود ونصارى سے جنگيں نہيں لڑيں؟ اگر جنگ ہي كسي قوم سے دشمني اور دوستي كا معيار ہے تو اسلام كي اكثر جنگيں يهود ونصارى كے خلاف لڑي گئي ہيں, پهر سوچنے كي بات يہ ہے كہ جس قوم سے رسول الله صلى الله عليه وسلم اور خلفاء الراشدين رضي الله عنهم نےجنگيں لڑي هوں اور ان كو جزيرة العرب سے نكال باهر كيا هو اور دنيا كے كسي خطے ميں ان كي قوت كو جمع نہ هونے ديا هو كيا وه ہمارے دوست هو سكتے ہيں؟ ہم نے صرف بهارت سے چند جنگيں لڑ كر سمجهـ ليا كہ چونكہ ہم ہميشہ بهارت سے لڑتے ہيں اس لئے بس بهارت ہي ہمارا دشمن ہے جبكہ اسلام كا درس يہ ہے كہ جب تك دنيا ميں اهل الاسلام پر كفار كے مظالم و شدائد كا سلسله جاري ہے, جهاد جاري رہے گا اور مسلمانوں پر مظالم ڈهانے والي ہر قوم, ہر سلطنت اور ہر طاقت كے خلاف جهاد كيا جائے گا. اسرائيل كے مظالم كے جواب ميں تو ہميں اس كے خلاف علم جهاد بلند كرنا چاہئے تها جبكہ ہم نے جهاد كو دہشت گردي اور انتہا پسندي سے موسوم كركے مجاهدين اسلام كے گرد گهيرا تنگ كرنا شروع كرديا اور انہيں چن چن كر "پوليس مقابلوں" ميں شهيد كيا اور بعض كو زنده گرفتار كركے دشمنوں كے حوالے كرديا اور مسلمانوں كے ازلي وابدي دشمنوں سے دوستي كي پينگيں بڑهانا شروع كرديں جس پر دشمنوں نے ہميں كيمپ ڈيوڈ كے خصوصي مقام پر ملاقات كا اعزاز بخشا اور مجاهدين كي كمر توڑنے پر انعام واكرام سے نوازا.
كيمپ ڈيوڈ كے اعزازات وانعامات ہي كا نتيجہ ہے كہ مسلمانوں سے يهوديوں كي صديوں سے قائم دشمني پر اب پرده ڈالنے كي ناكام كوششيں كرتے هوئے يہ كہا جا رہا ہے كہ " سمجهـ ميں نہيں آتا كہ ہماري اسرائيل سے كيا دشمني ہے؟"
وائے ناكامي متاعِ كارواں جاتا رہا
كارواں كے دل سے احساس زياں جاتا رہا
Saturday, July 25, 2009
اسرائيل سے ہماری كيا دشمني ہے۔
تحریر: مولانا عبد الغفور نديم مدظله
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment