Friday, July 31, 2009

چو مکھی جنگ - - - - سچ تو یہ ہے۔




تحریر: خادم الاسلام والمسلمین، ڈاکٹر عصمت حیات علوی



٭بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم٭


میں اس سے قبل بھی اپنے کئی کالمز میں یہ بات لکھ چکا ہوں کہ سارے پاکستان میں اور خاص طور پر ہمارے شہر پشاور میں انڈیا اور اسرائیل کی ایک سے زائد انٹیلی جینس ایجنسیاں کام کر رہی ہیں اور ہمارے ملک کے کچھ وطن دشمن سرکاری افسر ان سے پورا پورا تعاون کر رہے ہیں۔

میں نے اس سے قبل بھی اپنے کئی مضامین میں یہ بات کھل کر لکھی تھی کہ ہمارے صوبے بلوچستان میں بہت سارے بیرونی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں کام کر رہی ہیں اور ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جن کو ہمارے ملک کی بھولے عوام پاکستان کے بے لوث اور آزمودہ دوست گردانتے ہیں۔ ابھی اور اس وقت تو ہمارے ملک کے سرکاری حلقے میری اس بات کی تردید ہی کریں گے مگر کل کو ایک ایسا مرحلہ ضرور آئے گا کہ میری اس بات کی تردید کرنے والے اس عریاں حقیقت کو خود ہی اور ایسے ہی تسلیم کر لیں گے جیسے کہ اب شرم الشیخ میں ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے بھارتی وزیر اعظم کو کہا ہے کہ انڈیا بلوچستان کے معاملات میں ملوث ہے اور انڈین پرائم منسٹر نے اس بات کی تردید نہیں کی ہے۔

اسی بات کو بنیاد بنا کر بہت سارے صحافتی اور سفارتی حلقے اس نقطے کو پاکستان کی سفارتی فتح قرار دے رہے ہیں ۔ حالانکہ حقائق اس کے بر عکس ہیں ۔ اگر پاکستان یہی الزامات آج سے دو یا تین سال قبل لگاتا تو انڈیا اسے جھوٹ ہی قرار دیتا کیونکہ اس وقت حالت خام تھی اور پک کرتیار نہ ہوئی تھی۔

اب ہوگا یوں کہ کچھ ماہ یا کچھ سال کے بعد انڈیا نہ صرف ورلڈ لیول پر یہ بات تسلیم کرے گا کہ اس کے بلوچستان کے پاکستان مخالف عناصر سے روابط ہیں بلکہ وہ علیحدگی کی اس تحریک کو آزادی اور حریت کی تحریک قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ اور دنیا کی دیگر قوتوں سے یہ مطالبہ بھی کرے گا کہ وہ بلوچستان کے عوام کی اپیل پر مداخلت کریں اور بلوچ عوام کو آزادی دلوائیں۔ تب اس مرحلے پر امریکہ اقوام متحدہ کو ایک کٹھ پتلی کی طرح سے استعمال کرے گا اور پھر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جو افواج اس وقت افغانستان میں موجود ہوں گی تواس وقت بلوچ عوام کو آزادی دلوانے کے بہانے اتحادی اپنی ان افواج کو بلوچستان میں داخل کر دیں گے۔

دکھ اور الم کی بات تو یہ ہے کہ شرم الشیخ میں کشمیر کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا ہے جو کہ اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت پاکستان کے اندرونی حلقے سوات سمیت دیگر قبائلی علاقوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور بلوچستان میں بیرونی ممالک اور دیگر حلقوں کی مداخلت سے اس قدر سراسیمہ ہو چکے ہیں کہ وہ ایک کروڑ سے زائد انسانوں اور پاکستان کی شہہ رگ کے مسلے کو یکسر بھول چکے ہیں۔

میں نے آج سے چھ ماہ قبل قبائلی علاقوں اور بلوچستان کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ تجویز دی تھی کہ اگر بلوچ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے صوبے کو دو صوبوں میں تقسیم کرکے ان کو زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری دے دی جائے تو ان کی ان معقول تجاویز کو ماننے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ میں نے تو یہ بھی لکھا تھا کہ ہمیں یہ چاہیے کہ ہم ساتھ ہی ساتھ شمالی علاقوں کو زیادہ سے زیادہ نمائندگی دینے کے ساتھ ساتھ ان کو ایک صوبے جیسی حیثیت دے دیں تاکہ ان کی ساٹھ سال پر محیط محرومیوں کا کچھ تو ازالہ ہو جائے ۔

پھر میں نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ تمام قبائلی علاقوں کو بھی ایک الگ صوبہ بنا دیا جائے جو کہ اپنے اندرونی معاملات میں خود مختار ہو اور اپنی حیثیت میں نیم آزاد ہو۔ تاکہ کل کلاں کو جب امریکہ ہمارے اس قبائلی صوبے میں القاعدہ یاطالبان کی موجودگی کا بہانہ بنا کر ہمارے اس صوبے پر قبضہ کرتا تو ہم اس کے عوام کو اپنا دفاع خود ہی کرنے دیتے اور الگ ہٹ کر تماشا بھی دیکھتے ۔ تب ہونا تو یہ تھا کہ اس وقت جس قدرجانی نقصان ہمارا ہو رہا ہے تو اس وقت اتنا ہی جانی نقصان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ہونا تھا پھرانہوں نے خود ہی تنگ آکر اس خطے کو دوچار سال کے اندر اندر ہی چھوڑ جانا تھا ۔کیونکہ میں سفید فام اقوام کی فطرت جانتا ہوں کہ وہ لاشوں کے معاملے میں بڑی ہی حساس ہوچکی ہیں کیونکہ ان کو دماغوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ اگرچہ دنیا میں ان کے ممالک کی مجموعی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے مگر دنیا میں ان کی سفید فام نسلوں کا دنیا کی کل آبادی کے لحاظ سے تناسب کم ہو رہا ہے۔

آج سے چھ ماہ قبل جب میں نے بلوچستان، صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں کے حالات کو کھل کر بیان کیا تھا تب زیادہ تر لوگوں نے تو میری باتوں کا اعتبار کرنے کی بجائے میرا مذاق اڑایا تھا اور کچھ نے تو گالیاں بھی دی تھیں۔ چند ایک شریف آدمیوں نے میرے سے یہ گلہ کیا تھا کہ میں اپنے کالمز میں جھوٹ اور سچ ملا کر ان کو ڈراتا ہوں جب کہ میں قسمیہ کہتا تھا کہ یہ سچ ہے او ر یہی تلخ حقیقت ہے۔

پھر جب ہماری حکومت نے بغیر کسی منصوبہ بندی کے پاک فوج کو سوات کی بے مقصد مہم جوئی میں جھونکا تھا۔ تب بھی عمران خان اور اسی قبیل کے ماڈریٹ طبقے کے لوگوں کی طرح سے میں نے بھی اس کی بھر پور مخالفت کی تھی اور اس بے سود آپریشن کے خلاف کالم بھی لکھے تھے۔ اس وقت بھی بہت سارے پاکستانی لوگوں نے میری حکومت وقت کی مخالفت کو پاکستان کی مخالفت گردانا تھا۔ جب کہ تلخ حقیقت تو یہ ہے اس وقت بھی جب کہ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ سوات اور گرد و نواح میں جنگ کی سی کیفیت طاری ہے اور جو وزرا ایک ہفتہ قبل ہی سوات کو محفوظ قرار دے رہے تھے ۔آج یہ بیان دے رہے ہیں کہ یہ ایک طویل جنگ ہے اور پاکستان میں کہیں پر بھی لڑی جا سکتی ہے۔

میں ایک مرتبہ پھر سے بڑے ہی ادب سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم لوگوں نے بحیثیت ایک قوم کے بالغ نظر ہو کر کسی بھی چھوٹے یا بڑے مسئلے کو وسیع النظر ہو کر دیکھنا سیکھاہی نہیں ہے ۔ چاہے وہ صوبائی خود مختاری کا مسلہ ہو یا صوبوں کی مزید تقسیم کا مطالبہ ہو ۔سوات میں شریعت کا نفاذ ہو یا سندھ میں قوم پرستوں کے خدشات ہوںہم ہر مسلے اور مصیبت کو اس کے سیاق اور سباق سے کاٹ کر دیکھتے ہیں۔

یہی تو ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ ہم ہر مسئلے کو اس کی بیک گراونڈ سے الگ کرکے اور محدود پیمانے پر اور وقتی نقطہ نظر سے دیکھیں اور جس دن کل امتِ مسلم نے کافروں کے زیر اثر اپنی سوچ اور نظر محدود کر لی اس دن شرق تاغرب اور شمال تا جنوب انہی کافروں کی حاکمیت ہو گی اور کل مسلم قوم ان کی غلام ہوگی۔ یہ کافر اقوام تو اتنی مکار اور عیار ہیں کہ وہ ہمیں گمراہ کرنے کے لیے منزّل من اللہ کتاب قرآن مجید کی آیات کو بھی سیاق و سباق سے کاٹ کر ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں اور ہمیں گمراہ کرتی ہیں۔ کافر اقوام تو آدھے سچ کے ساتھ ساتھ اپنا آدھا جھوٹ بھی ہمیں ہضم کروادیتے ہیں ۔اب تو ہماری حالت یہ ہوچکی ہے کہ ہم جس کتاب کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں ہم اسی کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ہمیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم اللہ قادرِ مطلق کے باغی ہو چکے ہیں۔ حالانکہ اللہ خبیر و علیم نے قرآنِ مجید میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ اہل اسلام کے بد ترین دشمن دو ہی ہیں ایک تو قوم یہود اور دوسرے بت پرست ۔ پس یہی دونوں دشمن ہمارے وطن پاکستان اور عالم اسلام کی مکمل بربادی کے پس پردہ کام کررہے ہیں۔

یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ ہنود اور یہود اس وقت اندرون خانہ ایک ہو چکے ہیں اور ان دونوں قوتوں کے درمیان کسی ایک امر یا کسی ایک نقطے میں بھی فرق نہیں اور نہ ہی کسی ایک مسلے میں کوئی اختلاف موجود ہے یوں سمجھیں کہ ظاہراً تو یہ دونوں الگ الگ ہیں مگر اندر سے یہ دونوں ایک ہو چکے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے معاملے پر دنیا کی کسی بھی دو اسلام دشمن قوتوں میں ایسا اتفاق اور اتحاد نہیں ہے جتنا اتفاق اور اتحاد اس وقت اسرائیل اور انڈیا کے مابین ہو چکا ہے۔

حال ہی میں ہیلری کلنٹن کے انڈین وزٹ کے دوران جتنے بھی فوجی یا سول نوعیت کے معاہدے کئے گئے ہیں اس کے پس پردہ امریکن یہودی لابی کا پورے کا پورا پریشر تھا کیونکہ جلد یا بدیر ان سبھی معاہدوں کے دور رس فوائد سے یہودیوں نے ہی مستفید ہونا ہے اسی لیے ہمارے یہ دونوں ازلی و ابدی دشمن ہماری مکمل تباہی کے خواہاں ہیں اور عالم اسلام کے کھنڈر پر اپنی اپنی سلطنتیں قائم چاہتے ہیں۔

یہود تو گریٹر اسرائیل قائم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں جس کی سرحدیں فرات تا نیل پھیلی ہوں گی اور دوسرے جو کہ بت پرست ہیں یعنی کہ ہندو ۔ وہ مہا بھارت کے قیام کی جدوجہد کر رہے ہیں جس کی حدود مشرق میں موجودہ انڈونیشا سے لے کر مغرب میں موجودہ عرب ریاستوں تک پھیلی ہوئی ہوں گی۔

بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بھارت کے پہلے پردھان منتری شری جواہر لال نہرو نے آزادی ملنے کے بعد اپنے پہلے اہم اجلاس میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا کام پاکستان کو تحلیل کرکے اس کو واپس بھارت میں لانے کا تھا اور اسی پہلے وزیر اعظم نے سپین سے بیس کے قریب ہسٹورین منگوائے تھے جنہوں نے انڈیا کے پروفیسروں، خاص درجے کے سول سرونٹس اور اعلیٰ درجے کے انٹیلی جینس آفیسرز کو یہ تربیت دی تھی کہ اسپین کی ملکہ ازابیلہ کے دور میں متعصب عیسائیوں نے کس طرح سے ملک سپین میں مسلم قوم کا صفایا کیا تھا۔

ساٹھ برس کی مسلسل تربیت کے بعد آج صورت حال یوں ہے کہ انڈیا کے پاس دولاکھ کے لگ بھگ ایسے بہترین تربیت یافتہ افراد موجود ہیں جن کا مقصد انڈیا اور اس سے ملحقہ علاقوں سے مسلم قوم کا مکمل صفایا ہے۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھ رہا ہوگا کہ میرے کہنے کے مطابق تو پاکستان اور افغانستان کے علاقے مہابھارت کا حصہ بننے ہیں تو اس خطے میں عیسائی فوجیں کیا کر رہی ہیں ؟

دراصل بات یہ ہے کہ یہود کی کتاب توراة میں ایک آیت ان کے علماء یعنی ربیوں کی تحریف سے اب تک محفوظ ہے اور اس آیت کے مطابق اس علاقے سے ایک ایسی قوم اٹھے گی جو کہ بکّہ کے لیڈر کی قیادت میں پوری دنیا کے حاکم د ائی زل سے جنگ کرے گی۔ یاد رہے کہ مکّة المکرمہ کا قدیم نام بکّہ ہے اور دائی زل کو ہماری کتب احادیث میں دجال کہا گیا ہے ۔ جس طرح سے فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی آمد کو روکنے کے لیے بنی اسرائیل کے تمام نومولود لڑکوں کے قتل کرنے کی سکیم بنائی تھی اسی طرح سے صہیونی بھی اس جماعت کا راستہ روکنے کے لیے پاکستان ایران اور افغانستان کی ٹرائینگل میں گھس آیا ہے۔

یہ ساری عیسائی قومیں تو درحقیقت یہودیوں کی پراکسی وار لڑ رہی ہیں دراصل ان عیسائیوں کو ان بہروپیے یہودیوں نے گمراہ کر رکھا ہے جو کہ دراصل نسلاً اور عملاً یہودی ہیں مگر عیسائی مذہبی رہنماوں اور دنیاوی لیڈروں کے روپ میں عیسائی دنیا کی قیادت کررہے ہیں اور سو فی صد یہی تکنیک ہندووں نے پاکستان، افغانستان اور دیگر مسلم ممالک کے اندر اپنا رکھی ہے لاکھوں کی تعداد میں متعصب ہندو اور ان کے نام نہاد مسلم ایجنٹ مسلمانوں کے روپ میں ہمارے درمیان میں رہ کر اپنا کام کر رہے ہیں ہماری نا اہلیوں کے سبب اس وقت صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ وہ ماڈرن مسلمانوں میں بھی گھل مل چکے ہیں اور مذہبی جماعتوں کا حصہ بھی بن چکے ہیں۔

ان کو فوج میں بھی اثرورسوخ حاصل ہے اور وہ ہماری سول سروسزمیں بھی کام کر رہے ہیں اور یہ عمل ایک یا دو دن میں مکمل نہیں ہوا ہے بلکہ ہمارے دشمنوں نے ہمارے سسٹم کے اندر اثرو نفوذ حاصل کرنے کے لیے برسوں تک ان تھک محنت کی ہے اور آج صورت حال یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ یہی دشمن ایجنٹ ہم کو آپس میں ہی لڑوائے اور مروائے جارہے ہیں۔

بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ہماری فوج اور سول انتظامیہ میں انڈین ایجنٹ ایوب خان کے دور میں ہی قدم جما چکے تھے اورجب چھ ستمبر کی رات کو انڈیا نے لاہور پر بھر پور حملہ کیا تھا۔ تب انہی ایجنٹوں کی یقین دہانی پر اس رات کو ہماری فوج اپنی چھاونیوں میں پڑ ی ہوئی سورہی تھی اور لاہور کا اہم اور حساس باڈر خالی تھاحالانکہ ان دنوں کشمیر کا محاذ گرم تھا اور اس وقت کا انڈین پرائم منسٹر لال بہادر شاستری یہ دھمکی بھی دے چکا تھا کہ ہم اپنی مرضی کا کوئی بھی نیا محاذ کھول سکتے ہیں اور ادھر پاکستان میں حال یہ تھا کہ ہمارے ملک کے حاکموں کو اپنا بھی ہوش نہ تھا۔

پھریہی ایجنٹ تھے جنہوں نے یحییٰ خان کو مجبور کیا تھا کہ وہ مجیب الرحمٰن کواقتدار منتقل نہ کرے تاکہ پاکستان کے دونوں بازو ایک دوسرے سے کٹ جائیں اور یہی ایجنٹ پس پردہ سرگرم عمل تھے۔ جب مقبول عوام لیڈر زیڈ ۔ اے۔ بھٹو کو اقتدار سے محروم کرکے ملک میں علاقائی، لسانی، فرقہ وارانہ اور دیگر ملک دشمن گروہوں کی سرپرستی کی گئی تھی اور انجام کار بھٹو صاحب کا سیاسی قتل بھی کیا گیا تھا۔

یہی غیر ملکی ایجنٹ تھے جنہوں نے امریکہ کے اشارے پر نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا اور مشرف کی قیادت میں پورے ملک کی کل آبادی کو ایک دوسرے کے خلاف کردیا گیا ہے۔ اب تو حالات یہاں تک بگڑ چکے ہیں کہ ہر شخص ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کو تیار بیٹھا ہے ۔ اگر ہم نے اب بھی عقل مندی اور دانش مندی سے کام نہ لیا تو خانہ جنگی کی ایک ایسی آگ بھڑکے گی کہ اوّل تو پاکستان ہی نہیں بچے گا اور اگر بچ بھی گیا تو اس ملک کے اصل حکمران تو یہود ہی ہوں گے البتہ دکھاوے کے لیے وہ ہم میں سے ہی چند ضمیر فروش اشخاص کو کرایہ پر رکھ لیں گے۔

اس وقت امریکن انتظامیہ کے سامنے دو آپشن ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان کے چار ٹکڑے کر دیے جائیں۔ صوبہ سرحد افغانستان میں چلا جائے۔ آزاد کشمیر کو انڈین کشمیر میں شامل کردیا جائے اور ایران کو کمزور اور بے بس کرنے کے لیے ایرانی اور پاکستانی بلوچستان پر مشتمل ایک الگ اور آزاد ریاست قائم کر دی جائے۔ پاکستان صرف پنجاب اور سندھ تک محدود کر دیا جائے۔

اس منصوبہ بندی کے پیچھے اسرائیل اور انڈیا دونوں ہی امریکہ کے ساتھ مل کرکام کر رہے تھے مگر یورپ کے کچھ ممالک نے اس منصوبے پر یہ اعتراض کیا ہے کہ دنیا ابھی اتنی بڑی اکھاڑ پچھاڑ کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس طرح سے تومڈل ایسٹ کے تیل پیدا کرنے والے تمام ممالک بھی عدم استحکام کا شکار ہو سکتے ہیں اور یہ بھی تو ممکن ہے کہ یورپ کچھ عرصے کے لیے تیل کی سپلائی سے ہی محروم ہو جائے اوریہ عمل تو یورپ کی اقتصادی موت ثابت ہو سکتا ہے۔

اس لیے اب یوروپین ممالک کی تجویز پر ایک متبادل منصوبہ امریکن صدر کی ٹیبل پر ہے۔ وہ یہ ہے کہ پاکستان کو مستقل عدم استحکام کا شکار بنا دیا جائے اور یہ بہانہ کیا جائے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے دہشتگردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں، پھر پاکستان کو مستقل طور پر اقوامِ متحدہ کی تحویل میں دے دیا جائے اور اس کے بعد بتدریج پاکستان کے حصے بخرے کئے جائیں۔

جیسے کہ ایک صدی قبل خلافتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کیے گئے تھے۔

پاکستان پر قبضے کے بعد یہود بتدریج پورے مسلم خطہ پر کنٹرول حاصل کریں گے اور پھر آہستہ آہستہ غیر مسلم علاقوں کو بھی ہضم کریں گے اور ہنود دیکھتے رہ جائیں گے کیونکہ اس وقت بھی انڈیا کی اہم جگہوں پر یہودی موجود ہیں۔ پھر ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ یہود انڈیا پر بھی قبضہ کرلیں گے۔ یہ تو ایک چومکھی جنگ ہے اور اس میں صرف وہی جیتے گا جو کہ سب سے زیادہ عیار، چالاک اور مکار ہوگا۔

اب آپ یہی دیکھ لیں کہ انڈیا نے تمام مسلم ممالک میں جاسوسی اداروں کا جال بچھا رکھا ہے اور امریکہ اپنی خلاء‌ اور الیکٹرانک ٹیکنالوجی کی بناء پر دنیا کے تمام ملکوں کی ساری معلومات لمحہ بہ لمحہ اکٹھی کر رہا ہے۔ جبکہ اسرائیل صرف چند سو اہم آدمیوں کو انڈیا اور امریکہ میں اہم پوسٹس پر بٹھا کر ساری وائٹل انفارمیشن اپنے مفاد میں استعمال کر رہا ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈیا نے جب سے کشمیریوں کی تحریک آزادی سے چھٹکارا پانے کے لیے اسرائیلیوں کا تعاون حاصل کیا ہے۔ تو انہوں نے امریکہ کی توسط سے پاکستان پر دباو ڈالا ہے یوں انڈیا کو کشمیریوں کے جارحانہ اقدامات سے تو نجات مل گئی ہے مگر اس کے گلے یہودی جاسوسوں کا جو پھندا پڑگیا ہے، اس کا اندازہ ابھی بنئے کو نہیں ہے۔ ورنہ وہ دو اڑھائی لاکھ ایجنٹ پاکستان میں اور ہماری مغربی سرحد پر نہ پال رہا ہوتا کیونکہ ان کی محنت کا پھل تو ایک دن صہیونیوں نے ہی کھانا ہے۔

جس چومکھی جنگ کا آغاز آج سے ساٹھ ستر سال قبل اسرائیل کے قیام سے پہلے سر زمین فلسطین میں ہوا تھا اور جس کا دوسرا مرحلہ افغانستان پر امریکہ کی یلغار سے شروع ہوا تھا اور اب وہی جنگ پھیلا کر ہماری سرحدوں کے اندر دور دراز تک وسیع کی جا رہی ہے اور جلد ہی یہ جنگ کسی اور ملک کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے والی ہے۔ (قوموں کی زندگی میں دس بیس سال جلد ہی ہوتے ہیں) پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کے دونوں جانب لڑی جانے والی اس چومکھی جنگ میں دنیا کی ہر قابلِ ذکر طاقت ملوث ہو چکی ہے۔

آج کل ہمارے اس خطے میں جولڑائی لڑی جا رہی ہے۔ بظاہر تویہ جنگ صرف قبائلی لشکروں ( القاعدہ، طالبان یا شدت پسندوں ۔آپ جو مرضی نام دے لیں) اور پاکستانی فوج کے درمیان ہو رہی ہے ،مگر حقیقت میں اس جنگ میں ہر ملک کے حامی اور ایجنٹ ملوث ہوچکے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان میں ہر ملک کی انٹیلی جینس ایجنسیاں اپنے اپنے ملک کے مفادات کی کھچڑی پکا رہی ہیں۔
ہمارے وطن کا مفاد تو اسی میں ہے کہ ہم دوسروں کی جنگ کو اپنے ملک میں نہ پھیلائیں۔ سر جوڑ کر بیٹھنے کی کوئی تدبیر نکالیں ، افہام وتفہیم سے کام لیں اور چند ڈالرز کے بدلے اپنوں کو ہلاک کرکے خود اپنی ہلاکت کا سامان پیدا نہ کریں۔ اگر مختلف علاقے یا قومیں چھوٹے صوبوں کی ڈیمانڈ کرتی ہیں یا پھر زیادہ خود مختاری کا مطالبہ کرتی ہیں توڈیفنس، فارن افیئر اور کرنسی کو مرکز کے ہاتھ میں رکھ کر باقی کے تمام امور کو صوبائی یا لوکل گورنمنٹس کے حوالے کردیں۔

سیانے کہتے ہیں کہ سارا جاتا دیکھیے تو آدھا بانٹ دیجیے۔ دنیا کے بہت سارے ممالک میں صوبوں اور مرکز کے درمیان حقوق اور فرائض کے الگ الگ قسم کے توازن یا نظام موجود ہےں جو کہ دوسرے ممالک سے مختلف بھی ہیں اور بعض صورتوں میں ایک ہی ملک میں دو یا تین طرح کے سسٹم چل رہے ہیں جو ان کی ضروتوں اور سہولتوں کے مطابق ہے۔ ہم دور کیوں جائیں ہمارے پڑوسی ملک چین میں ہانگ کانگ، میکاو، تبت، سنکیانگ اور منگولیا کے علاقے ایسے ہیں جہاں پر مرکزی حکومت سے یا مین لینڈ کی گورنمنٹ سے الگ الگ سسٹم موجود ہیں یوں صرف ایک ملک چین میں چھ طرح کے سسٹمز چل رہے ہیں اور ملک نہ صرف قائم ہے بلکہ مضبوط بھی ہے۔

اسی طرز پر ہم اہل پاکستان بھی آپس میں مل بیٹھ کر اپنے وسائل اور مسائل باہم بانٹ سکتے ہیں۔اگر ہم مخلص ہیں تو گفت وشنید سے سارے مسلے حل ہو سکتے ہیں ۔دیکھا یہ گیا ہے کہ برسوں اور عشروں تک جنگ وجدال کرنے کے بعد اور لاکھوں انسانوں کا خونِ نا حق بہانے کے بعد بھی انجام کار یہی ہوتا ہے کہ سارے معاملے ٹیبل ٹاک سے ہی حل ہوتے ہیں ۔تو کیا ہمارے لیے یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم اپنا قیمتی وقت، قیمتی جانیں اور اموال ضائع کرنے سے قبل ہی ایسا کرلیں !

مگر سوال تو یہ ہے کہ میری اس مفاہمت والی بات کو کون سنے گا ؟

Wednesday, July 29, 2009

چین میں دہشت گردی کی تازہ لہر ذمہ دار کون؟



چین ایک طرف روز بروز معاشی سماجی انتظامی و صنعتی ترقی کی منازل طے کرکے عالمی قیادت کے فلک بوس مسند پر تخت نشین ہونے کا سامان پیدا کررہا ہے مگر دوسری طرف امریکہ اور اسکے یورپی حواریوں کو چین کا عالمی قائد بننا کسی شکل میں قبول نہیں۔یوں بیجنگ کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے مغربی ممالک اپنے سرپرست و عالمی غنڈے امریکہ کی معیت میں چین کے اندرونی حالات اور امن و امان کو تہس نہس کرنے کے لئے کئی کرتب دکھاتے رہتے ہیں تاکہ چین کو عالمی طاقت کے تاج کے لئے ان فٹ قرار دیا جاسکے۔

چین کے شمالی مغربی صوبے سنگیانگ میں چھ جولائی کو ہونے والے مسلم کش فسادات سے یہ بو ارہی ہے کہ یہ ایک گھناوئنی سازش ہے جو چین کو عالمی افق پر بدنام کرنے کے سلسلے میں تشکیل دی گئی ہے۔اب تک یہ دنگے و فساد تین سو سے زائد چینی مسلمانوں کو موت جبکہ ہزاروں کو زخمیوں کی المناک قبروں میں لٹا چکے ہیں۔یہ فسادات چین میں بسنے والے ہن نژاد مسلمانوں اور یوغور نسل سے تعلق رکھنے والی مسلم کیمیونٹی کے درمیان ہوئے اور پھر اٍس خونخوار تخریب کاری کی لہر چین کے ہر کونے میں بسنے والی مسلمان برادریوں تک جا پہنچی۔پولیس کے مطابق طرفین میں وجہ عناد ایک انٹرنیٹ پیغام ہے جس میں شرپسندوں نے لکھا کہ یغور مسلمانوں نے ہن نژاد چینی خاتون کی عزت پامال کی ہے۔

جونہی یہ پیغام ہن نژاد مسلمانوں تک پہنچا وہ سر پر کفن باندھ کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی گردن زنی کے لئے بے خطر اتش ٍ نمرود میں کود پڑے حالانکہ پولیس نے اٍس پیغام کی صحت سے انکار کرتے ہوئے اٍسے جھوٹا قرار دیا۔جنوبی چین کے شہر ساو گوان کی ایک فیکٹری میں ہن چینیوں نے دو یاغور مسلمانوں کو قتل کردیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ آگ مظاہروں حملوں اور پرتشدد واقعات کی شکل میں یہاں سے وہاں پہنچ گئی۔چینی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ اٍس سانحے میں اصل کردار امریکہ کے علحیدگی پسندوں نے ادا کیا۔چین و جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے عسکری دانشوروں نے اٍس کشت و خون کی زمہ داری افغانستان پر قابض امریکی افواج پر عائد کی ہے۔

عسکری تجزیہ نگاروں کی اکثریت اٍس نقطے پر متفق ہے کہ سی ائی اے کابل میں بیٹھ کر پاکستان ایران،سنٹرل ایشیا اور چین میں آگ و خون کا ٹورنامنٹ منعقد کرواتی رہتی ہے۔پاکستان و ایران کے علاوہ چین بھی امریکی و صہیونی ساہوکاروں کی ہٹ لسٹ پر شامل ہے کیونکہ چین کی معاشی ترقی نے امریکہ کی عالمی سپرپاوری کو خطرات کے بھنور میں دھکیل رکھا ہے۔چینی اخبارات میں قازقستان میں بسنے والے یہودیوں پر بھی فردٍ جرم عائد کی جارہی ہے۔قازقستان میں دولاکھ سے زائد یہودی اباد ہیں جو اپنے اپکو مسلمان کہلواتے ہیں مگر انکے من میں مسلمانوں کو کچلنے کی امنگ جھوم رہی ہوتی ہے۔فساد کی چنگاری کو شعلہ جوالا بنانے کا اعزاز اٍنہی نقلی یہودی مسلمانوں کا ہے جو راکھ کے ڈھیر میں نہ بصرف چنگاری سلگانے کا کام کرتے ہیں بلکہ خون کی ہولیاں بھی اٍنہی کے دم سے رچائی جاتی ہیں تاکہ مسلمانوں کو بدنام کیا جائے۔

ایک خبر کے مطابق افغانستان کے علاقے بدخشاں و فیض اباد میں سی ائی اے، موساد، ایم سکس اور دیگر مغربی ایجنسیوں نے کیمپ قائم کررکھے ہیں جہاں قازقستانی یہودی ایجنٹوں کو تربیت دیکر سنگیانگ میں فسادات کا میدان سجایا جاتا ہے۔اٍن فسادات میں امریکہ کے زہریلے کردار کو ایک معروف امریکی صحافیWILLIAM AND HALL نے گلوبل ریسرچ رپورٹ میں بے نقاب کیا ہے۔ولیم نے بیانگ دہل امریکن این جی اوned کے متعلق کھری کھری سناتے ہوئے بتایا کہ یہ این جی او امریکی حکومت کی پشت پناہی سے چین کے مسلم علحیدگی پسند عناصر کو کئی سالوں سے اسلحہ و روپیہ فراہم کررہی ہے تاکہ چین میں امن کا خرمن راکھ ہوتا رہے۔

یوغور کانگرس نامی گروپ جسکا ہیڈ کوارٹر واشنگٹن میں ہے چینی صوبے سنگیانگ میں علحیدگی کی تحریک چلائے ہوئے ہے۔اپنے تشخص و ازادی کے لئے جدو جہد کرنا کوئی بری بات نہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ امریکہ اور یورپی این جی اوز اپنی مخالف حکومت کو تار تار کرنے کے لئے ایسی علحیدگی پسند تنظیموں کو اٍستعمال کرنے کا ہنر جانتا ہے۔تائیوان و تبت کو اٍس سوچ کے تناظر میں بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے تبت و تائیوان میں ہمیشہ چین مخالف لابیوں کو خوب استعمال کیا ہے۔NED این جی او نے حال ہی میں اپنی سالانہ رپورٹ میں اٍس گناہ بے لذت کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ وہ چین میں کئی علحیدگی پسندوں کو لاکھوں ڈالر فراہم کررہی ہے۔ حالیہ فساد کی لہر کا ٹائم فریم بھی حقیقت کو عیاں کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔روس میں چند ہفتے بیشتر شنگھائی کواپریشن تنظیم کا اجلاس منعقد ہوا جس میں خطے میں امریکی مداخلت روکنے کے لئے کئی متفقہ فیصلے کئے گئے۔

ناٹو اور امریکی فوجوں کے خونی طوفان کو روکنے کے لئے شنگھائی ممبران نے مشترکہ دفاعی پالیسی مرتب کرنے کا اعلان کیا۔سنگیانگ جغرافیائی اعتبار اور معاشی و صنتی نقطہ نظر سے اور علاقی استحکام کے قیام کے تناظر میں اہم ترین علاقہ ہے۔قازقستان اور سنگیانگ کی سرحدیں متصل ہیں۔قازقستان کو رب نے تیل و گیس کی دولت سے مالا مل کیا ہوا ہے۔قازقستان اور چین کے درمیان تیل و توانائی کی خرید و فروخت کا معاہدہ ہوچکا ہے۔قازقستان سنگیانگ کے راستے چین کو تیل سپلائی کرے گا۔علاوہ ازیں چین کی کئی پائپ لائنیں اٍسی صوبے سے گزرتی ہیں۔

قازقستان کی کاشاگان فیلڈ لائن خام تیل کی دنیا میں پانچویں بڑی فیلڈ ہے اور چین سنگیانگ کے راستے650 کلومیٹر پائپ لائن سے روزانہ ہزاروں بیرل خام مال حاصل کررہا ہے۔علاوہ ازیں دو ارب ڈالر کی گیارہ سو میل لمبی پائپ لائن بھی سنگیانگ سے گزر کر چین کے صنتی علاقوں میں جائے گی جو2007 میں ازبکستان و چین کے درمیان ہونے والے معاہدے کا حصہ ہے۔قازقستان اور چین کے درمیان دس ارب ڈالر کے معاہدے ہوئے۔تیل کے یہ معاہدے سنگیانگ سے گزرنے والی نئی پائپ لائنوں پر مشتعمل ہیں۔امریکہ کو یہ خدشہ ہے کہ اگر روس و چین اقتصادی و توانائی کے شعبے میں اٍسی طرح معاہدے کرتے رہے تو خطے میں طاقتور اقتصادی عسکری و صنعتی بلاک بن جائیگا جو امریکہ کو چھٹی کا دودھ پلائے گا۔

یوں امریکہ کئی آپشن کو زیر غور لاکر سنگیانگ میں فساد برپا کروارہا ہے۔پاکستان و چین کے ناقابل عبور تعلقات قائم ہیں۔پاکستان میں دفاع و صنعت کے میدان میں نوے فیصد منصوبے چین کے اشتراک سے مکمل کئے جارہے ہیں یا ہوچکے ہیں۔گوادر پورٹ بھی چینی کمپنی کو لیز پر دی گئی ہے۔امریکہ سنگیانگ میں مذہبی انتشار کو ہوا دیکر پاک چین تعلقات ختم کروانے کے لئے حالیہ فسادات کو مذہبی لبادہ اوڑھ رہا ہے۔پاکستان چین میں باغی مسلمانوں کے کسی گروپ کو سپورٹ نہیں کرتا۔

ایسے پر آشوب حالات میں ایران پاکستان اور چین کا فرض ہے کہ وہ مستقبل میں ایسے بھڑکیلے فسادات رکوانے اور امریکی شورشوں وسازشوں کا مقابلہ کرنے کے کوئی مشترک اتحاد قائم کریں اور باہمی روابط کو مذید فروغ دیں۔سنگیانگ اور چین کے کسی قرئیے و محلے میں بسنے والے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ خون ریزی سے دریغ کریں کیونکہ ایسی تخریب کاریاں جہاں دنیا بھر میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کا سبب بنتی ہیں تو دوسری طرف اگر حالات کا دھرا سی لئے میں بہتا رہا تو ہوسکتا ہے کہ نادیدہ طاقتیں عالم اٍسلام اور چین کو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی بھونڈی کوششوں میں کامیاب ہوجائیں۔

Saturday, July 25, 2009

اللہ ہے بس پیار ہی پیار




اللہ جی آپ کو پتہ ہے پی ٹی وی پر روزانہ چھ بجے سے سات بجے تک کلام مجید کی تلاوت اور ترجمہ ‏دکھایا جاتا ہے، ‏امی کیساتھ میں بھی سنتا ہوں، آپ کو تو پتہ ہی ہوگا آج صبح ہی ایک آیت کا یہ ترجمہ بتایا گیا:- "اور اللہ کی تو ‏کسی نے ‏قدر ہی نہ کی جیسے اسکی قدر کرنا چاہیئے تھی" سچی بات ہے مجھے تو یہ سن کر بہت ہی دکھ آیا۔ میں نے امی ‏کیطرف ‏آنکھ اٹھا کر دیکھا تو امی بھی رو رہی تھیں، انکو بھی اس بات سے رونا آیا ہوگا۔ اللہ جی آپ تو بہت اچھے ہیں، آپ تو ‏‏اسوقت ہماری مدد کرتے ہیں جب سارے ہمیں چھوڑ دیتے ہیں، آپ تو بہت پیار کرنیوالے ہیں پھر آپ نے ایسا کیوں ‏کہا؟؟سارا دن ‏میں نے یہی سوچتے گزارا کہ واقعی لوگوں نے آپ کی قدر نہیں کی ہوگی اسلئے اپ نے شکوہ کیا۔۔۔۔۔اللہ جی ‏میں بہانے بہانے ‏سے امی سے پوچھتا رہا، امی کہنے لگیں، "پتّر تو نے یہ بات دل پر لے لی ہے‏‎" ‎

اللہ جی کیوں نہ دل پر لوں، اگر لوگ آپ کی قدر نہیں کرتے تو اور کس کی کریں گے؟؟ ویسے اللہ جی میں آپ کی بہت قدر ‏کرتا ‏ہوں اور جب آپ میرے کام آتے ہیں تو میں بہت ہی زیادہ قدر کرتا ہوں۔ آپ بیشک میری امی سے پوچھ لیں۔ ٹھریں میں ‏آپ کو ‏بتاتا ہوں۔
جب میں دوسری کلاس میں پڑھتا تھا اسوقت مجھے پہلے پہل آپ کا پتہ چلا تھا۔ چھٹی سے پانچ منٹ پہلے ہمارے شہر میں ‏خوب ‏طوفانی بارش ہوئی۔۔۔آندھی آئی اور جھکڑ چلے۔ لگتا تھا سارا کچھ آندھی اڑا کر لیجائے گی۔ شاں شاں کی آواز اور ‏کالی آندھی۔ ‏سارے بچے باہر بھاگے، گیٹ تک پہنچے تھے کہ بارش شروع ہوگئی، اللہ جی ویسی بارش میں نے کبھی نہیں ‏دیکھی تھی۔ لگتا ‏تھا حضرت میکائیل فوارے کی بجائے بالٹیاں بھر بھر کے الٹا رہے ہیں اور آندھی سے بچی چیزیں بارش ‏بہا کر ‏لیجائیگی۔۔۔۔۔سردیوں کی بارش اور اتنی تیز، کوئی بچہ اپنے تانگے میں بیٹھا، کوئی سائیکل اور کوئی گاڑی ‏میں۔۔۔۔۔۔۔دس منٹ ‏کے اندر اندر سارا سکول خالی ہوگیا۔ بس‎ ‎بس ہم دو تین بچے تھے جن کی ملکیت سائیکل، گاڑی یا تانگے ‏کی بجائے دو عدد ‏ٹانگیں تھیں، ہم ایک قدم آگے بڑھاتے تو بارش دو قدم پیچھے کر دیتی۔۔۔۔۔۔سردی سے سارا جسم سّن ہو گیا ‏تھا۔

اس دن میں نے سوچا یہ امیر لوگ تو بڑے عیش میں ہوتے ہی، مسئلے تو ہم جیسے غریبوں کیلئے ہیں‎ ‎‏ جب بارش کا زور تھا، ‏ہم دو بچے اپنے گھروں کی طرف چلے‏ تو اللہ جی پتہ ہے ہم نے راستے میں کیا دیکھا منیب، فراز اور عبدالغفور تینوں اپنی ‏سائیکلوں سمیت کیچڑ میں دھنسے ہوئے تھے، فراز کے چوٹ بھی خاصی لگی ہوئی تھی، ہم نے انکو اٹھایا، بیگ سائیکل پر ‏رکھ۔۔۔۔۔۔۔۔آگے گئے تو تانگے والے کا گھوڑا بدکا ہوا تھا اور کلاس چہارم کے سات آٹھ بچے سہمے سہمے ایک طرف کھڑے ‏تھے اور اللہ جی ہم چونکہ گھوڑے کو سمجھا نہیں سکتے تھے اسلئے ان بچوں کو تسّلی دیکر آگے بڑھے۔۔۔۔۔فوارہ چوک پر ‏گاڑیوں کی لمبی لائن دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔۔۔۔۔ہم گاڑیاں گنتے گئے، دس، بارہ، پندرہ اور بیس کے بعد ہماری گلی ‏آگئی۔۔۔۔بھائی نے بتایا کہ بائی پاس پربس اور ٹرالر کا بہت زبردست ایکسیڈنٹ ہوا تھا اسلئے ٹریفک بلاک ہے۔ وہ بچے جو ‏گاڑیوں میں تھے بیچارے مغرب کے بعد گھر پہنچے ہونگے۔ اس رات امی نے مجھے انڈہ ابال کے دیا، گرم گرم چائے پلائی، ‏کوئلوں والی انگیٹھی میری چارپائی کے پاس رکھی پھر بھی میں سویا نہیں، بس سوچتا رہا کہ اللہ جی آپ کتنے اچھے ہیں، آپ ‏نے ہمیں کتنی قیمتی انمول ٹانگیں تحفے کے طور پر مفت دیں اور ہم آپ کی قدر ہی نہیں کرتے۔۔۔۔!! ساری رات مجھے آپ پر ‏پیار ہی آتا رہا، سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیسے پیار کروں، مجھے کروٹیں لیتا دیکھ کر مجھے امی نے کہا:- "لگتا ہے میرا پتّر ‏ابھی تک سویا نہیں، سردی لگ رہی ہے؟؟‏‎"‎

ابا بیچارے کی تو صحت ٹھیک نہیں رہتی، امی سے ہر بات کر لیتا ہوں، میں نے امی سے کہا:- "امی گاڑیوں موٹر والوں کے ‏مقابلے میں اللہ جی نے ہمیں کتنی بڑی نعمت دی ہے ٹانگوں کی۔۔۔۔انکا شکر کیسے ادا کیا جائے؟" امی نے کہا:- "لو پتر یہ بھی ‏کوئی بات ہے، جس کی ٹانگیں نہیں ہیں اسکی ٹانگیں بن جاؤ بس یہی شکر ہے اور یہ صفت تو اللہ کو اتنی پسند ہے کہ شکر ‏کرنیوالوں کی کوئی چیز بھی واپس نہیں لیتا‎"‎

اس کے بعد تو اللہ جی میں جہاں کسی معذور کو دیکھتا، بھاگتا اسکی مدد کرتا، اسکے کام آتا اور ڈھیروں دعائیں بھی لیتا۔۔۔۔اللہ ‏جی ایسے تو کئی بیشمار واقعات ہیں جو مجھے آپ کی قدر کراتے رہے۔۔۔۔۔‏‎ ‎بہت زیادہ باتیں ہیں لیکن ایک بہت ہی خاص اور اہم ‏بات جس نے مجھے مجبور کیا کہ اٹھتے بیٹھتے آپ کا شکر ادا کروں، آپ کو یاد کروں اور آپ کا احسان مانوں وہ یہ ہے کہ ‏کلاس پنجم کا آخری سال تھا پھر ہمیںپرائمری سے ہائی سکول جانا تھا۔ ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب نے سارے بچوں سے کہا کہ ‏اگلے ہفتے مینا بازار بھی ہے اور یومِ والدین بھی۔۔۔۔۔سب بچے زیادہ پیسے لائیں، تقریریں ہونگی، مقابلے ہونگے اور کھانے ‏پینے کے سٹال لگیں گے، جھولے ہونگے اور ریچھ بندر کا تماشا بھی دکھایا جائے گا۔۔۔۔۔۔ہر بچہ کم از کم پچاس روپے تو ضرور ‏لائے۔۔۔۔۔جتنے زیادہ پیسے جمع ہونگے سکول کیلئے اتنی ہی زیادہ چیزیں خریدیں گے۔۔۔۔۔۔اور ہاں بلدیہ کے چیئرمین سمیت کئی ‏شخصیات بھی انعامات دینے آئیں گی۔

پورا ہفتہ میں امی سے پیسے مانگتا رہا لیکن امی ہر بار ٹال جاتیں۔ ابا بھی ان دنوں بہت بیمار تھے اور انکی چھابڑی پندرہ بیس ‏دنوں سے پچھلے کمرے میں اوندھی پڑی تھی۔ مینا بازار کا دن آیا۔ نان چھولے پکوڑے، چاٹ، شکر قندی، ٹافیوں سمیت بیس ‏طرح کے سٹال لگے، بچے کھیل رہے تھے، کوک پی رہے تھے، چیزیں کھا کر ہلا گلا کر کے ہضم کررہے تھے اور ہم (میں ‏اور میرا کلاس فیلو انیس) ہنسنے کی کوشش کر رہے تھے۔‏

آپ کو تو پتہ ہے اللہ جی غریب تو بیچارہ ہنسنے کی کوشش ہی کر سکتا ہے۔ انیس کی امی بھی میری امی کی طرح لوگوں کے ‏کپڑے سی کر گھر چلاتی ہیں۔ بارہ بجے یومِ والدین کی تقریب شروع ہوئی۔ اللہ جی بڑے بڑے لوگ ہار پہنے سٹیج پر بیٹھے ‏تھے۔ کئی ایک کو تو میں پہنچانتا بھی تھا۔ ایک تو شاکر صاحب تھے، ہماری ہی گلی میں رہتے ہیں۔ انکا بڑاسا جنرل سٹور ہے۔ ‏بہت امیر ہیں، جب میں سکول جاتا ہوں تو وہ جنرل سٹور کے باہر کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے ہوتے ہیں اور میں انکو سلام ‏بھی کرتا ہوں۔ امی کہتی ہیں کہ پتّر جب بھی کوئی بڑا ملے تو سلام ضرور کرتے ہیں۔ سلام کرنے سے اللہ راضی ہوتا ہے۔ خیر ‏انکے ساتھ چوھدری فیروز دین تھے جو ہماری پچھلی گلی میں رہتے ہیں، انکی فیکٹریاں ہیں کئی۔۔۔۔۔

جلسہ شروع ہوا، کئی بچوں نے تقریریں کیں، نظمیں پڑھیں، خوب تالیاں بجیں۔۔۔۔۔دوپہر کے دو بج چکے تھے۔ سب لوگوں کی ‏جیبیں خالی اور پیٹ بھر ے ہوئے تھے۔ اکثر تو کھانے کے نشے میں سست ہو رہے تھے، کوئی جمائیاں لے رہا تھا اور کوئی ‏ڈکار مار رہا تھا۔۔۔۔۔مجھے تو بھوک کی وجہ سے بہت بے چینی ہورہی تھی۔۔۔۔ میری اگلی کرسی پر ایک لڑکا مسلسل کچھ کھانے ‏میں مصروف تھا۔ اسے کھاتا دیکھ کر میرا دل چاہ رہا تھاجھپٹّامار کر اس سے چھین لوں، پر میں ایسا کیون کرتا اللہ جی۔۔۔۔۔!!! ‏میں اب سکول کے چپڑاسی کی طرف دیکھ رہا تھا وہ کب اٹھے گااور گیٹ کھولے گا۔۔۔۔۔ایک دم میں چونکا۔۔۔۔۔بہت زور سے ‏تالیاں بج رہی تھیں۔ مجھے انیس نے بتایا کہ شاکر صاحب نے سکول میں پنکھے لگوانے کیلئے پندرہ ہزار روپے دیے ہیں، یہ ‏تالیاں اسی خوشی میں بج رہی ہیں۔

میری آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں!پندرہ ہزار تو بہت ہوتے ہیں، اتنے میں ابا کا علاج ہو سکتا ہے، امی کی نئی مشین آ ‏‏سکتی ہے، آپا کی میٹرک کی فیس کا انتظام ہو سکتا ہے۔ مجھے انیس نے ہلایا، اوئے بدھو۔۔۔۔۔تمھیں بلا رہے ہیں۔۔۔۔۔کیا ‏مجھے؟ ‏میں نے پریشانی سے پوچھا، ہاں تجھے۔۔۔۔۔اس نے میری نقل اتاری۔۔۔۔۔اوئے الّو تین دفعہ تیرا نام لے چکے ہیں۔ ‏عرفان الحق ولد ‏انوار الحق ۔۔۔۔۔کلاس پنجم سی۔۔۔۔۔میں نے زندگی میں کبھی تقریر نہیں کی، نعت نہیں پڑھی، کبھی فرسٹ یا ‏سیکنڈ نہیں آیا، مجھے ‏کیوں بلا رہے ہیں۔۔۔۔۔سٹیج پر جاتے ہوئے میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں، میری ہاتھ کی ہتھیلیاں شدید ‏پسینے سے گیلی ہو رہی ‏تھیں۔ جب میں سٹیج پر چڑھا تو شاکر صاحب نے کہا:- "پیارے بچو اور اساتذہ، یہ ہے وہ بچہ جس ‏نے مجھے ہر دکھ اور ‏پریشانی سے بچنے کا راستہ دکھایا" ہے،‎ ‎میں ہکّا بکّا، انکی شکل دیکھ رہا تھا، سارے سکول میں ‏سنّاٹا طاری ہوگیا تھا‏۔ شاکر ‏صاحب نے کہا:- "مجھے انکے محلے میں سٹور کھولےچار سال ہوگئے ہیں، ان چار سالوں میں اس بچے نے روزانہ مجھے ‏صبح سکول جاتے ہوئے سلام کیا ہے‏‎!!! "‎

انہوں نے ایک انتہائی خوبصورت پیکٹ میری طرف بڑھایا، "بیٹے، یہ حقیر سا تحفہ ہے آپ کیلئے!"، میں بلا سوچے سمجھے ‏بولنے لگا "نہیں انکل میں۔۔۔۔۔" لیکن میری بات سے پہلے ہی وہ دوبارہ کہنے لگے:- "کیوں بیٹا، جب آپ مجھے سلام کرتے ہیں ‏تو وہ صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ سلام کرنے کا مطلب ہےکہ آپ نے اس شخص کو ہر طرح کی پریشانی سے ‏بچنے، بیماریوں اور برائیوں سے محفوظ رہنے کی، امن و سلامتی کی دعا دی ہے۔۔۔۔۔کیا یہ معمولی تحفہ ہے جو آپ ہمیں ‏روزانہ دیتے ہیں، ہم تو صرف آپ کا تحفہ لینے کیلئے اسوقت اخبار کے بہانے کرسی پر بیٹھتے ہیں ورنہ صبح دس بجے تک ‏تو ہم اپنی زمینوں پر رہتے ہیں" انکی آواز میں غیر معمولی جوش آگیا، "پیارے بچو! میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں، بڑوں کا ‏احترام ادب سب فرض ہے، مگر کسی انجانے کوبغیرکسی غرض کے سلام کرنا ان سے بڑھ کر ہے، دنیا میں تو ہے ہی لیکن ‏آخرت میں اس سے بلند اجر کا باعث، اور جو دنیا میں سلام کرتا ہے سلامتی کی دعا دیتا ہے، جنّت میں اللہ تعالٰی ان جنتیوں کو ‏خود سلام کریگا،

آپ سب اسے معمولی بات نہ سمجھیں، اگر آپ رجسٹر کریں تو چار سالوں میں دو ہزار دفعہ تو ضرور ہی اس ‏بچے نے مجھے سلام کر کے نیکی کمائی ہے، اب یہ تو غیر مناسب ہے کہ یہ بچہ ہوکر نیکی کمانے میں اتنا بڑا تاجر بن جائے ‏اور ہم پیچھے رہ جائیں، کیوں بیٹا۔۔۔۔۔" انہوں نے میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا، میرے کان میں ہیڈ ماسٹر نے کہا:- "لے لو ‏کاکا لے لو تحفہ" میں تحفہ لیکرکانپتے قدموں سے سٹیج سے نیچے اتر آیا، اس دن انکی گاڑی میں گھر آیا ۔۔۔۔۔وہ گھر کے اندر ‏بھی گئے، ابا کا پتہ چلا کہ ہسپتال میں ہیں تو آپا سے ہسپتال کا پتہ پوچھا۔۔۔۔۔جاتے ہوئے بہت دعائیں دیں۔ شام کو انکا منشی آٹے، ‏چینی اور گھی والوں کیساتھ آیا، امی رکھنا نہیں چاہتی تھیں، مگر منشی نے کہا کہ بہن جی، کچھ ہمیں بھی احسان کا بدلہ اتارنے ‏دیں۔ اس پیکٹ میں میرا سوٹ، نیا بیگ اور کاپیاں تھیں، اس رات میں بہت رویا۔ اللہ جی خوشی میں روتے تو نہیں مگر میں اس ‏لئے رویا کہ اللہ جی آپ نے میری اتنی معمولی سی نیکی کا دنیا میں اتنا بڑا اجر دیا، اتنی عزّت قدر کروائی۔۔۔۔آخرت میں بھی ‏دینا۔۔۔۔صرف سلام کرنے کی وجہ سے، اللہ جی تیری آپکی اتنی معمولی بات ماننے کی وجہ سے اگر آپس میں اتنی محبت پیدا ہو ‏سکتی ہے تو تیرے بڑے بڑے حکم ماننے کی وجہ سے تو دنیا جنّت ہی نہ بن جائے!!! میں نے اللہ جی اپنے آپ سے وعدہ کیا، ‏اب میں تیرا شکر ادا کرونگا، جتنے کام نیکی کے کر سکتا ہوں۔۔۔۔کرونگا۔۔۔۔۔۔اسی طرح اللہ جی آپکی قدر ہو سکتی ہے۔ اللہ جی ‏رات بہت ہوگئی ہے، امی کہتی ہیں صبح جلدی اٹھنا چاہیئے۔ دیر تک سونے سے گھر میں نحوست پھیلتی ہے اور اللہ ناراض ہوا ‏ہے۔ توبہ توبہ!!! اللہ جی آپ ناراض نہ ہوں، میں ابھی تین دفعہ دعا پڑھ کر سو جاتا ہوں۔‏

اسرائيل سے ہماری كيا دشمني ہے۔



تحریر: مولانا عبد الغفور نديم مدظله


بسم الله الرحمن الرحيم

و صل اللهم وبارك وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى اله وصحبه اجمعين

صدر نے گزشته دنوں كيمپ ڈيوڈ ميں اپنے ہم منسب مسٹر بش سے ملاقات كے بعد واشنگٹن ميں صحافيوں سے گفتگو كرتے هوئے كہا كہ "مذهبي انتہا پسندوں كو اسرائيل پر ڈكٹيٹ نہيں كرنے دوں گا. سمجهـ ميں نہيں آتا كہ ہماري اسرائيل سے كيا دشمني ہے؟ جنگيں تو ہم بهارت سے كرتے ہيں ليكن ہمارے پاسپورٹ پر لكها ہوا ہے كہ اسرائيل كے علاوه تمام ممالك ميں جانے كي اجازة ہے."

صدر كے مذكوره بالا فرمودات سے اندازه هوتا ہے كہ كيمپ ڈيوڈ كي خفيه ملاقات كارگر رہي ہے, ورنہ اسلامي برادري كا بچہ بچہ اس حقيقت سے واقف ہے كہ اسرائيل سے ہماری كيا دشمني ہے؟ اس وقت چونكہ صدر پر روشن خيالي كا بهوت سوار ہے اس لئے وه چاہتے ہيں كہ مسلم اور كافر كا فرق مٹا كر سب ايك قوم بن جائيں اور ديني اختلافات اور اسلام وكفر كے تفاوت كو يكسر ختم كرديا جائے اور اسلامي روايات كو انتہا پسندي كا نام دے كر انہيں خيرباد كہہ ديا جائے تاكہ اغيار كے ساتهـ ہم بهي تالاب ميں ننگے نہا كر اظهار يكجهتي كريں اور مسلم, يهودي, عيسائي, مجوسي,هندو كے درميان فرق باقي نہ رہے, حالانكہ ہمارے اكابر اور برصغير كے مسلمين نے ايك عليحده سلطنت كي ضرورة كو كفر اور اسلام كے اسي واضح فرق كي بنا پر محسوس كيا تها اور اسي فرق كے نتيجے ميں دنيا پر سب سے بڑی نظرياتي سلطنت پاكستان وجود ميں آئي تهي, جس فرق كو آج "روشن خيالي" طبقه آج ختم كرنے كے درپے ہے. اس روشن خيالي كا نتيجہ بخوبي سمجها جا سكتا ہے كہ پاكستان اس فرق كو مٹانے سے يقيناً اپني نظرياتي بنيادوں سے محروم ہو جائے گا.

دنيا ميں دو ہي رياستيں ايسي ہيں جو كہ نظريه كي بنياد پر وجود ميں آئيں ايك پاكستان اور دوسرا اسرائيل. پاكستان اسلامي نظريه كي بنياد پر قائم هوا جبكہ اسرائيل كي بنياد يهودي نظريه پر ركهي گئي ہے, يهوديت كا نہ صرف كہ اسلام سے كوئي جوڑ نہيں بلكہ يهودیت اسلام دشمني كا نام ہے. يہ حقيقة ايك سطحي ذهن ركهنے والے مسلمان كي سمجهـ ميں بهي آسكتي ہے كہ جو قوم اسلام كي دشمن ہے وه ہماري وفادار نہيں هو سكتي. خداوند عالم نے اهل الايمان پر يہ واضح كرديا ہے كہ "يهود ونصارى كو اپنادوست مت بناؤ. وه آپس ميں تو دوست ہيں(ليكن تمهارے دوست نہيں هو سكتے)". يهود ونصارى كي اسلام دشمني ہي كي وجہ سے حضور اكرم صلى الله عليه وسلم نے اپنے دور حياة ميں اعلان فرما ديا تها كہ "يهود ونصارى كو جزيرة العرب سے نكال ديا جائے." پهر پيغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے متعدد بار امت كو يہ تاكيد فرمائي كہ يهود ونصارى كي مخالفت كرو. ان كے ساتهـ پيغمبر اقدس صلى الله عليه وسلم كي نفرت كا يہ عالم ہے كہ آپ صلى الله عليه وسلم نے صحابه كرام رضي الله تعالى عنه سے دس محرم كے روزے كے متعلق ارشاد فرمايا, كسي صحابي نے عرض كيا كہ "يا رسول الله! ان دنوں ميں تو يهودي بهي روزه ركهتے ہيں تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كہ "اگر ميں آئنده سال زنده رہا تو (دسويں تاريخ كے ساتهـ) ايك روزه (نويں يا گيارويں محرم كا) اور ملا لوں گا"

ان اسلامي تعليمات سے بخوبي اندازه هو جاتا ہے كہ يهوديت اور اسلام ايك دوسرے سے متصادم ہيں. يہي وجہ ہے كہ آحضرت صلى الله عليه وسلم نے يهود ونصارى كي مخالفت كرنے كا حكم ديا ہے. اسرائيل ايك يهودي رياست ہے جس كي بنياد ہي يهودي نظريه پر ركهي گئي ہے, اسلام اور اهل الاسلام كے خلاف سازش كرنا اس كا بنيادي مقصد ہے. پهر بهي اگر كوئي يہ كہے كہ "سمجهـ ميں نہيں آتا كہ ہماري اسرائيل سے كيا دشمني ہے؟" تو يہ دينِ اسلام سے اس كي ناواقفيت كي دليل ہے.

قرآن وسنت كے واضح دلائل اگر سمجهـ سے بالاتر ہيں تو اسرائيل كي اسلام دشمني فلسطيني مسلمين پر روا ركهے جانے والے مظالم سے بهي عياں ہے. جب سے اسرائيلي رياسة خليج ميں واقع هوئي ہے اس وقت سے لے كر آج تك بلا شبه لاكهوں فلسطيني مسلمان لقمه اجل بنائے جا چكے ہيں اور ان پر يهوديوں كے مظالم وشدائد كا سلسله تا حال جاري ہے. اهل الاسلام كے قبله اول پر يهودي مسلط ہيں, جب چاہيں مسلمانوں كو نماز تك پڑهنے سے روك ديتے ہيں اور اگر مسلمان وہاں نماز پڑهنے كي جسارت كريں تو ان پر گولياں برسائي جاتي ہيں تاكہ وه آئنده ادهر كا رخ كرنے كي جرأت نہ كرسكيں. جن كو حضور صلى الله عليه وسلم نے اسلام دشمني كے سبب جزيرة العرب سے نكال باهر كرنے كا حكم ديا تها, آج وہي يهودي مسلمانوں كو مسجد اقصى سے باهر نكال كر مسلم دشمني اور اسلام دشمني كا ثبوت دے رہے ہيں. پهر اس پر ايك مسلم رياست كے سربراه كا كہنا كہ"سمجهـ ميں نہيں آتا كہ ہماري اسرائيل سے كيا دشمني ہے؟" ان مظلوم مسلمين كي پيٹهـ ميں چهرا گهونپنے كے مترادف ہے.

صدر صاجب پريشان ہيں كہ "جنگيں تو ہم بهارت سے كرتے ہيں ليكن ہمارے پاسپورٹ پر لكها هوا ہے كہ اسرائيل كے علاوه تمام ممالك ميں جانے كي اجازت ہے." يہ جملہ بهي كسي سابق سربراه مملكت نے يقيناً ايماني جذبے سے مغلوب هو كر ہي لكهوايا هوگا, اس لئے كہ جو ملك مسلمانوں كے وجود ہي كو تسليم نہيں كرتا اور اس كا پسنديده مشغله مسلمان مردوں, عورتوں, بچوں اور بوڑهوں كو قتل كرنا ہے, ہم آخر اس ملك ميں كيا لينے جائيں گے؟ كيا فلسطيني شهداء كے مقدس لہو پر ہم يهوديوں سے دوستي كي عمارة كهڑي كريں گے؟ كيا ہمارے معصوم بهائيوں كے خون سے اپنے ہاتهوں كو رنگين كرنے والے ہمارے دشمن نہيں؟ كيا فلسطين كي بہو, بيٹيوں كي عزتوں پر شب خون مارنے والے يهوديوں كي مسلم دشمني سمجهـ نہيں آتي؟ كيا آئے دن ٹينكوں اور توپوں كے ذريعے نہتے فلسطينيوں كو خاك وخون ميں تڑپا كر قہقہے لگانے والے اسرائيلي مسلمانوں سے دوستي كا ثبوت دے رہے ہيں؟ كيا اسرائيلي غنڈے هر دوسرے تيسرے دن فلسطيني مسلمانوں كے گهروں, مكانوں, دكانوں اور دفتروں پر بلڈوزر چڑها كر انسانية كا كوئي فرض ادا كر رہے ہيں؟ كيا اسرائيل ہمارے ازلي وابدي دشمن بهارت سے جديد جنگي اسلحه كا معاهده كر كے ہمارے ساتهـ دشمني نہيں كر رہا؟ كيا ہمارے صدر ان تمام حالات سے بالكل بے بہره ونابلد ہيں يا جان بوجهـ كر اسرائيل كي مسلم دشمني سے چشم پوشي كركے محض كيمپ ڈيوڈ كے اعزاز كو برقرار ركهنے كيلئے يہ فرما رہے ہيں كہ "سمجهـ ميں نہيں آتا كہ ہماري اسرائيل سے كيا دشمني ہے؟ جبكہ جنگيں تو ہم بهارت سے لڑتے ہيں."

صدر صاحب شائد سمجهتے ہيں كہ جس سے جنگ لڑي جائے يس وہي دشمن هوتا ہے باقي سب دوست هوتے ہيں, حالانكہ يہ مفروضه صحيح نہيں, بهارت سے ہماري جنگيں صرف اس لئے هوئيں كہ اس نے ہم پر جنگيں مسلط كي تهيں ورنہ ہم تو عرصے سے جنگ وجهاد كے نام سے ہي لزده براندام ہيں, بهارت نے ہم پر جنگ مسلط كي تو ہميں مجبوراً اپنے دفاع كيلئے جنگ كرنا پڑي, جبكہ امة المسلمه پر تو جهاد فرض كرديا گيا تها اور اس كيلئے حكم تها كہ جهاد كے ذريعے پوري دنيا كو مسخر كركے اسلام كا پهريرا لہرا دو. كيا رسول الله صلى الله عليه وسلم اور آپ كے بعد خلفاء الراشدين المهديين رضي الله عنهم اجمعين نے يهود ونصارى سے جنگيں نہيں لڑيں؟ اگر جنگ ہي كسي قوم سے دشمني اور دوستي كا معيار ہے تو اسلام كي اكثر جنگيں يهود ونصارى كے خلاف لڑي گئي ہيں, پهر سوچنے كي بات يہ ہے كہ جس قوم سے رسول الله صلى الله عليه وسلم اور خلفاء الراشدين رضي الله عنهم نےجنگيں لڑي هوں اور ان كو جزيرة العرب سے نكال باهر كيا هو اور دنيا كے كسي خطے ميں ان كي قوت كو جمع نہ هونے ديا هو كيا وه ہمارے دوست هو سكتے ہيں؟ ہم نے صرف بهارت سے چند جنگيں لڑ كر سمجهـ ليا كہ چونكہ ہم ہميشہ بهارت سے لڑتے ہيں اس لئے بس بهارت ہي ہمارا دشمن ہے جبكہ اسلام كا درس يہ ہے كہ جب تك دنيا ميں اهل الاسلام پر كفار كے مظالم و شدائد كا سلسله جاري ہے, جهاد جاري رہے گا اور مسلمانوں پر مظالم ڈهانے والي ہر قوم, ہر سلطنت اور ہر طاقت كے خلاف جهاد كيا جائے گا. اسرائيل كے مظالم كے جواب ميں تو ہميں اس كے خلاف علم جهاد بلند كرنا چاہئے تها جبكہ ہم نے جهاد كو دہشت گردي اور انتہا پسندي سے موسوم كركے مجاهدين اسلام كے گرد گهيرا تنگ كرنا شروع كرديا اور انہيں چن چن كر "پوليس مقابلوں" ميں شهيد كيا اور بعض كو زنده گرفتار كركے دشمنوں كے حوالے كرديا اور مسلمانوں كے ازلي وابدي دشمنوں سے دوستي كي پينگيں بڑهانا شروع كرديں جس پر دشمنوں نے ہميں كيمپ ڈيوڈ كے خصوصي مقام پر ملاقات كا اعزاز بخشا اور مجاهدين كي كمر توڑنے پر انعام واكرام سے نوازا.

كيمپ ڈيوڈ كے اعزازات وانعامات ہي كا نتيجہ ہے كہ مسلمانوں سے يهوديوں كي صديوں سے قائم دشمني پر اب پرده ڈالنے كي ناكام كوششيں كرتے هوئے يہ كہا جا رہا ہے كہ " سمجهـ ميں نہيں آتا كہ ہماري اسرائيل سے كيا دشمني ہے؟"

وائے ناكامي متاعِ كارواں جاتا رہا

كارواں كے دل سے احساس زياں جاتا رہا


قرآن کریم اور ایلیئنز Quran-e-karim & aliens




تحریر: ڈاکٹر عصمت حیات علوی


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم


(۱) سچی بات

قرآن کریم نے بہت سارے موضوعات اور علوم کے بارے میں بڑے واضح اشارے دئیے ہیں۔جن کی روشنی میں ہم مستقبل میں ہونی والی ایجادات اور سائنسی انکشافات کے بارے میں پیش گوئی کر سکتے ہیں۔

اس مضمون کو شروع کرنے سے قبل ایک بات ذہن میں رکھیئے کہ سائینسی تحقیقات اور علوم ابھی اپنے عہد تفولیت میں ہیں دوسرے یہ اصول بھی یاد رکھیئے کہ انسانی عقل اور فہم کا دائرہ کار محدود ہے اس کی ایک خاص حد ہے اس لیے جس مقام پر جا کر انسانی عقل کی انتہاءختم ہو جاتی ہے ۔اس سے آگے ایک لاانتہاءخلا ہے اور یہ خلا کتنا بڑا ہے ؟ اس کا علم تو اللہ علیم وخبیر کے پاس ہے۔اس خلا سے آگے اور اوپر جو علم کا سمندر ہے ، اس علم کے بارے میں تھوڑی سی آگاہی ہمیںوحی یعنی کہ قرآن کریم کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔بالفاظ دیگر انسانی علم اس وسیع کائینات کے بارے میں بے حد محدود ہے۔

اکژ یہی ہوتا ہے کہ مغربی دنیاءکے کسی جدید سائینسی انکشاف کے بعداسلامی دنیا کے علماءمضامین لکھتے ہیں اور اس حقیقت کو ثابت بھی کر دیتے ہیں کہ اس سائینسی انکشاف سے صدیوں قبل ہی قرآن کریم اس حقیقت کے بارے میں انکشاف کر چکا ہے۔چونکہ دنیا کے اخبارات میں اس سائینسی انکشاف کے بارے میں خبر پہلے آ تی ہے اور ہمارے جید علماءکے مضامین بعد میں شائع ہوتے ہیں تو بظاہر ہماری عقل ہمیں یہی دھوکا دیتی ہے کہ قرآنی علوم بھی سائینس کی ہی پیروی کر رہے ہیں حالا نکہ یہ ایک باطل خیال ہوتا ہے اورمحض ایک فریب عقل ہوتا ہے۔

آج کی گفتگو میں ہم جس حقیقت کا انکشاف کرنے جا رہے ہیں ،یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ اس حقیقت کوسائینس کے ذریعے سے مغربی دنیاءکچھ عرصے بعد ثابت کر بھی دے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قرآن حکیم میں اللہ مالک و خالق نے باقی کی چھ ارض پر موجود جن مخلوقات (ایلیئنز) کے بارے میں وحی کے ذریعے جو بھی انکشافات کئے ہےں۔ان خلائی مخلوقات کے بارے میں سائینس بے خبر ہی رہے اور صدیوں اور ہزاروں سال کے بعد بھی کوئی بھی انکشاف نہ کر سکے ،کیونکہ انسانی عقل اور وحی کے درمیان جو لا متناہی خلاءہے ۔ ہو سکتا ہے کہ سائینس اس خلاءکو کبھی بھی نہ پاٹ سکے۔

سورة الطلاق جو کہ قرآن کریم کی پینسٹھویں (۵۶) سورة ہے،اس کی بارہویں آیت میں اللہ علیم وخبیر فرماتے ہیں۔

اللّٰہ الّذی خلق سبع سمٰوٰت ومن الارض مثلھنّ یتنزّ ل الامربینھنّ لتعلموٓا انّ اللّٰہ علیٰ کلّ شی قدیر وّانّ اللّٰہ قد احاط بکل شی ءعلما ً ٭ اس کا اردو ترجمہ جو کہ شاہ عبدالقادر ؒ صاحب نے کیا ہے حاضر خدمت ہے۔

اللّٰہ وہ ہے جس نے بنائے سات آسمان اورزمینیں بھی اتنی ، اترتا ہے حکم ان کے بیچ ، تا تم جانو کہ اللّٰہ ہر چیز کر سکتا ہے، اور اللّٰہ کی خبر میں سمائی ہے ہر چیز کی ۔[۲۱] الطلاق (۲۱)

اللہ علیم و حکیم اس آیت میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے سات آسمان تخلیق فرمائے ہیں اور اتنی ہی زمینیں بھی۔

اگر ہم سبع سمٰوٰت کی تشریح کر لیں گے تو الارض کا مطلب ہمیں خود ہی سمجھ آ جائے گا۔
اگر ہم غور کریں تو اس آیت میں آسمان سے مراد اس کائنات کا ایک ایسا خاص حصہ ہے ،جو کہ دوسرے ہر آسمان سے یا

باقی کے چھ آسمانوں سے علیحدہ یا الگ ہے،یعنی کہ سات ایسے آسمانی خطے ہیں جو کہ ایک دوسرے سے اتنے فاصلے پر ہیں کہ اگر ہم انکو کائنات کے کسی ایک کنارے سے دیکھیں گے تو وہ ایک دوسرے سے علیحدٰہ اور الگ دکھائی دیں گے،ورنہ اللہ علیم وحکیم الفاظ کوخواہ مخواہ ضائع نہیں فرماتے ،اس لیے اس بنیادی اصول کو ہمیشہ کے لئے یاد رکھئے کہ قرآن حکیم کے ہر ہر لفظ کا کوئی نہ کوئی مفہوم یامطلب ضرور ہوتا ہے۔

یہ تو ہمیں علم ہی ہے کہ ہمارا نظام شمسی جس کہکشاں کا حصہ ہے اسی کہکشاں میں ہمارے نظام شمسی جیسے اور بھی بہت سارے دوسرے آزاد اور خودمختار نظام شمسی موجود ہیں اور سائینسی علم نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ ایک کہکشاں میں بے شمار ستارے ہوتے ہیں۔ستارہ سے مراد روشنی اور حرارت خارج کرنے والا ایک کرّہ ہے ،جسے ہم شمس بھی کہتے ہیں اور ہر شمس یا سورج کے گرد کئی کئی کرے گھوم رہے ہوتے ہیں ۔جو کہ حرارت یا توانائی اپنے سورج یا شمس سے ہی حاصل کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جس کہکشاں کا حصہ ہیں ، اس میں ان گنت کرّے موجود ہیں۔ جو کہ اپنے اپنے ستاروں یا سورجوں کے گردا گرد گردش کر رہے ہیں۔

ابھی تک تو ہمیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ ہماری کہکشاں میں کل کتنے کرّے ہیں اور ہماری کہکشاں کتنی بڑی ہے؟ مگریہ ہو سکتا ہے کہ ہم سائینس کے علم کی مناسب ترقی کے بعد ان تمام کرّوں کی گنتی بھی کرسکیں گے اور یہ بھی جان سکیں گے کہ ہماری کہکشاں بذات خود ایک مکمل آسمان ہے یا کہ کسی ایک آسمان کا معمولی سا حصہ ہے ؟

بہر حال یہ کائنات اس قدر وسیع اور بڑی ہے کہ اگر انسان روشنی کی رفتار سے کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے پر پہنچنا چاہے تو کر وڑ وں سال بھی ناکافی ہیں،کیونکہ سائینسدان خود ہی یہ بتاتے ہیں،کہ ہماری زمین کی تخلیق سے لاکھوں سال قبل جو روشنی اس کائنات کے کچھ ستاروں سے نکلی تھی ،وہ روشنی اب جا کر ہماری زمین تک پہنچی ہے۔یاد رہے کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔اب آپ خود ہی حساب لگا سکتے ہیں کہ ہماری کائنات کتنی وسیع ہے ؟؟؟

اس وسیع وعریض کائنات کو خالق کائنات نے سات طبقات یعنی کہ سات آسمانوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور ہر آسمان میں ایک ارض ہے ۔اب ارض سے مراد خالی خولی کرّہ تو ہو ہی نہیںسکتاکیونکہ یہ بنیادی اصول تو ہم پہلے ہی طے کرچکے ہیں کہ ہمارے خالق رب السمٰوٰت و الارض الفاظ کو خواہ مخواہ ضائع نہیں فرماتے ۔اگر اس کائنات کے باقی کے سمٰوٰت پر محض عام اقسام کے حیات سے خالی کرّے ہی گردش کر رہے ہوتے تواللہ خالق کائنات الارض مثلھن کے الفاظ کا استعمال نہ فرماتے ۔

کیونکہ ہماری اس زمین پر یعنی کہ فی الارض اللہ حکیم نے انسان کو خلافت بخشی ہے ۔اس کا واضح مطلب تو یہی ہے کہ سبع سمٰوٰت فی الارض سے ہمارے خالق کی مراد یہ ہے کہ باقی کی چھ ارض پربھی حیات موجود ہے اور وہاں پر بھی انسان کی ہی طرح سے کوئی ذہین اور جواب دہ مخلوق موجود ہے۔

عبداللہ بن عباس ؓ نے ایک مرتبہ سورة الطلاق کی اس آیت کا کچھ ایسا ہی مفہوم بیان کیا تھا کہ ہماری اس ارض کے علاوہ بھی اس کائنات میں مزید ارض موجود ہےں ۔یاد رہے کہ احادیث کی متعدد کتب میںنبی اکرم ﷺ کے ان چچا زاد بھائی کو ابن عباس لکھا گیا ہے اور وہ متعدد صحیح احادیث کے را وی ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ابن عباس کوعلم تھا کہ ہم انسانوں کی طرح سے اس کائنات میںآسمانی مخلوق یعنی کہ ایلیئنزموجود ہیں ۔ یہ علم ان کو نبی کریم ﷺ نے عطا فرمایا تھا ۔جس طرح سے انہوں نے کچھ خفیہ علوم سے علیؓ ابن ابوطالب کو آگاہ کر رکھا تھا۔ایسے ہی اپنے وحی شدہ علم میں سے انہوں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما کو منافقینِ مدینہ کے بارے میںبتا رکھا تھا۔

کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ ابن عباسؓ نے کھل کر ایلیئنز کے بارے میں کیونکر نہیں بتایا ؟

وہ اس لیے کہ ان کے دور میں انسانی عقل اور علوم نے اتنی ترقی نہ کی تھی کہ کافر ان انکشافات کو اسی طرح سے کھلے دل و دماغ کے ساتھ مان لیتے جس طرح سے اصحاب رسولﷺ امنّا وصدقنا کہہ کر نبی کریمﷺ کی ہر بات یعنی کہ قرآن کریم اور حدیث رسولﷺ پر ایمان لے آ یا کرتے تھے۔مکہ المکرمہ کے کافر تو اتنے بے عقل تھے کہ انکی عقل میں اتنی سی بات بھی نہیں آئی تھی کہ ان کے شہر کا صادق اور امین ایک رات کے عرصے میں سات آسمانوں کی سیر کرسکتا ہے۔

چلیں! ان لوگوں کی عقل اور علم تو محدود تھا ، آج کے کافر وںکی عقل بھی اتنی ہی محدود اورکج ہے کہ وہ یہ بات بالکل ہی تسلیم نہ کریں گے کہ جس براق پر سوار ہو کر نبی اکرم ﷺ معراج پر تشریف لے کر گئے تھے ، اس براق کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی کئی لاکھ گنا یا کروڑ گنا زیادہ تھی۔

قرآن مجید میں سورة الطلاق کی اس مخصوص آیت کا حقیقی مطلب تو یہی ہے کہ اس کائنات میں سات آسمان ہیں اور ہر آسمان کی کسی ا یک کہکشاں کے کسی ایک نظام شمسی میں کوئی ایک کرّہ ایسا ضرور ہوتا ہے ،جہاں پر حیات اپنی پوری جولانیوں سمیت موجود ہے اور ضرور موجود ہے۔ اس حیات کا ایک مقصد یہ ہے کہ ان چھ کی چھ ارض پر اللہ خالق کائنات نے کسی ایک جواب دہ مخلوق کو اپنا خلیفہ مقرر کیا ہوا ہے اسی لئے تو ان تمام کو ہماری ارض سے تشبیہ دی ہے ۔ اس ارض پر جو جواب دہ مخلوق حکومت سنبھالے ہوئے ہے ،اسے ہم ای ۔ٹی۔ بھی کہہ سکتے ہیں یاپھر آپ ہی اسے کوئی اور دل پسند نام دے لیجئے۔

کیا یہ ای ۔ٹی۔ E.T. یا ایلیئنز کسی طرح سے ہماری زمین یعنی کہ ہماری ارض پر آ سکتی ہے ؟

اپنی ذاتی عقل استعمال کرنے کی بجائے ،کیوں نہ ہم یہی بات قرآن حکیم سے دریافت کرلیں ؟

اور یہ بات عقل کے مطابق بھی لگتی ہے۔کیونکہ اس کائنات کی دور دراز واقع چھ ارض پر ا ن مخلوقات کی خبر بھی تو ہمیں قرآن حکیم نے ہی تو دی ہے۔تو چلئے ہم اپنی کتاب مقدس قرآن حکیم سے ہی دریافت کرتے ہیں۔

دین اسلام کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ قرآن کریم میں بیان کئے گئے تمام اصولوں کی تشریح اور وضاحت ہمارے نبی کریم ﷺ نے اپنی زبان اور عمل کے ذریعے سے کی ہے اور بہت سارے ایسے امور بھی ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں تو بالکل ہی نہیں ہے مگر ان کا بھی علم ہمیں نبی ﷺ کی زبانی ہی ہوا ہے ۔ان زبانی باتوں یا اعمال و احکام کو ہم احادیث نبوی ﷺ کہتے ہیں۔ان احادیث ﷺ میں ہمیں اس دنیا کے خاتمے اور بعد از موت زندگی کے بارے میں بڑی ہی واضح اور غیر مبہم ہدایات دی گئی ہیں اور اس دنیا میں مستقبل میں ہونے والے واقعات سے متعلق غیب کی تمام باتیں بھی کھل کر بیان کی گئی ہیں۔ جیسے کہ فتنہءدجال،امام مہدی کا ظہور اور عیسیٰ علیہ السلام کی اس دنیا میں دو بارہ واپسی اور بھی بہت سارے امورہیں،جن کا علم ہمیں صرف اور صرف صاحب وحی نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے ہی ہوا ہے۔

قرآن مجید نے آسمانی یا خلائی مخلوق کے بارے میں سورة الکہف میں بڑے ہی واضح اشارے دئیے ہیں۔اگر ہم اس سورة پر غوروفکر کریں گے ، تو اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس سورة میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں ،ان واقعات کا انسانی عقل تو احاطہ کرہی نہیں سکتی اور ان واقعات کو صرف ایمان والے ہی تسلیم کریں گے جو کہ وحی اور غیب پر ایمان لا چکے ہیں۔
اس سورة میں تین ایسے قصص ہیں ،جن کے بارے میں اللہ علیم و حکیم نے فرمایا ہے کہ
ام حسبت انّ اصحٰب الکھف والرّقیم کانوا من ایٰتٰنا عجبا۔ ٭

کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب تھے ؟ [۹ ] الکھف

یہ سوال اہل ایمان سے نہیں ہے، بلکہ اس سوال کا بظاہر مخاطب تو کفار مکہ ہیں اور اصل میں یثرب کی یہودی ربی ہیں۔ جو کہ مکہ کے کافروں کو طرح طرح کی پٹیاں پڑھایا کرتے تھے۔دراصل یہ تینوں قصص اس وقت کی تورٰة میں موجود تھے اور آج بھی کچھ پرانی تور ٰ ة میں اپنے اصل الفاظ میں ہی مل سکتے ہیں ۔(یہ ہاتھ سے لکھی ہوئی وہ تور ٰ ة ہیں، جن کو گمراہ ربی آج تک بدل نہیں سکے۔ )

ستم کی بات یہ ہے کہ طرح طرح کے سوال کرنے والے یہودی ربی اور ان کے گمراہ شاگرد یعنی کہ کفار مکہ ان غیب کی

باتوں کے درست اور صحیح جوابات ملنے کے باوجود ایمان نہ لائے تھے ۔اس سے یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ جنہوں نے ایمان نہ لانا ہو وہ معجزے دیکھ کر اور حق سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی ایمان نہیں لاتے اور جنہوںنے ایمان لانا ہو وہ نہ تو معجزے طلب کرتے ہیں اور نہ ہی سچے نبی سے اوٹ پٹانگ قسم کے سوالات کرتے ہیں ،وہ تو اپنے قلب سلیم کی گواہی سنتے ہیں اور ایمان لے آتے ہیں۔

سورة الکھف میں یہودی ربیوں کے سوال پر جو تین قصص بیان کئے گئے ہیں ،تینوں کے تینوں قصص انسانی عقل کے معیار سے بلند تر ہی ہیںاور ان کو بیان کرنے کے اتنے مقاصد ہیں کہ میرے جیسا کم علم آدمی ان کے سب مقاصد کو بیان کرنے سے عاجز ہے۔سورة الکھف میں اللہ علام الغیوب نے ایسی باتیں ظاہر کردی ہیں ،جو کہ ایک عام سطح کے آدمی کی عقل کی کسوٹی پر پورا نہیں اتر سکتیں ،کیونکہ روزمرّہ کی زندگی میں ایسے واقعات کا رونماءہونا ایک ناممکن سی بات ہی ہواکرتی ہے ۔ ایسے واقعات تو صرف اور صرف مخصوص حالات میں مخصوص اور صاحب ایمان ہستیوں کو ملاحظہ کرا ئے جاتے ہیں یا پھر گمراہ قوموں کو بھی ان کے مطالبے پر معجزات دکھائے جاتے تھے اور پھر جب وہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لاتی تھیں ۔ تو ان کوصفحہ ہستی سے مٹا بھی دیا جاتا تھا اور یہی اللہ قادر مطلق کی سنت ہے۔

یہودی ربّیوں کے استفسار پر سورة الکھف میں پہلے اصحٰب الکھف کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ہے۔یہودی ربّیوں نے کفار مکہ کے ذریعے سے جس دوسرے واقعہ پر نبی بر حق ﷺ کو پرکھنا چاہا تھا اس میں موسٰی علیہ السلام کا قصہ مذکور ہے اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس جلیل القدر نبی کو مسلمین تو مانتے تھے اور جن کافروں کی وساطت سے یہود مسلمین کو زچ کرنا چاہتے تھے، وہ کفار مکہ ان کے منکر تھے ۔اسے کہتے ہیں دشمنی برائے دشمنی۔

اس قصے میں ہمارے موضوع سے متعلق اہم بات یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو جس شخصیت سے ملنے کو کہا گیا تھا ، ان کو اللہ حکیم و علیم نے عبد کہا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم نے اسے رحمةدی تھی اور علم سکھایا تھا۔

عبد اسے کہتے ہیں جس کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ مالک کی رضاءمیں ایسے گذرے کہ اس کا سونا اورجاگنا تک عبادت بن جاتا ہے۔یہ بات ذہن میں رکھیئے گاکہ جن وانس دونوں مخلوقات میں سے کوئی بھی شخص عبد ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں
رکھیئے کہ وہ شخص جن کو عبد کہا گیا ہے۔وہ ایک خاص علم کے حامل ضرور تھے مگر نبی یا رسول نہ تھے ،کیونکہ اگر وہ نبی ہوتے تو اللہ مالک و خالق فرماتے کہ ہم نے اسے نبوت اور حکمت عطاءفرمائی تھی اور یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ نبی یا رسول صرف انسانوں میں سے چنے جاتے تھے۔

پھر یہ بات بھی ذہن میں رکھیئے کہ اللہ حکیم وعلیم نے جنات میں سے اپنے عباد(عبد کی جمع)کو کچھ مخصوص علوم اوردوسری بہت سی رحمتوں سے ضرور نوزا ہے۔اسے لئے ان کو جو علم سکھایا گیا تھا ۔ موسیٰ علیہ السلام اس علم سے نا آشنا تھے۔ کیونکہ انسانوں کو ایسے مخصوص علوم کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے۔

اگر ضرورت ہوتی تو سلیمان علیہ السلام کو یہ علم ضرور دیا جاتا، جو کہ ہواﺅں اوردوسری مخلوقات کے علاوہ جنوں پر بھی حاکم تھے۔آپ سورة النمل کی انتالیس (۹۳) اور چالیس (۰۴)آیات کا مطالعہ کر لیجیے۔بات آپ پر بالکل ہی واضح ہو جائے گی۔ ان دونوں آیات کا ترجمہ پیش خدمت ہے اور موقع محل یہ ہے۔ جب ملکہ بلقیس کے تحت کو لانے کی بات چیت چل رہی تھی۔

بولا ایک راکس جنوں میں سے میں لا دیتا ہوں وہ تجھ کو ،پہلے اس سے کہ تو اٹھے اپنی جگہ سے۔اور میں اس کے زور کا ہوں معتبر[۹۳]بولا وہ شخص جس کے پاس تھا ایک علم کتاب کا، میں لا دیتا ہوں تجھ کو وہ پہلے اس سے کہ پھر آوے تیری طرف تیری آنکھ۔ پھر جب دیکھا وہ دھرا اپنے پاس کہا ،یہ میرے رب کے فضل سے ، میرے جانچنے کو، کہ میں شکر کرتا ہوں کہ نا شکری۔اور جو کوئی شکر کرے سو شکر کرے اپنے واسطے۔اور جو ناشکری کرے ، سو میرا رب بے پروا ہے نیک ذات[۰۴] النمل (۷۲)

اب ہم ذوالقرنین کے قصّے کو لیتے ہیں،جو کہ ترتیب کے لحاظ سے تیسرا ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ قصہ قرآن کریم سے قبل نازل ہونے والی کتب میں بھی موجود تھا ورنہ یہودی ذوالقرنین کے بارے میں کبھی بھی سوالات نہ پوچھتے۔جس طرح سے یہ قصہ اس وقت کی تورٰة میں موجود تھا، کسی کمی بیشی کے بغیر ویسے ہی خاتم النبین ﷺ پر نازل کیا گیا تھا ۔ ورنہ اس دور کے یہودی ربی یہ الزام ضرور لگاتے کہ یہ رسول اصل قصے میں تحریف کرلایا ہے۔

ذوالقرنین ایک ایسے نبی تھے جن کو یہ دسترس اور طاقت دی گئی کہ وہ خلائی سفر کرسکتے تھے۔جیسے سلیمان علیہ السلام کوسفر کرنے کے لیے ہواﺅں پر دسترس اور طاقت عطاءکی گئی تھی۔ ملاحظہ فرمائیے سورة الکھف کی آیت چور اسی(۴ ۸) میں اللہ علیم وحکیم فرماتے ہیں ۔ انّا مکّنّا لہ فی الارض و اٰتینہ من کلّ شی ءسببا۔ ٭

ہم نے اس کو زمین میں بڑی دسترس دی تھی اور ہر طرح کا سامان عطا کیا تھا ۔[۴۸]
( یاد رہے کہ سورة الکھف کی تمام آیات کا اردو ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری صاحب کا ہے۔)

اگر ہم غور وخوض کریں تو ہم اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ ذوالقرنین کو اس زمین کے اندر اور باہر کے خزانوں پر مکمل کنٹرول حاصل تھا یعنی کہ وہ معدنیات اور جمادات پر مکمل دسترس رکھتے تھے اسی لئے تو انہوں نے ایک خاص سفر کی تیاری کی تھی ۔ فا تبع سببا۔٭ تو اس نے (سفر)ایک سامان کیا ۔[۵۸]

حتی اذا بلغ مغرب الشّمس وجدھا تغرب فی عین حمئتہ وّ وجدعندھا قوما ط قلنا یٰذا القرنین امّا ٓ ان تعذّب و امّآ ان تتّخذ فی ھم حسنا۔٭

یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تو اسے ایسا پایا کہ ایک کیچڑ کی ندی میں ڈوب رہا ہے اور اس (ندی)کے پاس ایک قوم دیکھی ہم نے کہا ذوالقرنین ! تم ان کو خواہ تکلیف دو خواہ ان(کے بارے ) میں بھلائی اختیار کرو(دونوں باتوں کی تم کو قدرت ہے)۔[۶۸]

یعنی کہ وہ ایسی ارض یا کرّہ ارض پر جا پہنچے تھے جس کرّہ ارض کی سطح پر کیچڑ کی طرح کا پانی بہتا تھا۔اگر ہم سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر سورج کے غروب ہونے اور سورج کے طلوع ہونے کا منظر دیکھیں تو ہمیں ظاہراً توایسا ہی لگے گا کہ سورج سمندر میں ڈوب رہا ہے یا سمندر میں سے طلوع ہو رہا ہے۔

پھر اس سورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ذوالقرنین کو اس ارض، کرّے یا پلینٹ کے لوگوں پر حکومت کا بھی اختیار دیاگیا تھا۔

ثم ّ اتبع سببا۔ ٭ پھر اس نے ایک اور سامان(سفرکا)کیا ۔[۹۸]

یعنی کہ اب ذوالقرنین نے دوسرا سفر بھی کےا تھا ۔ تو وہ کہاں پر پہنچے تھے ؟
حتی اذا بلغ مطلع الشمس وجدھا تطلع علیٰ قوم ٍ لّم نجعل لّھم من دونھا ستترا۔٭
یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے جن کے لیے ہم نے سورج کے اس طرف کوئی اوٹ نہیں بنائی تھی۔[۰۹]

اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ سیارہ یا ارض اپنے نظامِ شمسی کے سورج کے اتنا نزدیک تھا کہ ان کی ارض پر صبح کے وقت سورج کے طلوع ہوتے ہوئے ایسے ہی لگتا تھا جیسے کہ سورج کے اور اس زمین کے درمیان کوئی اوٹ نہیں ہے۔ ہماری زمین پر ایسا کوئی بھی مقام نہیں ہے جہاں پر طلوع آفتاب کے وقت ایسا منظر نظر آئے۔

ذو القرنین کے تیسرے سفر کا بھی ذکر اسی سورة میں موجود ہے۔
ثّم اتبع سببا۔ ٭ پھر اس نے ایک اور سامان کیا۔[۲۹]

حتی اذا بلغ بین السّدّین وجد من دونھما قوما لّا یکادون یفقھون قولا۔
٭ یہاں تک کہ دو دیواروں کے درمیان پہنچا تو دیکھا کہ ان کے اس طرف کچھ لوگ ہیں کہ بات کو سمجھ نہیں سکتے ۔[۳۹]

یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ وہ قوم جو کہ سدین کے درمیان تھی۔ ذوالقرنین کی سرکاری زبان سمجھنے سے عاجز تھی ۔ با لفاظ دیگر وہ قوم اس زبان کو نہ سمجھ سکتی تھی جو کہ اس وقت کے انسان بولتے تھے ۔ مگر جب اس قوم نے کلام کیا تھا تو ذوالقرنین اپنے علم کی فضیلت کی بنا پر ان کی زبان سمجھ گئے تھے۔ملاحظہ فرمائے اگلی آیت،

قالو یٰذ ا القرنین انّ یا جوج و ماجوج مفسدون فی الارض فھل نجعل لک خز جا علیٰ ان تجعل بیننا و بینھم سدّا ٭ ان لوگوں نے کہا کہ ذوالقرنین ! یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کرتے رہتے ہیں۔بھلا ہم آپ کے لیے رقم ( کا انتظام) کر دیںکہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں۔[۴۹]

اللہ خالق و مالک فرماتے ہیں ۔چونکہ ذوالقرنین صاحب حیثیت تھے اس لیے انہوں نے اس قوم سے رقم یا نقدی نہ لی تھی بلکہ صرف مزدور لئے تھے اور دو پہاڑوں کے درمیان کھلی جگہ کو لوہے سے پاٹ کر اسے پگھلے تانبے سے ایک جان کرکے اس کو یاجوج اور ماجوج کے لیے ناقابل عبور اور نا قابل تسخیر کر دیا تھااور اس قوم کو غیب کی یہ خبر بھی دے دی تھی کہ جب رب کے وعد ے کا دن آئے گا تو رب کائنات اس سد یا رکاوٹ کو ڈھا کر برابر کر دیں گے۔
وہ کون سا دن ہوگا ؟

ننانویں اور سوویں آیت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔
(اس روز )ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ(روئے زمین پر پھیل کر)ایک دوسرے میں گھس جائیںگے اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو جمع کر لیں گے۔[۹۹]اور ہم اس روز جہنم کو کافروں کے سامنے لائیںگے۔[۰۰۱]

یہ دونوں آیات بتا رہی ہیں کہ جس دن ایلیئنز ہماری زمین پر آئیں گے، وہ دن قیامت کا دن ہوگا۔

سورة الکھف کی آیات کے مطالعے کے بعد یہ ثابت ہو ا ہے کہ ذوالقرنین صاحب نے تین اطراف میں سفر کئے تھے۔

مغرب،مشرق اور ایک نا معلوم سمت کو۔ ذوالقرنین صاحب جن تین مقامات پر گئے تھے اگر وہ ہماری زمین پر ہوتے تو اب تک انسان ان کو ضرور تلاش کرچکا ہوتا۔البتہ ایک حدیث میں مذکور ہے کہ ایک شخص نے اس دیوار کو دیکھا تھا اور
نبی آخزالزماں ﷺ سے اسکا ذکر بھی کیاتھا۔سبھی اہل علم جانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس مسلم جن بھی تشریف لا یا کرتے تھے اور جن تو ایک ایسی مخلوق ہے جس کی عمر ہزاروں سال طویل ہوتی ہے اور یہ ناری مخلوق آسمانوں کی سیریں بھی کرتی پھرتی ہے اور وہاں سے فرشتوں کی کچھ باتیں بھی سن گن لیتی ہے۔
اس لیے جناتی مخلوق تو وہاں تک با آسانی جا سکتی ہے جہاں جہاں تک ذو ا لقرنین صاحب تشریف لے کر گئے تھے۔

ایک قابل غور بات اور ہے۔ وہ یہ کہ اگر ہم دجال سے متعلق تمام احادیث کا مطالعہ کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ دجال بے شک مذہباً یہودی ہی ہوگا مگر نسلاً ایک جن ہوگا۔ جس طرح سے امام مہدی آدم علیہ السلام کی ذریّت سے ہوں گے ایسے ہی وہ لعنتی شخص شیطان لعین کی نسل میں سے ہوگا ۔

اس گفتگو کے اختتام پر ہمارے ذہن میں دوسوال پیداہو تے ہیں۔

(۱)کیا ہمیں خلائی تحقیقات کرنی چاہئیں ؟
بے شک ! اگر خلائی تحقیقات سے انسانیت کو فائدہ حاصل ہوتا ہے تو ہمیں بھی خلائی مسابقت میں حصہ لینا چاہیے۔

(۲)اس آرٹیکل لکھنے کا مقصد کیا ہے؟
کل کلاں کو جب کافر اور مشرک جدید ٹکنالوجی کی مدد سے یہ انکشاف کریں کہ کچھ سیاروں پر کچھ انسان نما مخلوقات بھی پائی جاتی ہیں ۔تو اس وقت امت محمدیہ ﷺ احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے خود اعتمادی سے یہ کہے کہ ارے بھئی ! اس میں کون سی نئی بات ہے اس بات کی خبر تو ہمارے سچے نبی ﷺ نے بہت پہلے کر دی تھی اور بطور ثبوت قرآن حکیم پیش کردیں۔

ان سطور میں مجھے اس حقیقت کا اعتراف بھی کرنا ہے کہ میں نے آسمانی یا خلائی مخلوقات پر جو کچھ بھی لکھا ہے ۔صرف چند صفحے لکھا ہے ۔کیونکہ میں تو دین اسلام کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں۔اگر قرآن حکیم اور احادیث کی مدد سے ایلیئنز پر مفصل لکھا جائے تو ہز ا روں صفحات پر مشتمل سینکڑوں کتب لکھی جا سکتی ہیں۔ یہ کام تو علماءکرام اور فضلاءکرام کا ہے۔جس کا آغاز میں نے کردیا ہے ۔اب یہ تو اساتذہ کرام کی مرضی و منشاء پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

Sunday, July 19, 2009

آئیے پزل جوڑیں۔




تحریر: ڈاکٹر عصمت حیات علوی



بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم



میرے کچھ نادان اور بھولے دوست جو کہ صحافی ہیں یا پھر کالم نگار ہیں وہ انٹر نیٹ سے کچھ خبریں کاپی اور پیسٹ کرتے ہیں ۔پھر ہر پیرے کے شروع میں اور اختتام پر اپنی طرف سے ایک جملہ لگا دیتے ہیں ۔پھر اخبارات کو بھیج دیتے ہیں اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اخبارات ان تحریروں کو چھاپ بھی دیتے ہیں ۔کیوں کہ ہر اخبار اور اشاعتی ادارے کی کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔فی الحال ان کے ذکر کا مقام نہیں ہے اس لیے ہم آگے بڑھتے ہیں اور مجبوریوں کے موضوع کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

میرا مقصد کسی کی توہین کرنا یا کسی کا مذاق اڑانا نہیں ہے اور نہ ہی کسی سیدھے سادے اور مخلص شخص کی نیت پر شک کرنا ہے میں تو محض اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ بعض اوقات ہم صحافی لوگ اور کالم نگار انجانے میں اور بھولے پن میں کسی دشمن کا آلہ کار بن جاتے ہیں اور ہمیں اس غلطی کا احساس تک نہیں ہوتا ۔میں تو صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب بھی ہمیں کوئی خبر ملے، تب ہمیں اپنا دل و دماغ ٹھنڈا رکھ کر یہ سوچنا چاہئے کہ خبر میں جس شخص کو مطعون کیا جا رہا ہے ۔

ورلڈ میڈیا یا ہماری حکومت کے ارباب واختیار جس لیڈر، مجاہد یا عالم کی طرف اپنی انگلی اٹھا رہے ہیں ۔کیا اس محترم شخصیت یا ہستی کا ماضی اس عیب یا جرم سے کوئی تعلق یا واسطہ رکھتا ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور اکثر صورتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ ورلڈ میڈیا ،عالمی غنڈے اور ہماری حکومت اس پاک صاف اور با کردار محترم ہستی کو بدنام کرکے دراصل دینِ اسلام اور اس کے سچے پیرو کاروں کو بدنام کرنا چاہتے ہےں ۔ان کے کچھ گھٹیا اور گندے مقاصد ہوتے ہیں۔ہمیں دشمنو ں کے مقاصد اور منصوبوں پر اپنی نظر رکھنی چاہئے اورمحض جذباتی ہو کر غصے کے عالم میں قلم کاغذ پکڑ کر کسی اپنے مخلص اور محترم پر خواہ مخواہ کیچڑ اچھالنے سے گریز ہی کرنا چاہیے ۔یہ نہ ہو کہ ہم روز قیامت اپنے غلط لکھے پر ایسے قابو میں آئیں کہ اللہ جبار و قہار کے غضب کے مستحق قرار پائیں۔

چھبیس نومبر کو ممبئی میں جو ڈرامہ کیا گیا تھا وہ دراصل نائین الیون کی ایک نئی قسط یا فریش ایپیسوڈ (FreshEpisode) )تھی۔اس موقع پر عالمی غنڈوں ،میڈیا اور ہماری حکومت و انتظامیہ نے بیک آواز ہو کر کشمیر میں جہاد کرنے والی تنظیموں پر بے بنیاد الزام ترشی کی تھی۔کچھ پاکستانی لفافہ صحافیوں نے اس موقع پر جہادی تنظیموں پر گند اچھالا تھا اورا پنا ذاتی غصہ بھی اتاراتھا۔ اس وقت بات تازی تازی تھی ۔اس لیے سبھی اپنے اور پرائے بغیر کسی تحقیق اور تفتیش کے جہادی حلقوں کے ایسے خلاف ہو گئے تھے کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی اور اسوقت کسی نے بھی اعتدال پسندصحافیوں اور ماڈریٹ حلقوں کی آواز پر کان نہ دھرا تھا ۔ چونکہ ذاتی مشاہدے،تجربے اور تحقیق کی بنیاد پر میرا یہ پختہ ایمان تھا کہ کشمیر میں جہاد کرنے والی ایک بھی اصلی اور سچی تنظیم یہ انسانیت سوز فعل نہیں کر سکتی ۔اس لیے میں نے اس موضوع پر نہ صرف کالم اور مدلل مضامین بھی لکھے تھے ، بلکہ پاکستانی حکومت کے اہم عہدے داروں کو ذاتی خطوط بھی لکھے تھے اور کھل کر یہ بیان کیا تھا کہ کشمیری جہادی تنظیمیں یہ گھٹیا اور برا کام کر ہی نہیں سکتیں۔

میرے معزز قارئین کرام اس بات کی تصدیق کریں گے کہ دسمبر دوہزار آٹھ سے لے کر آج کے دن تک میرا یہی ایک ہی موقف رہا ہے کہ یہ کام بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اسرائیلی انٹیلی جینس ایجنسیوں کے تعاون سے کیا ہے اور میں اپنے اس موقف پر اب بھی قائم ہوں ۔بلکہ اب جب کہ جناب محترم حافظ سعید صاحب لاہور ہائی کورٹ کے ایک حکم کے تحت رہائی پاچکے ہیں اور حکومت پنجاب کا یہ بیان بھی آچکا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں دی گئی اپنی نظرثانی کی درخواست کی پیروی نہیں کرے گی ۔کیونکہ پاکستان کی وفاقی حکومت اس کیس کے سلسلے میں پنجاب کی حکومت یا سپریم کورٹ کو کوئی بھی ثبوت فراہم نہیں کر سکی ۔اسی کیس کے ضمن میں ایک اور محترم ہستی جناب معین الدین لکھوی صاحب ابھی تک حکومت کی حراست میں ہیںجو کہ ذاتی طور پر اتنے بے ضرر اور شریف النفس ہیں کہ ان کو بےجا قید میں رکھنا، صریحاً ایک ظلم عظیم ہی ہے۔

اب جن جن کالم نگاروں نے ان اور دیگر انہی جیسی محترم ہستیوں اور جہادی تنظیموں پر کیچڑ اچھالا تھا ان کو چاہیے کہ وہ اپنے کالمز میں ان سے نہ صرف معافی مانگیں بلکہ اللہ توبہ بھی کریں اور یہ عہد بھی کریں کہ آئندہ محض اپنے کالم کا پیٹ بھرنے کے لیے یا خبروں (پریس) میں رہنے کے لیے وہ جلدبازی سے کام نہ لیں گے۔
ان سطور میں میں ذاتی طور پر قائد اہل سنت جناب قاری زوار بہادر صاحب کی تعریف بھی کرنا چاہوں گا کہ جنہوں نے جناب نعیمی صاحب کی شہادت پر نہ صرف حوصلے اور صبر سے کام لیا ہے بلکہ مدبرانہ فیصلہ بھی کیا ہے اور وہ حکومت اور ایک دہشت گرد علاقائی تنظیم کے فریب میں بھی نہیں آئے۔ ورنہ پاکستان کے تمام کے تمام بڑے شہر آگ اور خون کا دریا بن جاتے۔ میرا اب بھی یہی موقف ہے کہ جناب نعیمی صاحب کو ہماری ایک انٹیلی جینس نے ایک خاص مقصد کے لیے شہید کروایا ہے۔ اگر کوئی غیر جانبدار اور مضبوط ادارہ اس کی تحقیقات کرے گا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

میں اپنے متعدد کالمز میں اس خدشے کا اظہار کر چکا ہوں کہ ہمارے دشمن انڈیا اور اسرائیل ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ، لسانی ،علاقائی،سماجی، ثقافتی یا کسی بھی بہانے سے پاکستان میں وسیع پیمانے پر فسادات اور کشت وخون کروانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ہوشیار اور بیدار رہنے کی شدید ضرورت ہے۔بلکہ میں تو ملک کے تمام کے تمام معتدل مزاج لیڈروں سے یہی کہوں گا کہ وہ حکومت کی باتوں میں آکر کسی بھی تنظیم، گروہ،عقیدے یا جماعت کے خلاف بیان نہ دیں کیونکہ جس کسی نے بھی کسی دوسری اور مخالف تنظیم، گروہ، عقیدے یا جماعت کے خلاف بیان بازی کی۔ پھر تو یوں سمجھیں کہ اسے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا جائے گا۔

انہی سطروں میں مجھے ایک بات اور کرنا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستانی ایک دن یہ دیکھ بھی لیں گے اور یہ جان بھی لیں گے کہ جس سواتی لڑکی کو کوڑے لگائے گئے تھے وہ فلم ہی جعلی تھی ۔

کیونکہ صوفی محمد صاحب کے ذاتی کردار اور مزاج کو میں جانتا ہوں اور میری اس بات کی تصدیق پاک فوج کے معتدل حلقے بھی کریں گے کہ یہ کام کسی دشمن کا ہی ہے ور نہ ایسا کوئی وقوعہ ہوا ہی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی فوج کے کچھ حلقے سوات آپریشن کے خلاف تھے ۔ ان کا اب بھی یہی موقف ہے کہ محب وطن حلقوں کو ساتھ لے کر چلا جائے اور تمام بلوچ رہنماوں کے ساتھ گفت شنید بھی کی جائے اور کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر سارے معاملات طے کئے جائیں ۔ مگر آپ سمجھدار ہیں خود ہی سمجھ جائیں۔

میں ان دنوں امریکہ میں ہوتا تھا ۔تب میرے پاس ایک صحافیہ آئی تھی جو کہ سب کانٹی نینٹ (Sub-Continent) پر اتھارٹی تھی۔ اس کاتعلق مور مون عقیدے (Mormons= FLDS) کی ایک شاخ سے تھا۔ اسی نے مجھے سمجھایا تھا کہ جدید دنیا میں ہونے والے کچھ واقعات بظاہر تو ایک دوسرے سے الگ تھلگ یا بعض اوقات متضاد لگتے ہیں ۔ اگر ان پر غور و خوض کیا جائے تو ان میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ربط ضرور مل جاتا ہے۔

پھر وہ مجھے سمجھانے لگی تھی کہ یہ دنیا ایک بڑی پزل کی طرح سے ہے۔ اسی لیے کوئی بھی خبر کو اس کے سیاق و سباق کے بغیر مت دیکھا کرو اور جب تک اس کے ایک ٹکڑے کو دوسرے ٹکڑے اور تیسرے ٹکڑے سے جوڑ نہ لو کوئی نتیجہ اخذ نہ کرو۔ یقین جانئے گا کہ اس کے بعد اس نے ایک تازہ اخبار اٹھائی تھی اور کچھ دیر غوروخوض کرنے کے بعد اس محترمہ نے چند بظاہر متضاد اور الگ الگ جگہوں پر ہونے والے واقعات اور چند غیر اہم خبروں پر کچھ نشانات لگائے تھے اور مجھے یہ بتایا تھا کہ اس وقت بظاہر ان واقعات اور خبروں میں کوئی بھی ربط نہیں ہے مگر کچھ ماہ یا کچھ سال کے بعد تم محسوس کرو گے کہ ان خبروں میں درج ان اہم لیڈروں کے بیانات اور ان غیر اہم واقعات کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق تھا ۔ اس وقت تم یہ ضرورت محسوس کرو گے کہ اگر تم اس تعلق کو بروقت ڈھونڈ نکالتے تو بہت سارے مسائل سے بروقت بچ سکتے تھے۔

اس وقت تو میں نے اس کی بات پر غور نہ کیا تھا مگر پھر کچھ عرصہ کے بعد مجھے اس کے تجزیہ کے نتائج درست لگنے لگے تھے۔ کیونکہ بہت ساری غیر اہم خبروں کا تعلق کچھ اہم واقعات سے جڑتاجا رہا تھا۔پھر مجھے بھی اس قسم کی تجزیہ نگاری میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور میں اس صحافیہ کا شاگرد بن گیا تھا بلکہ احتراماً میں اسے مدر نورہ کہنے لگا تھا۔ حالانکہ وہ عمر میں میرے سے ایک دوسال چھوٹی ہی تھی۔ اسے مدر کہنے کی بنیاد یہ تھی کہ ایک تو وہ بہت باکردار تھی دوسرے وہ میری مادروطن پاکستان کی سلامتی کے متعلق فکر مند رہا کرتی تھی اور بذریعہ ڈاک ایسے تجزیے بھیجا کرتی تھی جن کی بنیاد پر مجھے یہ اندارہ ہونے لگا تھا کہ آنے والے وقت میں میری مدر لینڈ کے خلاف کیا کیا سازش ہو سکتی ہے۔

مدر نورہ تو چند برس قبل شہید کردی گئی ہے مگر اپنی قربانی دے کر وہ اپنی سوکن، اس کے بچوں اور اپنے شوہر کو بچانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ مدر نورہ کا تعلق مارمن یا مارمون فرقے (Fundamentalist Church of Jesus Christ of Latter Day) or FLDSکی جس شاخ سے تھا ۔وہ عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

اس فرقے کے لوگوں کو یہودی اپنا سب سے خطرناک دشمن سمجھتے ہیں اور یہ ہے بھی ایک حقیقت کیونکہ اس فرقے کے لوگ نہ صرف منظم ہیں بلکہ موثر بھی ہیں۔ اس فرقہ کے مرد ایک سے زائد شادیاں کرتے ہیں اور کثیر بچے بھی پیدا کرتے ہیں۔ پھر یہ امیر بھی ہوتے ہیں بلکہ اس فرقے کے بہت سارے اراکین یورپ اور امریکہ کی اہم پوسٹس بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ آپ خود دیکھ اور سن سکتے ہیں کہ مغربی دنیا کے بہت سارے فورم پر یہودیوں کی مٹی پلید ہوتی رہتی ہے یہی لوگ ہیں جن کی موثر اور منظم تنظیموں کی موجودگی کے باعث انتہا پسند صہیونی اور متعصب یہودی فلسطینیوں کا قتل عام نہیں کر رہے ورنہ صہیونی نہ عرب ممالک سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی ان کو کسی مسلم حکمران کا ڈرہے۔

مدرنورہ نے ہی مجھے یہ بتایا تھا کہ اسرائیل اور بھارت مل کر پاکستان کو ختم کرنے کے چکر میں ہیں اور مدرنورہ نے ہی مجھے یہ بتایا تھا کہ امریکہ اسرائیل کا آقا نہیں ہے بلکہ اسرائیل امریکہ کا آقا ہے اور اسرائیل کے اصل مالک کٹر صہیونی ہیں۔ یوں صہیونی اقوام متحدہ کے ذریعے سے پوری دنیا کے مالک ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ فلسطین سے لے کر پاکستان تک عیسائی دنیا یہودیوں کی پراکسی وار (Proxy War) لڑ رہی ہے۔مگر ہم اس جنگ کو محض دہشتگردی کے خلاف جہاد قرار دے رہے ہیں۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارے معدودے چند صحافیوں کو چھوڑ کر کسی کو بھی یہ احساس نہیں ہے کہ یہودی ہماری نسلوں کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں اور یہ بات یہودیوں کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ میں اسے اتفاق کی بات نہیں سمجھتا کہ امریکہ میں ہی میری علیک سلیک کچھ اہم یہودیوں سے ہوگئی تھی۔ تب انہی کی زبانی مجھے یہ علم ہوا تھا کہ وہ آرمیگڈون یا ہرمجرون کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

احادیثِ رسول ﷺ میں اس بڑی اور وسیع جنگ کو ام حرب کا نام دیا گیا ہے۔ میں اسے بھی محض ایک اتفاق نہیں سمجھتا کہ امریکہ جانے سے قبل چند برس تک میں احادیث کے ایک عالم کی صحبت میں بیٹھتا رہا تھا۔ وہ محترم استاد اکثر مجھے اور میرے ساتھیوں کو فتنہء دجال کی احادیث سنایا کرتے تھے۔ ان احادیث کی رو سے دجال کی آمد پر ایک تہائی کلمہ گو گمراہ ہو کر دجال کا ساتھ دیں گے اور ایک تہائی کلمہ گو شہادت کی سعادت حاصل کرلیں گے اور ایک تہائی امام مہدی اور پھر عیسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں جہاد کریں گے اور یقیناً فتح یاب ہوں گے۔ میں اپنے کلمہ گو بھائیوں کو اکثر یہ بات کہتا ہوتا ہوں کہ چھوٹی اور بڑی خبروں کی پزل کو جوڑنا اور اس سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا ایک لا حاصل اور فضول کام ہو سکتا ہے ۔ مگر قرآنِ کریم تو واضح ہے اور بین بھی ۔پھر احادیث رسول ﷺ بھی واضح ہی ہیں ۔

اگران کی موجودگی میں بھی ہمیں یہ پتہ نہیں چل رہا کہ پاکستان میں لڑی جانے والی جنگ کوئی عام جنگ نہیں ہے بلکہ ایک بڑی جنگ کا ابتدائیہ ہے تو پھر ہمیں کب پتہ چلے گا ؟

Saturday, July 11, 2009

شہید حجاب : مروا شیر بینی

تحریر: سلیم اللہ شیخ

اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں ماری گئی ( التکویر )
ایک نیک روح اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئی۔مروا شیر بینی کو شہادت مبارک ہو۔اور خواتین کو بھی مبارک ہو کہ اسلام کی راہ میں پہلی جانی شہادت ایک خاتون حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے پیش کی تھی اور آج حجاب اور پردے کی خاطر بھی جان کا نذرانہ ایک خاتون نے ہی پیش کیا۔مروا شیر بینی کون تھی؟

مروا شیر بینی ایک مصری نژاد جرمن مسلمان خاتون تھیں جو اس مغربی بے حیا معاشرے میں بھی اپنی عصمت و عفت کی حفاظت سے غافل نہیں تھی اور اس ننگے ماحول میں بھی وہ مکمل حجاب کا اہتمام کرتی تھی لیکن جدید تعیلم یافتہ مغربی انتہا پسندوں کو یہ بات پسند نہ تھی اور گزشتہ سال اس کے پڑوسی ایگذل ڈبلیو نے اس وقت اس پر جملے کسے اور اس کی توہین کی جب وہ ایک پارک میں اپنے بچے کے ساتھ موجود تھی، مغربی جدید تعلیم یافتہ انتہا پسند ایگزل نے اس پر جملے کسے جس کا شیی بینی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اس پر روشن خیال تہذیب کے پروردہ جدید تعلیم یافتہ انتہا پسند ایگزل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی۔ شیر بینی آج کے مسلم حکمرانوں کی طرح بے حس نہ تھی اس نے ایگزل کی اس مذموم حرکت کے خلاف مقدمہ کیا جس کا نتیجہ اس کے حق میں نکلا۔

لیکن ایگزل نے اس فیصلہ کو ایک اور عدالت میں چیلنج کردیا۔ مقدمہ چلتا رہا اور یکم جولائی کو عدالت نے جب ایگزل سے ان الزمات کے حوالے سے استفسار کیا تو اس نے نہ صرف اقرار کیا بلکہ مزید ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ “اگر میرا بس چلے جو اس کو حجاب پہننے کی ایسی سزا دوں کہ یہ ہمیشہ یاد رکھے“ عدالت نے جرم ثابت ہونے پر ایگزل کو گرفتار کرنے اور تقریباً دو ہزار یورو جرمانے کی سزا سنائی۔ یہ فیصلہ سنتے ہی جنونی، انتہا پسند ایگزل نے بھری عدالت میں مروا شیر بینی پر حملہ کر دیا۔ اسے پکڑ کر زمین پر پٹخ دیا واضح رہے کہ شیر بینی تین ماہ کی حاملہ تھی، اس جدید تعلیم یافتہ مغربی انتہا پسند جنونی نے اس کے پیٹ پر لاتیں ماریں، اس کے کپڑے اور حجاب کو پھاڑ دیا اور پھر ۔۔۔۔

ایک چاقو نکال کر اس نے شیر بینی پر چاقو سے وار کرنے شروع کر دئے،اس دوران پوری عدالت اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی، جبکہ شیر بینی کا شوہر علوی عکاظ چیخ چیخ کر پولیس سے مداخلت کرنے کا کہتا رہا لیکن پولیس نے کوئی ایکشن نہ لیا، البتہ جب عکاظ اپنی بیوی کو بچانے کے لیے آگے بڑھا تو متعصب، اور اسلام دشمن پولیس نے اس پر فائرنگ کر کے اسے زخمی کردیا، اس دوران قاتل نے شیر بینی پر چاقو پر اٹھارہ وار کئے اور نہ صرف اس پر بلکہ پولیس کی گولیوں سے زخمی علوی عکاظ پر بھی چاقو سے حملے کیے۔

شیر بینی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملی، یہ واقعہ یکم جولائی کو پیش آیا لیکن مغربی پریس جو کہ مسلمانوں کے خلاف پروپگینڈے میں آگے آگے رہتا ہے اور سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے مارنے کی جعلی ویڈیو دکھانے پر تو آسمان سر پر اٹھا لیا گیا لیکن اتنا بڑا جرم چھپایا گیا۔ میڈیا پر یہ خبر جب جاری ہوئی جب شیر بینی کی میت اس کے آبائی گاؤں اسکندریہ مصر لائی گئی۔ شرم ناک بات تو یہ ہے کہ سوات کے واقعے پر ایک گھنٹے کے اندر اندر مذاکرے کرانے والا ہمارا میڈیا تاحال یعنی دس جولائی کو سوا چار بجے تک خاموش ہے۔ حقوق نسواں کے علمبردار بھی چپ ہیں گویا کہ ان کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ انسانی حقوق کے وہ چیمپئین جو مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند کہتے نہیں تھکتے وہ بھی ایسے چپ ہیں گویا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ بارک اوبامہ کے ایک مکھی مارنے پر واویلا کرنے والے بھی خاموش ہیں اس لیے کہ شہید ہونے والی خاتون ایک مسلمان تھیں۔ ہاں اگر وہ گھر سے بھاگی ہوئی کوئی لڑکی ہوتی جس کو اس کے شفیق ماں باپ نے زرا سختی سے روکا ہوتا تو اب تک یہی میڈیا چیخ چیخ کر انسانی حقوق اور حقوق نسواں کا راگ الاپ رہا ہوتا۔ لیکن شیر بینی ایک مسلمان خاتون تھیں۔ اس لیے ان کے لیے میڈیا پر کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں اس حوالے سے امت اخبار کراچی کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نےاس واقعہ کی مکمل تفصیلات شائع کیں۔

بہر شیر بینی تو اپنے رب سے جا ملی ہے لیکن اس نے جاتے جاتے ہمیں یہ پیغام دیدیا ہے کہ یہود و نصاریٰ ہمارے دوست نہیں ہیں اور نہ ہی یہ جنگ دہشت گردوں کے خلاف ہے بلکہ یہ تو مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے۔ جاگ جاؤ ورنہ یہ آگ سب کو اپنی لپیٹ میں لیکر جلا دے گی۔

مجھے یقین ہے کہ جب شیر بینی اپنے رب کے حضور پہنچی ہوگی تو نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اسے جام کوثر پلایا ہوگا، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے اختی کہ کر اسے گلے لگایا ہوگا۔ حضور کی چہیتی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کو اپنے ساتھ جگہ دی ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا

باریابی ہو جب حضور رب تو کہنا
ساتھی میرے سوختہ جان اور بھی ہیں

اپنے رستے ہوئے زخموں کو دکھا کر کہنا
ایسے تمغوں کے طلب گار وہاں اور بھی ہیں

Thursday, July 2, 2009

اسلام آباد پر امریکی ایجنسیوں کی یلغار



تحریر: صفدر دانش

پاک فوج کے سابق سپہ سالار جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ اسلام آباد میں جاسوسی کا ایک بڑا مرکز قائم کر رہا ہے۔ ’’اسلام آباد کمپلیکس‘‘ نامی اس امریکی اڈے میں تین سو امریکی انٹیلی جینس کے افسران کے رہنے کی جگہ میسر ہو گی جوامریکہ کے بعد کسی بھی ملک میں دوسرا سب سے بڑا امریکی اڈہ ہو گا۔

کسی عام آدمی نے نہیں پاک فوج کے سابق سپہ سالار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسلام آباد تخریبی سرگرمیوں کا بڑا مرکز بن جائے گا۔ اسلم بیگ کاکہنا ہے کہ امریکہ نے امریکی سفارت خانے کے احاطے میں پچیس ایکڑا مزید اراضی حکومت پاکستان سے خریدی ہے جہاں ’’اسلام آباد کمپلیکس‘‘ قائم کیا جا رہا ہے۔ مذکورہ کمپلیکس میں دو سو سے زائد رہائشی عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں بقیہ تعمیر ہونی ہیں۔ افغانستان میںموجود مجاہدین میریٹ ہوٹل اسلام آباد اور پرل کانٹی نینٹل ہوٹل پشاور کی طرح ’’اسلام آباد کمپلیکس‘‘ کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ان حملوں کی زد میں امریکی سفارتخانہ، ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس اور دیگر اہم عمارتیں اور سفارتخانے بھی آ سکتے ہیں۔

جس طرح حال ہی میں پشاور کے واحد پی سی ہوٹل میں ہونے والے خودکش حملے میں جہاں ہوٹل مینجر، پی آئی اے کے کپتان، سکیورٹی اہلکار سمیت متعدد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے وہیں اس خود کش حملے میں امریکی ایجنسی ’’بلیک واٹر‘‘ کے پانچ اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ پی سی ہوٹل پشاور میں بدنام زمانہ امریکی ایجنسی ’’بلیک واٹر‘‘ نے اپنا خصوصی دفتر قائم کیا تھا۔ بلیک واٹر نے یو ایس ایڈ کے دفاتر اور پشاور میں قائم امریکی قونصلیٹ کو پی سی ہوٹل میں منتقل کرنے کے لئے خصوصی پلان تشکیل دیا تھا۔ ابھی یہ منصوبہ بندی ابتدائی مراحل میں تھا جس کے تحت پی سی کے اردگرد بم پروف باؤنڈری وال کی تعمیر عمل میں لانا تھی اور اس مقصد کے لیے امریکہ سے دو انجنیئر خصوصی طور پر منگوائے گئے تھے۔

بلیک واٹر کی معاونت کے لئے آئی اوایم اور کریٹو ایسوسی ایٹس نے بھی اپنا دفتر قائم کیا تھا اور جی پی ایس سسٹم انسٹال کیا تھالیکن بم دھماکے کے بعد یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیاہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ’’بلیک واٹر‘‘ کا شمار امریکی محکمہ خارجہ کی زیر نگرانی کام کرنے والی تین بڑی پرائیویٹ سکیورٹی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ ’’بلیک واٹر آرمی‘‘ انیس سو ستتر میں صدر کلنٹن کے دور میں اور بلیک واٹر سکیورٹی ایجنسیز بیس جنوری دوہزار میں قائم ہوئی تھیں۔ یہ امریکہ کی بڑی پرائیویٹ ملٹری تصور کیا جاتی ہے جس کے پاس ائیر کرافٹس سمیت پچیس ہزار کی فورس ہے اور فی کس چار ہزار امریکی ڈالر ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔

دوہزار سات میں اس کا نام ’’بلیک واٹر یو ایس اے‘‘ رکھ دیاگیا۔تیرہ فروری دوہزار نو کو کمپنی کی طرف سے اس کا نیا نام XE (زی) سامنے آیا۔ ان تبدیلیوں کے باوجود اسے بلیک واٹر کے نام ہی سے پکارا جاتا ہے۔ یہ سکیورٹی ایجنسی فوجی تربیت سے لے کر تخریب کاری اور دہشت گردی سمیت ہر کام کرتی ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کاکہنا ہے کہ ’’بلیک واٹر‘‘ ڈک چینی کی ذاتی ایجنسی ہے اور اس کے مختلف سکواڈز ہیں۔ بلیک واٹر کے ڈیتھ سکواڈ کے بارے میں امریکی صحافی سیمور ہرش نے انکشاف کیا تھا کہ اسی نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور لبنانی وزیر اعظم رفیق الحریری کو قتل کیاتھا۔ حمید گل کا کہنا ہے کہ ’’بلیک واٹر‘‘ پیشہ ور قاتلوں کی تنظیم ہے جس نے عراق میں بے شمار بے گناہوں کو مار ڈالا جس پر امریکی کانگریس نے اس کی عراق میں موجودگی کے خلاف فیصلہ دیا اور واپس بلوایا۔

حمید گل کے مطابق مشرف نے بلیک واٹر کو پاکستان بلوایا تھا کہ وہ ایف سی کو تربیت دے۔ چنانچہ دو ہزار سات کے شروع میں اس کے کچھ لوگ پاکستان آئے لیکن انہوں نے پچاس نہایت کڑی شرائط عائد کی تھیں جن میں اسلحہ لے کر چلنے، کسی قانون کے پابند نہ ہونے اور مکمل آزادی سے نقل و حرکت جیسی شرائط شامل تھیں جس پر جنرل کیانی نے کہا ہے کہ ہمیں ان کی ضرورت نہیں۔ بلیک واٹر کے پندرہ سوایجنٹس نے پاکستان آنا تھا جن میں سے چند لوگ ایڈوانس پارٹی کے طورپر آئے اور سرایت کر گئے۔

انکا مزید کہنا ہے کہ امریکی سپیشل آپریشن فورسز کے پچاس یونٹ پاکستان میں موجود ہیں۔ پاکستان میں غیر ملکی ایجنسیوں کی موجودگی کے بارے میں افغانستان اور قبائلی امور کے ماہر معروف صحافی سلیم صافی کاکہنا ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی ایجنسیوں کی موجودگی ایک کھلی حقیقت ہے۔ پاکستان کی شورش میں غیرممالک کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔ عراق اور افغانستان کے بعد پاکستان میں پراسرار کاروائیوں کا آغاز کرنے والی بدنام زمانہ ’’بلیک واٹر‘‘ کو ظاہری طور پر امریکہ کا ایک ارب پتی ’’پرنس ایرک‘‘ فنڈ فراہم کر رہا ہے۔ جبکہ ماہرین کاخیال ہے کہ امریکی ’’سی آئی اے‘‘ اور اسرائیلی ’’موساد‘‘ بھی ان تنظیموں کے لئے فنڈنگ کر رہی ہیں۔

ان کو گلوبل وار کے لئے بنایا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں ان کے مقاصد میں توسیع کر کے مسلم ممالک میں انتہا پسندی، فرقہ واریت اور تخریب کاری پھیلانا بھی شامل کیا گیا ہے۔

اسلام آباد کے ماہرین کا خیال ہے کہ مغربی ممالک کی ان کا رستانیوں کے ساتھ ساتھ دوست ممالک بھی ’’بغل میں چھری منہ پر رام رام‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ بھارت، افغانستان، چین، سعودی عرب اور ایران کے جاسوس اداروں نے پاکستان میں انتہائی مضبوط نیٹ ورک قائم کئے ہیں۔ جو انتہائی منظم طریقے سے اپنے مفادات کی جنگ پاکستان کی سر زمین پر لڑرہے ہیں۔ ان ممالک نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد کی خدمات لے رکھی ہیں جو مذہب اور مسلک سمیت ہر جائز اور ناجائز طریقے سے گیم کھیلنے میں مصروف ہیں جس کے بدلے ان عناصر کو ڈالروں کی صورت میں نوازنے کی ا طلاعات ہے جو وطن عزیز کے لئے قطعاً نیک شگون نہیں۔

حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکہ سمیت کسی بھی ملک کوجاسوسی نیٹ ورک قائم کرنے کے لئے کھلی چھوٹ نہ دی جائے اور اسلام آباد میں موجود غداروں کی سرکوبی کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ حکومت پاکستان کو دنیا بھرپر واضح کر دینا چاہیے کہ ہم ایک آزاد اور خودمختار قوم ہیں اور دنیاکے تمام ممالک کے ساتھ ہم اچھے تعلقات کے خواہاں بھی ہیںلیکن دوستی کی آڑ میں اپنی پیٹھ میں چھری گھونپنے کی اجازت کسی کو نہیں دے سکتے