تحریر: سلیم اللہ شیخ
اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں ماری گئی ( التکویر )
ایک نیک روح اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئی۔مروا شیر بینی کو شہادت مبارک ہو۔اور خواتین کو بھی مبارک ہو کہ اسلام کی راہ میں پہلی جانی شہادت ایک خاتون حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے پیش کی تھی اور آج حجاب اور پردے کی خاطر بھی جان کا نذرانہ ایک خاتون نے ہی پیش کیا۔مروا شیر بینی کون تھی؟
مروا شیر بینی ایک مصری نژاد جرمن مسلمان خاتون تھیں جو اس مغربی بے حیا معاشرے میں بھی اپنی عصمت و عفت کی حفاظت سے غافل نہیں تھی اور اس ننگے ماحول میں بھی وہ مکمل حجاب کا اہتمام کرتی تھی لیکن جدید تعیلم یافتہ مغربی انتہا پسندوں کو یہ بات پسند نہ تھی اور گزشتہ سال اس کے پڑوسی ایگذل ڈبلیو نے اس وقت اس پر جملے کسے اور اس کی توہین کی جب وہ ایک پارک میں اپنے بچے کے ساتھ موجود تھی، مغربی جدید تعلیم یافتہ انتہا پسند ایگزل نے اس پر جملے کسے جس کا شیی بینی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اس پر روشن خیال تہذیب کے پروردہ جدید تعلیم یافتہ انتہا پسند ایگزل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی۔ شیر بینی آج کے مسلم حکمرانوں کی طرح بے حس نہ تھی اس نے ایگزل کی اس مذموم حرکت کے خلاف مقدمہ کیا جس کا نتیجہ اس کے حق میں نکلا۔
لیکن ایگزل نے اس فیصلہ کو ایک اور عدالت میں چیلنج کردیا۔ مقدمہ چلتا رہا اور یکم جولائی کو عدالت نے جب ایگزل سے ان الزمات کے حوالے سے استفسار کیا تو اس نے نہ صرف اقرار کیا بلکہ مزید ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ “اگر میرا بس چلے جو اس کو حجاب پہننے کی ایسی سزا دوں کہ یہ ہمیشہ یاد رکھے“ عدالت نے جرم ثابت ہونے پر ایگزل کو گرفتار کرنے اور تقریباً دو ہزار یورو جرمانے کی سزا سنائی۔ یہ فیصلہ سنتے ہی جنونی، انتہا پسند ایگزل نے بھری عدالت میں مروا شیر بینی پر حملہ کر دیا۔ اسے پکڑ کر زمین پر پٹخ دیا واضح رہے کہ شیر بینی تین ماہ کی حاملہ تھی، اس جدید تعلیم یافتہ مغربی انتہا پسند جنونی نے اس کے پیٹ پر لاتیں ماریں، اس کے کپڑے اور حجاب کو پھاڑ دیا اور پھر ۔۔۔۔
ایک چاقو نکال کر اس نے شیر بینی پر چاقو سے وار کرنے شروع کر دئے،اس دوران پوری عدالت اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی، جبکہ شیر بینی کا شوہر علوی عکاظ چیخ چیخ کر پولیس سے مداخلت کرنے کا کہتا رہا لیکن پولیس نے کوئی ایکشن نہ لیا، البتہ جب عکاظ اپنی بیوی کو بچانے کے لیے آگے بڑھا تو متعصب، اور اسلام دشمن پولیس نے اس پر فائرنگ کر کے اسے زخمی کردیا، اس دوران قاتل نے شیر بینی پر چاقو پر اٹھارہ وار کئے اور نہ صرف اس پر بلکہ پولیس کی گولیوں سے زخمی علوی عکاظ پر بھی چاقو سے حملے کیے۔
شیر بینی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملی، یہ واقعہ یکم جولائی کو پیش آیا لیکن مغربی پریس جو کہ مسلمانوں کے خلاف پروپگینڈے میں آگے آگے رہتا ہے اور سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے مارنے کی جعلی ویڈیو دکھانے پر تو آسمان سر پر اٹھا لیا گیا لیکن اتنا بڑا جرم چھپایا گیا۔ میڈیا پر یہ خبر جب جاری ہوئی جب شیر بینی کی میت اس کے آبائی گاؤں اسکندریہ مصر لائی گئی۔ شرم ناک بات تو یہ ہے کہ سوات کے واقعے پر ایک گھنٹے کے اندر اندر مذاکرے کرانے والا ہمارا میڈیا تاحال یعنی دس جولائی کو سوا چار بجے تک خاموش ہے۔ حقوق نسواں کے علمبردار بھی چپ ہیں گویا کہ ان کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ انسانی حقوق کے وہ چیمپئین جو مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند کہتے نہیں تھکتے وہ بھی ایسے چپ ہیں گویا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ بارک اوبامہ کے ایک مکھی مارنے پر واویلا کرنے والے بھی خاموش ہیں اس لیے کہ شہید ہونے والی خاتون ایک مسلمان تھیں۔ ہاں اگر وہ گھر سے بھاگی ہوئی کوئی لڑکی ہوتی جس کو اس کے شفیق ماں باپ نے زرا سختی سے روکا ہوتا تو اب تک یہی میڈیا چیخ چیخ کر انسانی حقوق اور حقوق نسواں کا راگ الاپ رہا ہوتا۔ لیکن شیر بینی ایک مسلمان خاتون تھیں۔ اس لیے ان کے لیے میڈیا پر کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں اس حوالے سے امت اخبار کراچی کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نےاس واقعہ کی مکمل تفصیلات شائع کیں۔
بہر شیر بینی تو اپنے رب سے جا ملی ہے لیکن اس نے جاتے جاتے ہمیں یہ پیغام دیدیا ہے کہ یہود و نصاریٰ ہمارے دوست نہیں ہیں اور نہ ہی یہ جنگ دہشت گردوں کے خلاف ہے بلکہ یہ تو مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے۔ جاگ جاؤ ورنہ یہ آگ سب کو اپنی لپیٹ میں لیکر جلا دے گی۔
مجھے یقین ہے کہ جب شیر بینی اپنے رب کے حضور پہنچی ہوگی تو نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اسے جام کوثر پلایا ہوگا، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے اختی کہ کر اسے گلے لگایا ہوگا۔ حضور کی چہیتی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کو اپنے ساتھ جگہ دی ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا
باریابی ہو جب حضور رب تو کہنا
ساتھی میرے سوختہ جان اور بھی ہیں
اپنے رستے ہوئے زخموں کو دکھا کر کہنا
ایسے تمغوں کے طلب گار وہاں اور بھی ہیں
اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں ماری گئی ( التکویر )
ایک نیک روح اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئی۔مروا شیر بینی کو شہادت مبارک ہو۔اور خواتین کو بھی مبارک ہو کہ اسلام کی راہ میں پہلی جانی شہادت ایک خاتون حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے پیش کی تھی اور آج حجاب اور پردے کی خاطر بھی جان کا نذرانہ ایک خاتون نے ہی پیش کیا۔مروا شیر بینی کون تھی؟
مروا شیر بینی ایک مصری نژاد جرمن مسلمان خاتون تھیں جو اس مغربی بے حیا معاشرے میں بھی اپنی عصمت و عفت کی حفاظت سے غافل نہیں تھی اور اس ننگے ماحول میں بھی وہ مکمل حجاب کا اہتمام کرتی تھی لیکن جدید تعیلم یافتہ مغربی انتہا پسندوں کو یہ بات پسند نہ تھی اور گزشتہ سال اس کے پڑوسی ایگذل ڈبلیو نے اس وقت اس پر جملے کسے اور اس کی توہین کی جب وہ ایک پارک میں اپنے بچے کے ساتھ موجود تھی، مغربی جدید تعلیم یافتہ انتہا پسند ایگزل نے اس پر جملے کسے جس کا شیی بینی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اس پر روشن خیال تہذیب کے پروردہ جدید تعلیم یافتہ انتہا پسند ایگزل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی۔ شیر بینی آج کے مسلم حکمرانوں کی طرح بے حس نہ تھی اس نے ایگزل کی اس مذموم حرکت کے خلاف مقدمہ کیا جس کا نتیجہ اس کے حق میں نکلا۔
لیکن ایگزل نے اس فیصلہ کو ایک اور عدالت میں چیلنج کردیا۔ مقدمہ چلتا رہا اور یکم جولائی کو عدالت نے جب ایگزل سے ان الزمات کے حوالے سے استفسار کیا تو اس نے نہ صرف اقرار کیا بلکہ مزید ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ “اگر میرا بس چلے جو اس کو حجاب پہننے کی ایسی سزا دوں کہ یہ ہمیشہ یاد رکھے“ عدالت نے جرم ثابت ہونے پر ایگزل کو گرفتار کرنے اور تقریباً دو ہزار یورو جرمانے کی سزا سنائی۔ یہ فیصلہ سنتے ہی جنونی، انتہا پسند ایگزل نے بھری عدالت میں مروا شیر بینی پر حملہ کر دیا۔ اسے پکڑ کر زمین پر پٹخ دیا واضح رہے کہ شیر بینی تین ماہ کی حاملہ تھی، اس جدید تعلیم یافتہ مغربی انتہا پسند جنونی نے اس کے پیٹ پر لاتیں ماریں، اس کے کپڑے اور حجاب کو پھاڑ دیا اور پھر ۔۔۔۔
ایک چاقو نکال کر اس نے شیر بینی پر چاقو سے وار کرنے شروع کر دئے،اس دوران پوری عدالت اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی، جبکہ شیر بینی کا شوہر علوی عکاظ چیخ چیخ کر پولیس سے مداخلت کرنے کا کہتا رہا لیکن پولیس نے کوئی ایکشن نہ لیا، البتہ جب عکاظ اپنی بیوی کو بچانے کے لیے آگے بڑھا تو متعصب، اور اسلام دشمن پولیس نے اس پر فائرنگ کر کے اسے زخمی کردیا، اس دوران قاتل نے شیر بینی پر چاقو پر اٹھارہ وار کئے اور نہ صرف اس پر بلکہ پولیس کی گولیوں سے زخمی علوی عکاظ پر بھی چاقو سے حملے کیے۔
شیر بینی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملی، یہ واقعہ یکم جولائی کو پیش آیا لیکن مغربی پریس جو کہ مسلمانوں کے خلاف پروپگینڈے میں آگے آگے رہتا ہے اور سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے مارنے کی جعلی ویڈیو دکھانے پر تو آسمان سر پر اٹھا لیا گیا لیکن اتنا بڑا جرم چھپایا گیا۔ میڈیا پر یہ خبر جب جاری ہوئی جب شیر بینی کی میت اس کے آبائی گاؤں اسکندریہ مصر لائی گئی۔ شرم ناک بات تو یہ ہے کہ سوات کے واقعے پر ایک گھنٹے کے اندر اندر مذاکرے کرانے والا ہمارا میڈیا تاحال یعنی دس جولائی کو سوا چار بجے تک خاموش ہے۔ حقوق نسواں کے علمبردار بھی چپ ہیں گویا کہ ان کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ انسانی حقوق کے وہ چیمپئین جو مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند کہتے نہیں تھکتے وہ بھی ایسے چپ ہیں گویا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ بارک اوبامہ کے ایک مکھی مارنے پر واویلا کرنے والے بھی خاموش ہیں اس لیے کہ شہید ہونے والی خاتون ایک مسلمان تھیں۔ ہاں اگر وہ گھر سے بھاگی ہوئی کوئی لڑکی ہوتی جس کو اس کے شفیق ماں باپ نے زرا سختی سے روکا ہوتا تو اب تک یہی میڈیا چیخ چیخ کر انسانی حقوق اور حقوق نسواں کا راگ الاپ رہا ہوتا۔ لیکن شیر بینی ایک مسلمان خاتون تھیں۔ اس لیے ان کے لیے میڈیا پر کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں اس حوالے سے امت اخبار کراچی کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نےاس واقعہ کی مکمل تفصیلات شائع کیں۔
بہر شیر بینی تو اپنے رب سے جا ملی ہے لیکن اس نے جاتے جاتے ہمیں یہ پیغام دیدیا ہے کہ یہود و نصاریٰ ہمارے دوست نہیں ہیں اور نہ ہی یہ جنگ دہشت گردوں کے خلاف ہے بلکہ یہ تو مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے۔ جاگ جاؤ ورنہ یہ آگ سب کو اپنی لپیٹ میں لیکر جلا دے گی۔
مجھے یقین ہے کہ جب شیر بینی اپنے رب کے حضور پہنچی ہوگی تو نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اسے جام کوثر پلایا ہوگا، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے اختی کہ کر اسے گلے لگایا ہوگا۔ حضور کی چہیتی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کو اپنے ساتھ جگہ دی ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا
باریابی ہو جب حضور رب تو کہنا
ساتھی میرے سوختہ جان اور بھی ہیں
اپنے رستے ہوئے زخموں کو دکھا کر کہنا
ایسے تمغوں کے طلب گار وہاں اور بھی ہیں
No comments:
Post a Comment