انور غازی
امریکی صدر اوباما نے 75 ممالک میں امریکی افواج اور کمانڈرز تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ امریکی اسپیشل فورسز کو پیشگی حملوں کا اختیار بھی مل چکا ہے۔ فورسز کا ایک مقصد انتہا پسندوں اور امریکا کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کو نشانہ بنانا بھی ہے۔ امریکی صدر نے ان کے اخراجات کے لیے مالی سال 2011ء کے بجٹ میں 5.7 فیصد اضافے کی بھی ہدایت کردی ہے۔ قارئین! اس خبر پر تبصرے وتجزیے سے قبل پس منظر وپیش منظر کے طور پر یاد رہے امریکی افواج ایک عرصے سے مختلف ممالک میں پہلے سے ہی ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ امریکا کی حاضر سروس افواج کی تعداد 1379551 ہے۔ ان میں سے 369000 فوجی دنیا کے تقریباً 149 ممالک میں ہیں۔
جرمنی، جاپان، جنوبی کوریا، پرتگال، انگلینڈ، نیدر لینڈ، بحرین، کیوبا، آئس لینڈ، اسپین، عمان، بحرین، تائیوان اور بھارت میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ ترکی، عراق، افغانستان، کویت، مصر میں تو باقاعدہ امریکی اڈے اور چھاؤنیاں ہیں۔ باقی چھوڑیں صرف خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو دیکھ لیں۔ متحدہ عرب امارات، کویت، دبئی، عراق، افغانستان، صومالیہ، بحرین، اُردن، لبنان، قطر، سعودی عرب، ترکی اور پاکستان میں امریکی فوجی تمام سازوسامان کے ساتھ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ترکی میں اس وقت 17 سو کے قریب فوجی موجود ہیں۔ اُردن میں 2 ہزار ہیں۔ سعودی عرب 2ہزار۔ کویت ایک لاکھ 15 ہزار فوجی، قطر میں 3500، متحدہ عرب امارات میں 400 ہزار اور عمان میں امریکا کے تین فضائی اڈے موجود ہیں۔
ان ممالک میں امریکی افواج کی تعیناتی کے کئی مقاصد ہیں۔ چند یہ ہیں: صہیونی ریاست ”اسرائیل“ کا استحکام۔ مسجد اقصیٰ کو گرا کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر۔ عرب مسلم ممالک پر بتدریج کنٹرول۔ سرکش ممالک کو رام کرنا۔ خلیج کی بے پناہ دولت پر قبضہ جمانا۔ اسلام اور مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے قدم روکنا۔ ہر ایسی تحریک کو چلانا جو اسلام کے خلاف ہو۔ مسلم دنیا خصوصاً عرب ممالک کو باہم لڑائیوں میں مصروف رکھنا تاکہ نشاة ثانیہ کے کام کو روکا جاسکے۔ اسی مقصد کے لیے جزیرة العرب کے دل میں ”اسرائیل“ نامی خنجر پیوست کیا گیا۔ جب مغربی ممالک کے مشترکہ بھیانک منصوبوں اور اسلام کے خلاف گھناؤنی سازشوں کے ذریعے 1948ء کو فلسطین میں صہیونی ریاست قائم کی گئی تو دنیا بھر سے یہودیوں کو لالاکر آباد کیا گیا۔ ابتدائی طورپر سوویت یونین سے 21391، پولینڈ سے 156011، جرمنی سے 11522، برطانیہ سے 14006، فرانس سے 26295، ایران سے 32304، عراق سے 124647، عرب ممالک سے 252642، مصر سے 37867، بلغاریہ سے 48642، ہنگری سے 24255 اور یمن سے 50359 لائے گئے۔ اس کے بعد سے اسرائیل کے شدت پسند حکمران اور اس کے پشت پناہ ممالک ”گریٹر اسرائیل“ کی طرف بتدریج بڑھ رہے ہیں۔ اسرائیل کے جھنڈے میں جو دو نیلی پٹیاں دکھائی دیتی ہیں ان سے مراد دریا دجلہ وفرات ہے۔ یعنی ان دو دریاؤں کے مابین اسرائیل کی حدود ہوں گی۔
امریکا اور اسرائیل کے صہیونی ”عظیم تر اسرائیل“ کا اعلان کرنے کے بعد اس کے نقشے میں رنگ بھرنے میں مصروف ہیں۔ اسلحے اور بارود کے انبار لگادیے گئے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور دیگر قوتیں اسرائیل کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ غزہ کے محصورین کے لیے امداد لے جانے والے ”فریڈم فلوٹیلا“ اور ”ریچل کوری“ بحری بیڑوں پر وحشیانہ بمباری ایسے ممالک کی شہ پر کی گئی ہے۔ اس پر پوری دنیا میں شدید احتجاج کے باوجود امریکا کا نائب صدر بڑی ڈھٹائی سے کہتا ہے: ”یہ اسرائیل کا حق تھا۔“ اسرائیل اور امریکا کی یہ جرات اس لیے ہے کہ مسلم ممالک کمزور ہیں۔ خلیج کے چھ ممالک سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، امارات، عمان کا فوجی بجٹ اسرائیل سے دوگنا ہے، مگر جنگی آلات ہتھیار اور دفاعی سازوسامان اسرائیل کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچتا۔ حالانکہ اللہ نے ہم مسلمانوں کو اسلحہ کی تیاری کا واضح حکم دیا ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں کو رنگ رلیوں سے ہی فرصت نہیں ہے۔ ان کے آپس کے فروعی اختلافات ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔
خیر آمدم بر سر مطلب! جس طرح جزیرة العرب کے 12 ممالک کی سرزمین پر سامراجی عزائم رکھنے والی افواج اور ان کی چھاؤنیاں موجود ہیں اسی طرح اسلامی سمندروں میں بھی سامراجی طاقتوں کے فوجی مراکز بڑی تعداد میں قائم ہیں۔ کویت کی بندرگاہ، سعودیہ کی دمام بندرگاہ، بحرین کی جفیر بندرگاہ، عمان کی خصب بندرگاہ، مسقط کی بندرگاہ، جبوتی کی باب المندب، جدہ کی بندرگاہ، مصر کی بنیاس بندرگاہ، ایلات بندرگاہ، اسکندریہ بندرگاہ، اس کے علاوہ خلیج عربی، خلیج عمان، بحرہند، خلیج عدن، بحیرہٴ احمر، خلیج عقبہ، نہرسوئز، بحر متوسط میں بھی امریکی بیڑے دندناتے پھرتے ہیں۔ ان سمندروں، درّوں اور بحیروں میں 95 کے قریب امریکا کے دیوہیکل بحری جہاز ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ ان پانیوں میں تین طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں۔ ان 3 بیڑوں پر 252 طیارے مستعد کھڑے رہتے ہیں۔
خلیج میں امریکا کے دو طیارے بردار بحری جہاز ”انڈی پینڈنٹ“ اور ”جان سی اسٹیٹس“ ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ اسی قسم کے جہاز کے ذریعے امریکا عراق، افغانستان اور دیگر ممالک پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس بیڑے پر سامان حرب سے لیس 105 جنگی جہاز، پانچ ہزار کمانڈوز تعینات رہے۔ اس طرح ”انٹرپرائزز“ جارج واشنگٹن وغیرہ بھی یہی کام کرتے ہیں۔ دنیا کے چار اہم ترین سمندری درّے جن کو آبی گزرگاہوں کی شہ رگ کہا جاتا ہے۔ قدرت کی فیاضی یہ چاروں مسلم دنیا کی حدود میں واقع ہیں۔ باب المندب، درہ ہرمز، درّہ جبل الطارق اور نہرسوئز چاروں مسلم ممالک میں واقع ہیں، مگر ان پر تسلط طاغوتی قوتوں کا ہے۔ 1973ء میں نہرسوئز پر قبضے کے لیے مصر اور اسرائیل کے مابین جنگ ہوئی تھی، لیکن آج کل اس پر عملاً امریکا کا تسلط ہے۔ میرے سامنے جو تصویر رکھی ہے، اس میں امریکا کا ایک طیارہ بردار جہاز نہر سوئز سے بڑی رعونت سے فراٹے بھرتے ہوئے گزر رہا ہے۔
عرب اخبارات ”الشرق الاوسط“، ”الحیاة“، ”الرائے“، ”قضایا دولیہ“ جیسے اخبارات اور ”ردادی“، ”الجزیرة“ اور ”جولة الصحافة“ جیسی بیسیوں ویب سائٹس کے مطابق امریکا ان کے ذریعے مسلم دنیا خصوصاً عرب ممالک پر تسلط جمائے رکھنا چاہتا ہے۔ جو مسلمان ملک امریکی کیمپ سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اسے طاقت کے ذریعے کچل دیا جاتا ہے۔ آپ تحقیق کرکے دیکھ لیں 58 مسلم ممالک پر امریکا کا کسی نہ کسی طرح قبضہ ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں اس کے علانیہ اور خفیہ فوجی اڈے قائم ہیں۔ بعض میں بڑے بڑے قونصل خانے اور ایمبیسی کے نام پر اڈے ہیں۔ بعض ممالک کے حکمرانوں کو خریدا ہوا ہے اور کوئی ازخود کاسہ لیس ہے۔
تاریخ گواہ ہے امریکی جہاں بھی جاتے ہیں، وہاں ان کے قدم ایسے جم جاتے ہیں کہ پھر نکلنے کا نام نہیں لیتے۔ کچھ عرصے قبل جاپان کے وزیر اعظم ”یوکیو ہاتو یاما“ نے کہا تھا: ”اوکی ناوا“ میں متنازع امریکی فوجی اڈے کو بندکرنا ممکن نہیں ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکا نے جاپان کو اس کی سلامتی کی ضمانت دی ہے۔ اس کے بدلے میں جاپان خود اپنی لڑاکا فوج نہیں رکھ سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے امریکی فوجی اڈوں کی مالی اعانت بھی کرنا ہوگی۔ اوکی ناوا کے فوجی اڈووں میں کوئی 20 ہزار کے لگ بھگ امریکی فوجی مقیم ہیں۔ جاپان میں مجموعی طور پر کوئی 47 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ اب جو 75 ممالک میں امریکی افواج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس کا واضح مطلب ہے امریکا پوری دنیا پر تسلط حاصل کرنا چاہتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے جب اوباما صدر بنے تھے تو انہوں نے اعلان کیا تھا میں سابق صدر بش کے برعکس سفارت کاری کے ذریعے پوری دنیا کے تمام مسائل حل کروں گا۔ میں پوری دنیا کو بدلنے کا عزم کیے ہوئے ہوں۔ میں جنگ سے نفرت کرتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے مسلم دنیا کا دورہ کیا۔
جامعہ ازہر قاہرہ میں مسلم دنیا کے ساتھ ازسرنو تعلقات کا اعلان کیا۔ بش کی چند پالیسیوں سے یوٹرن بھی لیا۔ اسی وجہ سے اکتوبر 2009ء میں انہیں امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔ مسٹر اوباما نے دنیا سے ایٹمی ہتھیاروں کی تخفیف کا بیڑا بھی اُٹھایا اور اس کے لیے کانفرنسوں پر کانفرنسیں کرڈالیں لیکن نتیجہ تاحال صفر ہے۔ عراق وافغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا دبے لفظوں اعلان کے بعد بھی گھمسان کی جنگ ہورہی ہے۔ یہ کھلا تضاد نہیں تو کیا ہے ابھی ایک ہفتہ قبل ہی اوباما نے نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ببانگ دہل کہا تھا: ”ہم بش کے نیو ورلڈ کو نہیں فالو نہیں کریں گے۔ ہم نے دنیا کے امن کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے۔“ ساتھ ہی انہوں نے 6 جون 2010ء کو خاموشی سے پچھتر ممالک میں خصوصی افواج کی تعیناتی کی منظوری بھی دے دی۔ یقینا اوباما کے اس فیصلے نے پوری دنیا کو ورطہٴ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کمانڈوز اور اسپیشل فورسز کے اختیارات میں بھی بے پناہ اضافہ کردیا۔ یہاں تک کہ پیشگی حملے کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ دنیا پر امریکی قبضہ جمانے کا منصوبہ نہیں تو کیا ہے؟ یہ ”دنیا کے امن کا ٹھیکہ دار“ بننا نہیں تو کیا ہے؟
قارئین! کچھ عرصے بعد جب کبھی یہ پچھتر ممالک امریکا سے اپنے اڈے خالی کرنے کا مطالبہ کریں گے تو امریکا کی طرف سے اسی طرح کا جواب ہوگا جس طرح جاپان نے امریکا سے احتجاج کیا کہ جاپان میں امریکی اڈے خالی کردیے جائیں لیکن امریکا نے یہ کہہ کر جاپان کو خاموش کرادیا دوسری جنگ میں ہمارا جتنا خرچہ ہوا ہے اسے پورا کردیا جائے۔ بصورت دیگر یہ اڈے خالی نہیں کیے جائیں گے۔
No comments:
Post a Comment