بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اتوارچھ جون کی بات ہے کہ میں نے حال احوال دریافت کرنے کی غرض سے اپنے ایک جاننے والے کے گھر پر فون کیا جس کا تعلق چینی نسل سے ہے ۔ مگر وہ اپنے گھر پر نہ ملا ۔ چند دن ٹھہر کر میں نے اسے دوبارہ فون لگایا تھا اور دریافت کیا تھا پچھلے اتوار تم کہاں تھے ؟ اس نے مجھے بتایا تھا کہ پچھلے اتوار کو وہ اس احتجاجی جلوس میں شرکت کرنے کے لئے گیا ہوا تھا ، جو غزہ کے لئے امداد لے کر جانے والے پر امن فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج کے جارحانہ اور خون ریز حملے کے خلاف نکالا گیا تھا۔
اس کا یہ جواب سن کر میرے دل میں یہ تجسس پیدا ہوا تھا کہ اس احتجاجی جلوس میں میرے جاننے والے چینی نسل کے کتنے لوگوں نے شرکت کی ہے؟ بہترتو یہی ہے کہ پہلے میں اپنے قارئین کو ہانگ کانگ کی آبادی اور اس کی تقسیم سے متعارف کروا دوں تاکہ میرے معزز قارئین کو ساری بات کے سیاق و سباق کا علم ہو جائے۔
ہانگ کا نگ کی آبادی اسی لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔ ہانگ کانگ کے نوے فیصد باشندے چینی نسل کے ہیں جبکہ دس فیصد باقی آبادی ملی جلی ہے۔ اس دس فیصد غیر چینی آبادی میں امریکہ اوریورپ کے سفید فام بھی شامل ہیں اورافریقہ و ایشیا کے رنگدار بھی شامل ہیں۔ رنگدار نسل کے لوگوں میں آپ کو ہانگ کانگ سے جغرافیائی قربت رکھنے والے ممالک فلپائن، انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ ، ویت نام، کمبوڈیا اور لاؤس کے لوگ زیادہ ملیں گے جن کے آباؤاجداد اچھے روزگار کی تلاش میں کشتیوں پر بیٹھ کر ہانگ کانگ آتے رہے تھے۔
یا پھران کے بعد تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر وہ لوگ ملیں گے جن کے بڑوں کو انتظامی اوردفاعی امور چلانے کے لئے انگریز برِصغیر سے خودلائے تھے۔ انگریز وں کے دور میں انتظامی امور کی نگرانی، انگریز خود کرتے تھے، جبکہ انڈین نسل کے لوگ ہر شعبے میں ان کے مدد گار ہوا کرتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ہانگ کانگ کے سبھی سرکاری اور غیر سرکاری شعبوںمیں انگریزوں کے بعد انڈین نسل کے لوگ زیادہ ہوا کرتے تھے، جن میں ہندو، مسلم ،سکھ ،عیسائی ، پارسی اور باقی دیگر مذاہب کے ماننے والے شامل تھے ۔
اس وقت ہانگ کانگ میں انڈین نسل کے باشندوں کی تعداد تقریباً چالیس ہزار بتائی جاتی ہے، جن میں سے پندرہ ہزار سکھ ہیں اور پندرہ ہزار ہی ہندو ہیں جب کہ انڈین مسلم کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے ،باقی کے پانچ ہزار انڈین لوگ مختلف مذاہب کے پیروکار ہیں ۔ ہانگ کانگ میں مسلم عقیدے کے لوگوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔
جن میں سے چالیس ہزار مسلم چینی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور پچیس ہزار مسلمانوں کا تعلق پاکستان سے ہے ۔ جب کہ باقی کے پنتیس ہزار مسلم عقیدے کے حامل لوگوں کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہے یوں پاکستانی نسل کے مسلم اپنی تعداد کے لحاظ سے ہانگ کانگ میں مقیم مسلم عقیدے کے لوگوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
ہانگ کانگ میں عیسائیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ،دوسرے نمبر پر چینی مذہب تھاؤ ازم(تاؤازم) کے ماننے والے بتائے جاتے ہیں جب کہ ہانگ کانگ میں تیسرے نمبر پر بے دین لوگوں آتے ہیں ۔ بدھ مت کے ماننے والے چوتھے نمبر پر ہیں۔ دین اسلام کے ماننے والے اپنی تعداد کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر آتے ہیں۔ ہندوؤں سکھوں پارسیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد مسلمانوں سے کم ہی ہے۔ ہانگ کانگ میں بہت سارے ایسے مذاہب کے ماننے والے بھی پائے جاتے ہیں جن کی تعداد چند سو سے لے کر چند درجن نفوس بتائی جاتی ہے۔
یوں آپ کو ہانگ کانگ میں ہر عقیدے اورہر نسل کے لوگ مل جائیں گے۔
ہانگ کانگ میںمیرے جاننے والوں میں ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں ۔چونکہ ہانگ کانگ میںچائینیز نسل کے لوگ زیادہ ہیں اسی لئے ایک ہزار کے لگ بھگ چائینیز ایسے ہیں جن کے ساتھ میں مستقل رابطے میں رہتا ہوں۔ ان ایک ہزار میں سے ایک سو چائینیز سے میرے قریبی اور ذاتی تعلقات ہیں ،جن سے میں خاصا بے تکلف ہوں اور ان سے ہر سنجیدہ موضوع پر کھل کر گفتگو بھی کر لیا کرتا ہوں۔
دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ ہانگ کانگ میں جن پاکستانی نسل کے لوگوں سے میرے ذاتی اور قریبی تعلقات ہیں ان کی تعداد تیس بھی نہیں بنتی ہے۔ جن چائینیز سے میرے قریبی اور ذاتی تعلقات ہیں، ان میں ہر مذہب اورہر عقیدے کے ماننے والے شامل ہیں اور ان چائینیز کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے ہے، یوں ان سبھی سے کسی بھی موضوع پر گفتگو کرنے کے بعدچائینیز نسل کی ایک متوازن رائے میرے سامنے آجاتی ہے۔
جب مجھے یہ جستجو ہوئی تھی کہ میرے جاننے والے کتنے چائینیز نے اس احتجاجی ریلی میں حصہ لیا تھا جو کہ ترکی کے پرامن امدادی فلوٹیلا پراسرائیل کے خون ریز اور جارحانہ حملے کے خلاف نکالا گیا تھا تو میں نے اگلے دو ہفتوں کے دوران اپنے سبھی جاننے والے چائینیز کو فون کیا تھا یا پھر کچھ سے بالمشافہ ملاقات کی تھی ۔
حوصلہ افزا بات تو یہ نکلی تھی کہ میرے قریبی جاننے والے چائینیز میں سے پانچ افراد اس احتجاجی ریلی میں شریک ہوئے تھے ۔ میرے معزز قارئین یہ امراپنے ذہن میں رکھیں کہ ایک تو ہانگ کانگ میں ہر شخص کی زندگی بے حد مصروف ہے دوسرے یہاں پر لوگ ہر مسلے کو مادیت میں تول کر دیکھتے ہیں ۔ان پانچ چائینیز میں سے دو کرسچین تھے ،ایک تھاؤازم کا ماننے والا تھا، ایک بے دین تھا اورایک بدھ مت کا ماننے والا تھا جنہوں نے اسرائیل کی مذمت اور فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کے لئے پرامن ریلی میں حصہ لیا تھا ۔
اس امن ریلی میں شرکت کرنے والوں کی تعدا د ایک محتَاط اندازے کے مطابق گیارہ سو اور تیرہ سو کے درمیان بتائی جاتی ہے ۔ہانگ کانگ میں چھ جون کو جو امن ریلی اسرائیل کے جارحانہ اور خون ریز حملے کے خلاف اور پرامن فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی کے لئے نکالی گئی تھی۔
اس میں ایمنیسٹی انٹر نیشنل، چائینیز مسلم کلچرل اینڈ فریٹرنل ایسوسی ایشن،ہانگ کانگ یونی سن،حضرت سلطان باہو سوسائٹی، ہانگ کانگ چائینیز اسلامک فیڈریشن، ہانگ کانگ اسلامک یوتھ ایسوسی ایشن، ہانگ کانگ مسلم وومن ایسوسی ایشن،انڈین مسلم ایسوسی ایشن، این جی اوز آف اسلامک ورلڈ، ایشین سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ، پاکستانی سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ہانگ کانگ، اسلامک ویلفیئر یونین ہانگ کانگ اور یونائٹڈمسلم ایسوسی ایشن آف ہانگ کانگ کی جانب سے اس احتجاجی ریلی میں شرکت کرنے کی درخواست کی گئی تھی اور مذکورہ سبھی تنظیموں کے نمائندوں نے اس احتجاجی ریلی میں شرکت بھی کی تھی ۔
اس احتجاجی ریلی میں پاکستان،انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ، ماریشش، آسٹریلیا ، جاپان، تھائی وان ،چین ،ہانگ کانگ ، فلپین، انڈونیشیاءملائیشیاء،تھائی لینڈ ، ویت نام، کمبوڈیا ، لاؤس اور دوسرے بہت سارے ممالک کے مسلم عقیدے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم عقیدے کے لوگوں نے بھی شرکت کی تھی یوں احتجاجی ریلی میں ہر نسل اور ہر عقیدے کے لوگ موجود تھے ۔
یہ احتجاجی ریلی ہانگ کانگ کی حکومت اور انتظامیہ سے باقائدہ اجازت لے کر نکالی گئی تھی ۔یہ احتجاجی ریلی ہانگ کانگ کے سب سے مشہور وکٹوریہ پارک سے روانہ ہوئی تھی اور ہانگ کانگ کے سب سے مصروف اور مشہور علاقے ایڈمیرلٹی میں واقع اسرائیلی کونسلیٹ تک آئی تھی، جہاں پر اس احتجاجی ریلی کے قائدین نے اسرائیلی کونسلیٹ کے نمائندوں کو ایک احتجاجی عرضداشت بھی پیش کی تھی ۔
اس احتجاجی ریلی کی خبر سی این این نے نشر کی تھی ،سی این این کی ویب سائٹ پر اس احتجاجی ریلی کی خبر اور تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں ،جہاں تک لوکل میڈیا کا تعلق ہے وہ صیہونیوں کے ہاتھوں میں ہے ،لہٰذا ہانگ کانگ کے کسی بھی انگلش اخبار نے اس احتجاجی ریلی کی خبر نہیں چھاپی تھی اور نہ ہی کسی انگلش چینل نے اس ریلی کی خبر کو نشر کیا تھا،کیونکہ ان کے مالکان کے مفادات یہودیوں کے ساتھ وابستہ ہیں ۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہاں سے شائع ہونے والے دو ہفتہ وار اردو ضمیمہ نما اخبار وںجنگ اور پاک ٹائمز نے صہیونیوں کی تقلید میں اس احتجاجی ریلی کے بارے میں ایک سطر کی خبر بھی شائع نہ کی تھی ۔
میں ان ضمیموں کے مالکان سے یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ پچھلے اتوار تم کہاں تھے؟
”کیونکہ وہ لوگ تو صرف انہی لوگوں سے کلام کرتے ہیں، جن سے ان کے مادی اور مالی مفادات وابستہ ہوتے ہیں ۔ “
٭ ڈاکٹر عصمت حیات علوی ٭06۔جولائی۔2010ء٭
اتوارچھ جون کی بات ہے کہ میں نے حال احوال دریافت کرنے کی غرض سے اپنے ایک جاننے والے کے گھر پر فون کیا جس کا تعلق چینی نسل سے ہے ۔ مگر وہ اپنے گھر پر نہ ملا ۔ چند دن ٹھہر کر میں نے اسے دوبارہ فون لگایا تھا اور دریافت کیا تھا پچھلے اتوار تم کہاں تھے ؟ اس نے مجھے بتایا تھا کہ پچھلے اتوار کو وہ اس احتجاجی جلوس میں شرکت کرنے کے لئے گیا ہوا تھا ، جو غزہ کے لئے امداد لے کر جانے والے پر امن فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج کے جارحانہ اور خون ریز حملے کے خلاف نکالا گیا تھا۔
اس کا یہ جواب سن کر میرے دل میں یہ تجسس پیدا ہوا تھا کہ اس احتجاجی جلوس میں میرے جاننے والے چینی نسل کے کتنے لوگوں نے شرکت کی ہے؟ بہترتو یہی ہے کہ پہلے میں اپنے قارئین کو ہانگ کانگ کی آبادی اور اس کی تقسیم سے متعارف کروا دوں تاکہ میرے معزز قارئین کو ساری بات کے سیاق و سباق کا علم ہو جائے۔
ہانگ کا نگ کی آبادی اسی لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔ ہانگ کانگ کے نوے فیصد باشندے چینی نسل کے ہیں جبکہ دس فیصد باقی آبادی ملی جلی ہے۔ اس دس فیصد غیر چینی آبادی میں امریکہ اوریورپ کے سفید فام بھی شامل ہیں اورافریقہ و ایشیا کے رنگدار بھی شامل ہیں۔ رنگدار نسل کے لوگوں میں آپ کو ہانگ کانگ سے جغرافیائی قربت رکھنے والے ممالک فلپائن، انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ ، ویت نام، کمبوڈیا اور لاؤس کے لوگ زیادہ ملیں گے جن کے آباؤاجداد اچھے روزگار کی تلاش میں کشتیوں پر بیٹھ کر ہانگ کانگ آتے رہے تھے۔
یا پھران کے بعد تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر وہ لوگ ملیں گے جن کے بڑوں کو انتظامی اوردفاعی امور چلانے کے لئے انگریز برِصغیر سے خودلائے تھے۔ انگریز وں کے دور میں انتظامی امور کی نگرانی، انگریز خود کرتے تھے، جبکہ انڈین نسل کے لوگ ہر شعبے میں ان کے مدد گار ہوا کرتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ہانگ کانگ کے سبھی سرکاری اور غیر سرکاری شعبوںمیں انگریزوں کے بعد انڈین نسل کے لوگ زیادہ ہوا کرتے تھے، جن میں ہندو، مسلم ،سکھ ،عیسائی ، پارسی اور باقی دیگر مذاہب کے ماننے والے شامل تھے ۔
اس وقت ہانگ کانگ میں انڈین نسل کے باشندوں کی تعداد تقریباً چالیس ہزار بتائی جاتی ہے، جن میں سے پندرہ ہزار سکھ ہیں اور پندرہ ہزار ہی ہندو ہیں جب کہ انڈین مسلم کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے ،باقی کے پانچ ہزار انڈین لوگ مختلف مذاہب کے پیروکار ہیں ۔ ہانگ کانگ میں مسلم عقیدے کے لوگوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔
جن میں سے چالیس ہزار مسلم چینی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور پچیس ہزار مسلمانوں کا تعلق پاکستان سے ہے ۔ جب کہ باقی کے پنتیس ہزار مسلم عقیدے کے حامل لوگوں کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہے یوں پاکستانی نسل کے مسلم اپنی تعداد کے لحاظ سے ہانگ کانگ میں مقیم مسلم عقیدے کے لوگوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
ہانگ کانگ میں عیسائیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ،دوسرے نمبر پر چینی مذہب تھاؤ ازم(تاؤازم) کے ماننے والے بتائے جاتے ہیں جب کہ ہانگ کانگ میں تیسرے نمبر پر بے دین لوگوں آتے ہیں ۔ بدھ مت کے ماننے والے چوتھے نمبر پر ہیں۔ دین اسلام کے ماننے والے اپنی تعداد کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر آتے ہیں۔ ہندوؤں سکھوں پارسیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد مسلمانوں سے کم ہی ہے۔ ہانگ کانگ میں بہت سارے ایسے مذاہب کے ماننے والے بھی پائے جاتے ہیں جن کی تعداد چند سو سے لے کر چند درجن نفوس بتائی جاتی ہے۔
یوں آپ کو ہانگ کانگ میں ہر عقیدے اورہر نسل کے لوگ مل جائیں گے۔
ہانگ کانگ میںمیرے جاننے والوں میں ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں ۔چونکہ ہانگ کانگ میںچائینیز نسل کے لوگ زیادہ ہیں اسی لئے ایک ہزار کے لگ بھگ چائینیز ایسے ہیں جن کے ساتھ میں مستقل رابطے میں رہتا ہوں۔ ان ایک ہزار میں سے ایک سو چائینیز سے میرے قریبی اور ذاتی تعلقات ہیں ،جن سے میں خاصا بے تکلف ہوں اور ان سے ہر سنجیدہ موضوع پر کھل کر گفتگو بھی کر لیا کرتا ہوں۔
دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ ہانگ کانگ میں جن پاکستانی نسل کے لوگوں سے میرے ذاتی اور قریبی تعلقات ہیں ان کی تعداد تیس بھی نہیں بنتی ہے۔ جن چائینیز سے میرے قریبی اور ذاتی تعلقات ہیں، ان میں ہر مذہب اورہر عقیدے کے ماننے والے شامل ہیں اور ان چائینیز کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے ہے، یوں ان سبھی سے کسی بھی موضوع پر گفتگو کرنے کے بعدچائینیز نسل کی ایک متوازن رائے میرے سامنے آجاتی ہے۔
جب مجھے یہ جستجو ہوئی تھی کہ میرے جاننے والے کتنے چائینیز نے اس احتجاجی ریلی میں حصہ لیا تھا جو کہ ترکی کے پرامن امدادی فلوٹیلا پراسرائیل کے خون ریز اور جارحانہ حملے کے خلاف نکالا گیا تھا تو میں نے اگلے دو ہفتوں کے دوران اپنے سبھی جاننے والے چائینیز کو فون کیا تھا یا پھر کچھ سے بالمشافہ ملاقات کی تھی ۔
حوصلہ افزا بات تو یہ نکلی تھی کہ میرے قریبی جاننے والے چائینیز میں سے پانچ افراد اس احتجاجی ریلی میں شریک ہوئے تھے ۔ میرے معزز قارئین یہ امراپنے ذہن میں رکھیں کہ ایک تو ہانگ کانگ میں ہر شخص کی زندگی بے حد مصروف ہے دوسرے یہاں پر لوگ ہر مسلے کو مادیت میں تول کر دیکھتے ہیں ۔ان پانچ چائینیز میں سے دو کرسچین تھے ،ایک تھاؤازم کا ماننے والا تھا، ایک بے دین تھا اورایک بدھ مت کا ماننے والا تھا جنہوں نے اسرائیل کی مذمت اور فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کے لئے پرامن ریلی میں حصہ لیا تھا ۔
اس امن ریلی میں شرکت کرنے والوں کی تعدا د ایک محتَاط اندازے کے مطابق گیارہ سو اور تیرہ سو کے درمیان بتائی جاتی ہے ۔ہانگ کانگ میں چھ جون کو جو امن ریلی اسرائیل کے جارحانہ اور خون ریز حملے کے خلاف اور پرامن فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی کے لئے نکالی گئی تھی۔
اس میں ایمنیسٹی انٹر نیشنل، چائینیز مسلم کلچرل اینڈ فریٹرنل ایسوسی ایشن،ہانگ کانگ یونی سن،حضرت سلطان باہو سوسائٹی، ہانگ کانگ چائینیز اسلامک فیڈریشن، ہانگ کانگ اسلامک یوتھ ایسوسی ایشن، ہانگ کانگ مسلم وومن ایسوسی ایشن،انڈین مسلم ایسوسی ایشن، این جی اوز آف اسلامک ورلڈ، ایشین سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ، پاکستانی سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ہانگ کانگ، اسلامک ویلفیئر یونین ہانگ کانگ اور یونائٹڈمسلم ایسوسی ایشن آف ہانگ کانگ کی جانب سے اس احتجاجی ریلی میں شرکت کرنے کی درخواست کی گئی تھی اور مذکورہ سبھی تنظیموں کے نمائندوں نے اس احتجاجی ریلی میں شرکت بھی کی تھی ۔
اس احتجاجی ریلی میں پاکستان،انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ، ماریشش، آسٹریلیا ، جاپان، تھائی وان ،چین ،ہانگ کانگ ، فلپین، انڈونیشیاءملائیشیاء،تھائی لینڈ ، ویت نام، کمبوڈیا ، لاؤس اور دوسرے بہت سارے ممالک کے مسلم عقیدے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم عقیدے کے لوگوں نے بھی شرکت کی تھی یوں احتجاجی ریلی میں ہر نسل اور ہر عقیدے کے لوگ موجود تھے ۔
یہ احتجاجی ریلی ہانگ کانگ کی حکومت اور انتظامیہ سے باقائدہ اجازت لے کر نکالی گئی تھی ۔یہ احتجاجی ریلی ہانگ کانگ کے سب سے مشہور وکٹوریہ پارک سے روانہ ہوئی تھی اور ہانگ کانگ کے سب سے مصروف اور مشہور علاقے ایڈمیرلٹی میں واقع اسرائیلی کونسلیٹ تک آئی تھی، جہاں پر اس احتجاجی ریلی کے قائدین نے اسرائیلی کونسلیٹ کے نمائندوں کو ایک احتجاجی عرضداشت بھی پیش کی تھی ۔
اس احتجاجی ریلی کی خبر سی این این نے نشر کی تھی ،سی این این کی ویب سائٹ پر اس احتجاجی ریلی کی خبر اور تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں ،جہاں تک لوکل میڈیا کا تعلق ہے وہ صیہونیوں کے ہاتھوں میں ہے ،لہٰذا ہانگ کانگ کے کسی بھی انگلش اخبار نے اس احتجاجی ریلی کی خبر نہیں چھاپی تھی اور نہ ہی کسی انگلش چینل نے اس ریلی کی خبر کو نشر کیا تھا،کیونکہ ان کے مالکان کے مفادات یہودیوں کے ساتھ وابستہ ہیں ۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہاں سے شائع ہونے والے دو ہفتہ وار اردو ضمیمہ نما اخبار وںجنگ اور پاک ٹائمز نے صہیونیوں کی تقلید میں اس احتجاجی ریلی کے بارے میں ایک سطر کی خبر بھی شائع نہ کی تھی ۔
میں ان ضمیموں کے مالکان سے یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ پچھلے اتوار تم کہاں تھے؟
”کیونکہ وہ لوگ تو صرف انہی لوگوں سے کلام کرتے ہیں، جن سے ان کے مادی اور مالی مفادات وابستہ ہوتے ہیں ۔ “
٭ ڈاکٹر عصمت حیات علوی ٭06۔جولائی۔2010ء٭
No comments:
Post a Comment