Friday, October 15, 2010
Tuesday, August 24, 2010
کیا ایٹمی پاکستان پر موسمی ہتھیار کے ذریعے سیلاب برپا کیا گیا؟
تحقیق و تحریر: فرخ صدیقی
یہ سب کچھ ایک دم اچانک شروع ہوا، جبکہ ماضی میں ہمیشہ سیلاب بتدریج بڑھتا ہے۔
لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں مر گئے، سینکڑوں گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے
سوچنے کی بات ہے کہ یہ سب صرف چار دن میں ہوا
پاکستان میں آنیوالی اس آفت کی پہلے سے کوئی پیشین گوئی نہ کی گئی تھی۔ کسی بھی بین الاقوامی موسم کی ایجنسی نے بھی کسی قسم کا خدشہ ظاہر نہ کیا۔ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ اس کے پیچھے نیا امریکی موذی ہتھیار “ہارپ“ کام کر رہا تھا جس سے موسم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے طوفان، بارشیں، زلزلے پیدا کیے جاسکتے ہیں۔
ماضی قریب میں انڈیا کے بگلیہار اور افغانستان کے سروبی ڈیمز کو ہم کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں جس سے پاکستان میں دریائی پانی کا توازن بگاڑنے کا تمام کنٹرول انڈیا کے پاس چلا گیا۔
کوئی نہیں جانتا کہ ان ڈیمز پر لگنے والی رقم زیادہ تھی یا وہ رقم زیادہ تھی جسے استعمال کر کے پاکستان میں ڈیمز کی مخالفت کو لسانی رنگ دیا گیا۔
اس آفت کو شروع کرنے کیلئے برسات اور مون سون کا انتظار کیا گیا، یہ سیلاب قدرتی سے زیادہ مصنوعی نشانیاں لیے ہوئے ہے۔ ایک مکمل منصوبی بندی کے ذریعے پانی کو خیبر سے لیکر کراچی تک بہا دیا گیا۔
شائد وہ جانتے ہیں کہ ایٹمی پاکستان سے جنگ مہنگی ہوگی جبکہ ایسے خفیہ حملے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
آندریے آریشیو ایک ممتاز روسی سکالر اور سٹریٹیجک کلچر فاؤنڈیشن کا نائب سربراہ خبردار کرتا ہے کہ روس کے شہر ماسکو میں لگی موجودہ آگ جو ابھی تک ہزاروں افراد کو لقمہ اجل بنانے کے بعد بھی نہیں بجھ رہی، اسی امریکی ہتھیار “ہارپ“ کی مرہون منت ہے ۔
کینیڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کا کہنا ہے کہ “ہارپ صرف ایک سازش یا ایک تھیوری نہیں بلکہ یورپی یونین نے اسکی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے اس کی تباہ کاریوں کو جاننے کیلئے اس پر تحقیق تفتیش کیلئے ایک ریزولوشن بھی پاس کی ہے۔ علاوہ ازیں اسکے کہ امریکہ ایسے تمام الزامات سے مکر رہا ہے“
“ہارپ“ کو امریکہ میں اسکے اندرونی حلقوں میں بھی اسوقت سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جب سے اسے امریکی فوج کو 2020ء تک پوری دنیا پر قبضہ کیلئے بطور ایک ہتھیار سونپ دیا گیا ہے۔
روس کی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی “جی آر یو“ کیطرف سے روسی وزیر اعظم پیوٹن کو بھجوائی جانیوالی ایک خفیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک سابقہ ممتاز امریکی سینیٹر ٹیڈ سٹیونز کو قتل کردیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ سینیٹر گزشتہ چند دنوں سے اوبامہ کیطرف سے دنیا پر قبضہ کی غرض سے امریکی فوج کو “ہارپ“ بطور ہتھیار سونپنے کی اپنے تئیں تحقیقات کر رہے تھے۔ یہ خفیہ موسمی ہتھیار الاسکا کے ایک خفیہ مقام سے کنٹرول کیا جاتا ہے جس سے کرۃ زمین میں موجود الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ میں تبدیلی کر کے موسم میں شدت پیدا کردی جاتی ہے۔
روسی خفی ایجنسی “جی آر یو“ نے رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ اس مقتول سینیٹر کے ایک بہترین دوست ٹیری جس کے داماد میجر آرون ڈبلیو میلونے جو الاسکا ائر نیشنل گارڈ میں ملازم تھا، کو 28 جولائی 2010ء کو “ٹیسلا“ (ایک لیزر بیم جو سیٹلائیٹ سے کنٹرول ہوتی ہے) مار کر ہلاک کردیا گیا جب وہ اپنے ملٹری کے ائر کرافٹ سی17 میں اڑان پر تھا۔
مقتول سٹیونز نے دوران تفتیش یہ بھی پتہ چلایا کہ اس خفیہ موسمی ہتھیار کی تحقیق پر پیسہ خرچنے والوں میں تیل کی تجارت سے جڑے دو طاقتور بروکر ولیم اور فلپ کے علاوہ ناسا کا سابقہ ایڈمنسٹریٹر سین او کوفی بھی شامل ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ تیل کے یہ تاجر پوری دنیا کے تیل کے کنوؤں پر قبضہ کی غرض سے امریکی خفیہ ایجنسیوں کے نت نئے ہتھیاروں کی تحقیق کے لئے ذاتی طور پر امداد دیتے رہتے ہیں۔
روائیتی ہتھیاروں کے بعد موسم میں تبدیلی جیسے خفیہ ہتھیاروں کے منظر عام پر آنے کے بعد روس اور چین کی خفیہ ایجنسیاں بھی سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہیں۔ بڑی طاقتوں کی قدرت کے کاموں میں حالیہ دخل اندازی سے 2012ء تک بڑی تباہیاں پھیلنے کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔
Source: http://conspiracyrealitytv.com/haarp-earthquake-maker-weather-modification/
یہ سب کچھ ایک دم اچانک شروع ہوا، جبکہ ماضی میں ہمیشہ سیلاب بتدریج بڑھتا ہے۔
لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں مر گئے، سینکڑوں گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے
سوچنے کی بات ہے کہ یہ سب صرف چار دن میں ہوا
پاکستان میں آنیوالی اس آفت کی پہلے سے کوئی پیشین گوئی نہ کی گئی تھی۔ کسی بھی بین الاقوامی موسم کی ایجنسی نے بھی کسی قسم کا خدشہ ظاہر نہ کیا۔ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ اس کے پیچھے نیا امریکی موذی ہتھیار “ہارپ“ کام کر رہا تھا جس سے موسم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے طوفان، بارشیں، زلزلے پیدا کیے جاسکتے ہیں۔
ماضی قریب میں انڈیا کے بگلیہار اور افغانستان کے سروبی ڈیمز کو ہم کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں جس سے پاکستان میں دریائی پانی کا توازن بگاڑنے کا تمام کنٹرول انڈیا کے پاس چلا گیا۔
کوئی نہیں جانتا کہ ان ڈیمز پر لگنے والی رقم زیادہ تھی یا وہ رقم زیادہ تھی جسے استعمال کر کے پاکستان میں ڈیمز کی مخالفت کو لسانی رنگ دیا گیا۔
اس آفت کو شروع کرنے کیلئے برسات اور مون سون کا انتظار کیا گیا، یہ سیلاب قدرتی سے زیادہ مصنوعی نشانیاں لیے ہوئے ہے۔ ایک مکمل منصوبی بندی کے ذریعے پانی کو خیبر سے لیکر کراچی تک بہا دیا گیا۔
شائد وہ جانتے ہیں کہ ایٹمی پاکستان سے جنگ مہنگی ہوگی جبکہ ایسے خفیہ حملے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
آندریے آریشیو ایک ممتاز روسی سکالر اور سٹریٹیجک کلچر فاؤنڈیشن کا نائب سربراہ خبردار کرتا ہے کہ روس کے شہر ماسکو میں لگی موجودہ آگ جو ابھی تک ہزاروں افراد کو لقمہ اجل بنانے کے بعد بھی نہیں بجھ رہی، اسی امریکی ہتھیار “ہارپ“ کی مرہون منت ہے ۔
کینیڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کا کہنا ہے کہ “ہارپ صرف ایک سازش یا ایک تھیوری نہیں بلکہ یورپی یونین نے اسکی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے اس کی تباہ کاریوں کو جاننے کیلئے اس پر تحقیق تفتیش کیلئے ایک ریزولوشن بھی پاس کی ہے۔ علاوہ ازیں اسکے کہ امریکہ ایسے تمام الزامات سے مکر رہا ہے“
“ہارپ“ کو امریکہ میں اسکے اندرونی حلقوں میں بھی اسوقت سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جب سے اسے امریکی فوج کو 2020ء تک پوری دنیا پر قبضہ کیلئے بطور ایک ہتھیار سونپ دیا گیا ہے۔
روس کی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی “جی آر یو“ کیطرف سے روسی وزیر اعظم پیوٹن کو بھجوائی جانیوالی ایک خفیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک سابقہ ممتاز امریکی سینیٹر ٹیڈ سٹیونز کو قتل کردیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ سینیٹر گزشتہ چند دنوں سے اوبامہ کیطرف سے دنیا پر قبضہ کی غرض سے امریکی فوج کو “ہارپ“ بطور ہتھیار سونپنے کی اپنے تئیں تحقیقات کر رہے تھے۔ یہ خفیہ موسمی ہتھیار الاسکا کے ایک خفیہ مقام سے کنٹرول کیا جاتا ہے جس سے کرۃ زمین میں موجود الیکٹرو میگنیٹک فیلڈ میں تبدیلی کر کے موسم میں شدت پیدا کردی جاتی ہے۔
روسی خفی ایجنسی “جی آر یو“ نے رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ اس مقتول سینیٹر کے ایک بہترین دوست ٹیری جس کے داماد میجر آرون ڈبلیو میلونے جو الاسکا ائر نیشنل گارڈ میں ملازم تھا، کو 28 جولائی 2010ء کو “ٹیسلا“ (ایک لیزر بیم جو سیٹلائیٹ سے کنٹرول ہوتی ہے) مار کر ہلاک کردیا گیا جب وہ اپنے ملٹری کے ائر کرافٹ سی17 میں اڑان پر تھا۔
مقتول سٹیونز نے دوران تفتیش یہ بھی پتہ چلایا کہ اس خفیہ موسمی ہتھیار کی تحقیق پر پیسہ خرچنے والوں میں تیل کی تجارت سے جڑے دو طاقتور بروکر ولیم اور فلپ کے علاوہ ناسا کا سابقہ ایڈمنسٹریٹر سین او کوفی بھی شامل ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ تیل کے یہ تاجر پوری دنیا کے تیل کے کنوؤں پر قبضہ کی غرض سے امریکی خفیہ ایجنسیوں کے نت نئے ہتھیاروں کی تحقیق کے لئے ذاتی طور پر امداد دیتے رہتے ہیں۔
روائیتی ہتھیاروں کے بعد موسم میں تبدیلی جیسے خفیہ ہتھیاروں کے منظر عام پر آنے کے بعد روس اور چین کی خفیہ ایجنسیاں بھی سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہیں۔ بڑی طاقتوں کی قدرت کے کاموں میں حالیہ دخل اندازی سے 2012ء تک بڑی تباہیاں پھیلنے کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔
Source: http://conspiracyrealitytv.com/haarp-earthquake-maker-weather-modification/
Monday, July 19, 2010
حضرت علی ہجویری اسلام کا دفاع کرنے غزنی سے لاہور آئے
تحریر: پیر محمد افضل قادری
نام و نسب و مولد:
آپ کا اسم گرامی ''علی'' ہے ابو الحسن آپ کی کنیت ہے اور داتا گنج بخش آپ کا مشہور ترین لقب ہے۔ حتیٰ کہ اکثر لوگ آپ کو آپکے نام ''علی'' کی بجائے آپ کے لقب ''داتا گنج بخش'' سے ہی جانتے ہیں۔ آپ افغانستان کے مشہور شہر غزنی میں400ھ کے لگ بھگ میں پیدا ہوئے۔
شجرہ نسب
آپ کا شجرہ نسب اس طرح ہے: سید ابو الحسن علی ہجویری رحمة اللہ علیہ بن سید عثمان رحمة اللہ علیہ بن سید علی رحمة اللہ علیہ بن سید عبدالرحمن بن سید عبداللہ رحمة اللہ (سید شاہ شجاع) بن سید ابو الحسن علی رحمة اللہ علیہ بن سید حسن اصغر رحمة اللہ علیہ بن حضرسید زید رحمة اللہ علیہ بن سید امام حسن مجتبیٰ بن امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فی الجنہ۔
ولادت
آپ کی ولادت ننھیالی گھر غزنی کے محلہ ہجویر میں ہوئی جس وجہ سے آپ کو ہجویری کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد حضرت سید عثمان رحمة اللہ علیہ جید عالم عظیم فقیہ اور بہت بڑے عابد و زاہد تھے۔ آپ کی والدہ بھی بہت عابدہ زاہدہ اور پارسا خاتون تھیں۔ آپ کے ماموں زہد و تقویٰ اور علم وفضل کی وجہ سے ''تاج العلمائ'' کے لقب سے مشہور تھے۔ آج بھی آپ کے ماموں حضرت تاج العلماء کا مزار اقدس غزنی میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔
تعلیم و تربیت
آپ کا گھر علم و فضل اور روحانیت کا گہوارہ تھا اور غزنی شہر بھی ان دنوں علوم و معارف کا مرکز تھا یہ سلطان محمود غزنوی کا دور تھا جو علم دوست بادشاہ تھے اور غزنی شہر میں علماء اور مدارس بھی بکثرت تھے بلکہ سلطان محمود غزنوی نے خود بھی غزنی شہر میں ایک عظیم الشان مدرسہ اور ایک عظیم مسجد تعمیر کی تھی۔
چنانچہ آپ کے والدین اور ماموں حضرت تاج العلماء نے آپ کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دی چار سال کی عمر میں آپ نے قرآن مجید سے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ اپنے والدین سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے علاوہ نہ صرف غزنی شہر بلکہ تاشقند، سمر قند، بخارا، فرغانہ، ماوراء النہر، ترکستان، خراسان، توس، نیشا پور، مہنہ، قہستان، مرو، سرخس، فارس، کرمان، بیت المقدس، شام و عراق، آذر بائیجان، طبرستان، خورستان، سوس، ہندوستان اور دیگر متعدد بلاد و ممالک کے سفر کئے اور ممتاز علماء و صوفیاء سے اکتساب علم و فیض کیا۔
تعلیم و تعلم
کشف المحجوب میں فرماتے ہیں میں نے خراسان میں تین سو علماء سے ملاقاتیں کیں۔ آپ نے اپنے کثیر اساتذہ میں سے خصوصی طور پر شیخ ابو العباس احمد اشقانی رحمة اللہ علیہ اور شیخ ابوالقاسم علی گور گانی رحمة اللہ علیہ کا بڑے ادب وعقیدت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔ آپ نے تمام مروجہ علوم معقول و منقول میں کمال حاصل کیا۔ وعظ و ارشاد، درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے علاوہ مناظرہ میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا۔
داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فقہی مسلک
آپ مسائل فقہیہ میں امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمة اللہ علیہ کے مقلد تھے۔ کشف المحجوب میں آپ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کا شمار اجل صوفیا میں بھی کیا ہے۔ اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کو امام الائمہ، شرف فقہاء اور دیگر عظیم الشان القاب سے ملقب کیا ہے اور بڑے ادب سے آپ کا تذکرہ کیا ہے۔
امام اعظم کے متعلق حضرت داتا گنج بخش کا خواب
حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں، میں علی بن عثمان ملک شام میں حضرت پیغمبر صلی علیہ وآلہ وسلم کے مؤذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی قبر پر سورہا تھا خواب میں دیکھا کہ حضرت پیغمبر صلی علیہ وآلہ وسلم باب بنو شیبہ سے (حرم شریف میں) تشریف لائے اور ایک بوڑھے شخص کو آغوش میں لیا ہوا ہے جیسے بچوں کو آغوش میں لیا جاتا ہے۔ تو میں نے دوڑ کر آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کی قدم بوسی کی۔ میں حیران تھا کہ یہ بوڑھا شخص کون ہے تو رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے اعجازاً میری اس کیفیت اور خیال سے مطلع ہوکر فرمایا یہ تیرا اور تیرے اہل ملک کا امام ابو حنیفہ ہے۔
پھر آپ اس خواب کی تعبیر یوں بیان فرماتے ہیں: ''اس خواب سے مجھے اور میرے اہل شہر کو بڑی امید بندھی مجھ پر ثابت ہوگیا کہ وہ ان افراد میں سے ایک ہیں جو اوصاف طبع سے فانی، احکام شرع سے باقی اور ان سے قائم ہیں۔ حقیقتاً انہیں اوصاف طبع سے نکال کر لے جانے والے پیغمبر صلی علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اگر وہ خود اوصاف طبع رکھتے تو باقی صفت ہوتے۔ باقی صفت، خطا کرنے والا ہوتا ہے یا حق کو پہنچنے والا۔ چونکہ انہیں اوصاف طبع سے نکال کر لے جانے والے پیغمبر صلی علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
لہٰذا وہ فانی صفت اور حضور صلی علیہ وآلہ وسلم کی صفت بقاء سے باقی و قائم ہیں۔ جب پیغمبر صلی علیہ وآلہ وسلم سے خطا نہیں ہوسکتی تو اس شخص سے بھی جو حضور صلی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قائم ہے خطا کا ہونا غیر ممکن ہے اور یہ ایک نکتہ ہے''۔
بیعت طریقت
آپ نے سلوک کی منازل کی تکمیل کے لیے اس دور کے سلسلہ جنیدیہ کے جلیل القدر روحانی پیشواء اور متبحر عالم دین حضرت شیخ ابو الفضل محمد بن حسن جنیدی رحمة اللہ علیہ سے بیعت ارشاد فرمائی۔ جو ملک شام میں دمشق اور بانیار کے درمیان بیت الجن نامی ایک بستی میں رہتے تھے اور جہاں پر اب ان کا مزار ہے۔
حضرت داتا رحمة اللہ علیہ خود حنفی المذہب تھے لیکن طریقت میں آپ نے حنبلی المذہب شیخ ابوالفضل ختلی رحمة اللہ علیہ کی بیعت کی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اکابر اولیاء امت کے قلوب فقہی اختلافات کے باوجود تعصبات سے پاک تھے۔
سلسلہ طریقت
آپ کا سلسلہ طریقت اس طرح ہے۔ داتا گنج بخش علی ہجویری رحمة اللہ علیہ، مرید شیخ ابوالفضل محمد بن حسن ختلی کے، وہ مرید شیخ ابوالحسن علی حضرمی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابوبکر شبلی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ سری سقطی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ معروف کرخی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ دائود طائی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید حضرت حبیب عجمی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید باب مدینة العلم سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے اور وہ تربیت یافتہ حبیب خدا سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی علیہ وآلہ وسلم کے۔
حضرت شیخ ابو الفضل ختلی رحمة اللہ علیہ صاحب کشف و کرامات جلیل القدر ولی اللہ، متبحر عالم، عارف اکمل، شریعت مطہرہ کے سخت پابند اور زہد و تقویٰ میں یگانہ روزگار تھے۔ آپ سالکین کو کم کھانے کم خوابی اور کم بولنے کی تلقین فرماتے تھے۔ آپ نے جبل لکام میں ساٹھ سال طویل چلہ کشی فرمائی اس لمبے عرصے میں ایک ہی لباس میں ملبوس رہے اور اسے پاک وصاف رکھتے اور جب لباس پھٹ جاتا تو پیوند لگا لیتے حتیٰ کہ اصل کپڑے کا نام و نشان ختم ہوگیا تھا۔
حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے پیر و مرشد کے وصال کے وقت آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ آپ نے فرمایا: ''بیٹا! میں تمہیں عقیدے کا ایک مسئلہ بتاتا ہوں اگر تم نے اس پر عمل کرلیا تو ہر قسم کے رنج و تکلیف سے بچ جائو گے۔ یاد رکھو کہ ہر جگہ اور ہر حال اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد تیرے لئے مناسب ہے کہ نہ تو اس کے کسی فعل پر انگشت نمائی کرے اور نہ ہی دل میں اس پر معترض ہو اس کے علاوہ آپ نے اور کچھ نہ فرمایا اور جاں بحق تسلیم ہوگئے۔''
یہ 455ھ تھا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت داتا رحمة اللہ علیہ لاہور قیام کے دوران کچھ عرصہ (تقریبا 2 سال) کے لئے شام اپنے پیرو مرشد کے پاس چلے گئے تھے اور 455ھ میں ان کے وصال کے بعد پھر لاہور واپس آگئے تھے۔
حضرت داتا گنج بخش کی لاہور تشریف آوری
آپ غزنی میں لوگوں کی تعلیم و تربیت اور عبادت و ریاضت میں مشغول تھے کہ خواب میں پیر و مرشد حضرت شیخ ختلی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: اے فرزند تمہیں لاہور کی قطبیت پر مامور کیا جاتا ہے اٹھو اور لاہور جائو۔ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا میرے پیر بھائی شیخ حسین زنجانی قطبیت لاہور پر مامور ہیں ان کی موجودگی میں اس عاجز کی کیا ضرورت ہے۔ ارشاد ہوا ہم سے حکمت دریافت نہ کرو اور بلاتوقف لاہور روانہ ہوجائو۔
چنانچہ داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ 431ھ میں لاہور تشریف لائے اس وقت لاہور کا نام لہانور تھا۔ یہ سلطان محمود غزنوی کے بیٹے سلطان مسعود غزنوی کا دور تھا۔ پنجاب اگرچہ غزنی حکومت کا جز تھا لیکن لاہور پر اس وقت ہندو مذہب اور ہندو تہذیب چھائی ہوئی تھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں طویل سفر کے بعد جب لاہور پہنچا تو رات کا وقت تھا اور لاہور کے دروازے بند ہوچکے تھے۔
علی الصبح میں لاہور میں داخل ہوا تو شیخ زنجانی کے جنازہ کا بڑا انبوہ دیکھا اور شیخ زنجانی کی وصیت کے مطابق میں نے نماز جنازہ کی امامت کی۔ یاد رہے کہ بعض تبصرہ نگاروں نے آپ اور شیخ زنجانی رحمة اللہ علیہ کے پیر بھائی ہونے کی نفی کی ہے لیکن یہ درست نہیں کیونکہ ملفوظات خواجہ نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیہ کتاب فوائد الفواد شریف میں ان دونوں بزرگوں کا پیر بھائی ہونا صریحاً مذکور ہے۔
لاہور میں اسلامی تعلیم و تربیت کے پہلے منظم مرکز کا قیام
جہاں آج آپ کا مزار اقدس ہے اس وقت یہ جگہ دریائے راوی کے کنارے پر تھی اس جگہ آپ قیام پذیر ہوئے اور سادہ سی مسجد و مدرسہ پر مشتمل خانقاہ کی بنیاد رکھی اور یہی خانقاہ بعد میں برصغیر کی تمام خانقاہوں، مدارس اسلامیہ اور اسلام کی اشاعت و تعلیم و تربیت کی بنیاد ثابت ہوئی۔
خانہ کعبہ کی زیارت اور رائے راجو کا قبول اسلام
حضرت داتا رحمة اللہ علیہ نے مسجد کا رخ سیدھا مغرب کی بجائے مائل بجنوب رکھا تو لاہور کے علماء معترض ہوئے تو آپ نے تمام علماء لاہور کو کھانے پر دعوت دی نماز کی امامت خود فرمائی اور بعدازاں فرمایا بعض لوگوں کو مسجد کی سمت قبلہ پر کچھ شک ہے۔ میری درخواست ہے کہ ایک ساعت کے لیے آنکھیں بند کرکے مراقبہ کریں چنانچہ آپ نے ایسی توجہ فرمائی کہ تمام نمازیوں کے لیے تمام حجابات اٹھ گئے اور سب نے دیکھا کہ خانہ کعبہ سامنے ہے اور مسجد مبارک بالکل صحیح سمت پر تعمیر کی گئی ہے۔
رائے راجو ایک ہندو اور انتہائی سخت جادوگر تھا اسے جو دودھ کا نذرانہ نہ دیتا اسکے جانور پر ایسا جادو کرتا کہ اس جانور سے دودھ کی بجائے خون نکلتا تھا۔ ایک بوڑھی عورت رائے راجوکے پاس دودھ کا نذرانہ لے جارہی تھی کہ آپ نے اسے آواز دی کہ کچھ دودھ قیمت لے کر مجھے دے دو تو اس بوڑھی عورت نے رائے راجو کے جادو کا عذر کرکے دودھ بیچنے سے انکار کردیا اس پر حضرت داتا رحمة اللہ علیہ نے مسکرا کر فرمایا اگر تم دودھ دے دو تو تمہارے جانوروں کا دودھ بڑھ جائے گا چنانچہ اس خاتون نے بادل نخواستہ دودھ پیش کردیا جب گھر گئی تو اس کی حیرت کی حد نہ رہی کہ جانوروں کا دودھ اس قدر زیادہ ہوگیا کہ تمام برتن دودھ سے بھر گئے تو تھنوں سے دودھ ختم نہیں ہورہا تھا۔
جب یہ خبر پھیلی تو اگلے روز گردونواح کے تمام لوگ دودھ کا نذرانہ لے کر حاضر ہونے لگے تو اس طرح درویشوں اور مسافروںکے لیے لنگر کا سلسلہ شروع ہوا جوکہ آج تک
جاری ہے۔ رائے راجو کا دودھ کا نذرانہ بند ہوا تو اسے بڑا طیش آیا اور وہ حضرت داتا رحمة اللہ علیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے سامنے آیا اور آپ کو مقابلے کے لیے للکارتے ہوئے کہا کہ تمہارے پاس کوئی کمال ہے تو دکھائو۔
آپ نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ کا عاجز بندہ ہوں اگر تمہارے پاس کوئی کمال ہو تو دکھائو۔ رائے راجو نے جواب دیا تو لو دیکھو میرا کرشمہ یہ کہا اور جادو کے زور پر ہوا میں اڑنے لگا۔ حضرت داتا رحمة اللہ علیہ مسکرائے اور اپنے جوتے ہوا میں پھینک دیئے اور وہ جوتے رائے راجو کے ساتھ ہوا میں اڑنے لگے۔
حضرت داتا رحمة اللہ علیہ کی یہ کرامت دیکھ کر رائے راجو نے توبہ کرکے اسلام قبول کیا۔ چنانچہ حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ نے اس کی شاندار روحانی تربیت کی اور اسے شیخ ہندی کا خطاب دیا چونکہ داتا صاحب رحمة اللہ علیہ کی اولاد نہیں تھی لہٰذا شیخ ہندی کی اولاد اس وقت سے لے کر آج تک خانقاہ کی خدمت کے فرائض انجام دیتی آرہی ہے۔
مزار اقدس مرکز تجلیات و پناہ گاہ خلق خدا
موت سے روح ختم نہیں ہوتی بلکہ جسم سے آزاد ہونے کی وجہ سے پہلے سے زیادہ طاقتور وفعال ہوجاتی ہے۔ لہذا ولایت جوکہ اللہ تعالیٰ کے قرب و دوستی کا نام ہے وفات سے ختم نہیں ہوتی بلکہ اصحاب روحانیت وفات کے بعد دنیاوی زندگی سے بڑھ کر فیض رسانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس حقیقت پر ایک معتبر گواہی سلسلہ چشتیہ کے مورث اعلیٰ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی ہے جنہوں نے داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کے مزار اقدس پر اکتساب فیض کا چلہ مکمل کرنے کے بعد فرمایا:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں راہ رہنما
جبکہ مفکر اسلام شاعر مشرق علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:
سید ہجویر مخدوم امم مرقد اوپیر سنجر راحرم
بند ہائے کوہسار آساں کیسخت در زمین ہند تخم سجدہ ریخت
عہد فاروق از جماش تازہ شد حق زحرف او بلند آوازہ شد
پاسبان عزت ام الکتاب از نگاہش خانہ باطل خراب
خاک پنجاب ازدم او زندہ گشت صبح از مہراوتا بندہ گشت
عاشق وہم قاصد طیار عشق از جبینش آشکار اسرار عشق
نیز برصغیر کی مسلمہ علمی فکری و روحانی شخصیت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ نے بھی آپ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور اکتساب فیض کیا اور پھر فرمایا: ''مزار اقدس سے انوار وتجلیات کی ایک ایسی بارش برس رہی ہے جس سے تمام بلاد ہند مستفیض ہورہے ہیں۔'' خیال ہے کہ حرمین شریفین کے بعد علماء و صلحاء بادشاہوں و حکمرانوں اور تمام شعبہ زندگی کے عوام و خواص کی سب سے زیادہ شب روز حاضری آپ کے دربار عالیہ پر ہوتی ہے۔
روحانی فیوض و برکات کے ساتھ آپ کا لنگر روز بروز وسیع سے وسیع تر ہورہا ہے۔ دنیا کے کسی بادشاہ کے دروازے پر اس قدر مہمان نوازی نہیں جو مہمان نوازی آپ کے مزار اقدس پر شب و روز جاری ہے۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں غریب وسفید پوش لوگ نہ صرف خود لنگر کھاتے ہیں بلکہ اپنے اہل و عیال کے لیے گھر میں بھی لے جاتے ہیں۔
لفظ داتا گنج بخش کی شرعی حیثیت
داتا فارسی زبان میں سخی کو کہتے ہیں اور گنج بخش کا معنی بھی اس کے قریب ہی ہے یعنی خزانہ دینے والا لہٰذا سخی کا لفظ ایک عام آدمی پر اطلاق کرنے میں بھی کوئی شرعی و عقلی قباحت نہیں۔ چہ جائے کہ داتا کالفظ ایک ایسی ہستی پر بولا جائے جس نے ساری زندگی قرآن وسنت کی تعلیمات اور علوم ومعارف کے خزانے مخلوق خدا میں تقسیم کئے اور ان کی قبر انور بھی مرکز انوار وتجلیات وپناہ گاہ خلق خدا ہے۔
قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے ایک امیر یا ایک امت کی حیثیت سے اٹھائیگا۔''اس حدیث مبارک کی رو سے اللہ تعالیٰ کی عطاء سے رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم مخلوق میں بڑے داتا ہیں اور آپ کے وسیلہ سے آپکی امت کے علماء بھی داتا ہیں۔
آپ کی تصنیف کشف المحجوب
آپ نے متعدد کتب تصنیف فرمائیں لیکن '' کشف المحجوب '' کو بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی یہ کتاب فارسی زبان میں تصوف اسلامی پر پہلی اور اپنے موضوع پر سب کتب پر فائق تصنیف ہے۔ یہ کتاب شریعت اور سلوک کے طالب علم کے لیے مرشد کا درجہ رکھتی ہے۔
اسلامی عقائد و اعمال، اخلاق ظاہرہ و باطنہ اور علم تصوف کی تشریح اور اکابرین اسلام وبزرگان دین کے تعارف اور گمراہ، بے علم ولاعلم صوفیوں کی نشاندہی اور ان سے احتراز کرنے کی تلقین پر مشتمل ایک شاہکار تصنیف ہے۔ اس گمراہی و فرقہ پرستی کے دور میں راہ حق کے طالبین کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے اور اس مبارک کتاب کو نصابوں میں شامل کرنا چاہئے۔
نام و نسب و مولد:
آپ کا اسم گرامی ''علی'' ہے ابو الحسن آپ کی کنیت ہے اور داتا گنج بخش آپ کا مشہور ترین لقب ہے۔ حتیٰ کہ اکثر لوگ آپ کو آپکے نام ''علی'' کی بجائے آپ کے لقب ''داتا گنج بخش'' سے ہی جانتے ہیں۔ آپ افغانستان کے مشہور شہر غزنی میں400ھ کے لگ بھگ میں پیدا ہوئے۔
شجرہ نسب
آپ کا شجرہ نسب اس طرح ہے: سید ابو الحسن علی ہجویری رحمة اللہ علیہ بن سید عثمان رحمة اللہ علیہ بن سید علی رحمة اللہ علیہ بن سید عبدالرحمن بن سید عبداللہ رحمة اللہ (سید شاہ شجاع) بن سید ابو الحسن علی رحمة اللہ علیہ بن سید حسن اصغر رحمة اللہ علیہ بن حضرسید زید رحمة اللہ علیہ بن سید امام حسن مجتبیٰ بن امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فی الجنہ۔
ولادت
آپ کی ولادت ننھیالی گھر غزنی کے محلہ ہجویر میں ہوئی جس وجہ سے آپ کو ہجویری کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد حضرت سید عثمان رحمة اللہ علیہ جید عالم عظیم فقیہ اور بہت بڑے عابد و زاہد تھے۔ آپ کی والدہ بھی بہت عابدہ زاہدہ اور پارسا خاتون تھیں۔ آپ کے ماموں زہد و تقویٰ اور علم وفضل کی وجہ سے ''تاج العلمائ'' کے لقب سے مشہور تھے۔ آج بھی آپ کے ماموں حضرت تاج العلماء کا مزار اقدس غزنی میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔
تعلیم و تربیت
آپ کا گھر علم و فضل اور روحانیت کا گہوارہ تھا اور غزنی شہر بھی ان دنوں علوم و معارف کا مرکز تھا یہ سلطان محمود غزنوی کا دور تھا جو علم دوست بادشاہ تھے اور غزنی شہر میں علماء اور مدارس بھی بکثرت تھے بلکہ سلطان محمود غزنوی نے خود بھی غزنی شہر میں ایک عظیم الشان مدرسہ اور ایک عظیم مسجد تعمیر کی تھی۔
چنانچہ آپ کے والدین اور ماموں حضرت تاج العلماء نے آپ کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دی چار سال کی عمر میں آپ نے قرآن مجید سے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ اپنے والدین سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے علاوہ نہ صرف غزنی شہر بلکہ تاشقند، سمر قند، بخارا، فرغانہ، ماوراء النہر، ترکستان، خراسان، توس، نیشا پور، مہنہ، قہستان، مرو، سرخس، فارس، کرمان، بیت المقدس، شام و عراق، آذر بائیجان، طبرستان، خورستان، سوس، ہندوستان اور دیگر متعدد بلاد و ممالک کے سفر کئے اور ممتاز علماء و صوفیاء سے اکتساب علم و فیض کیا۔
تعلیم و تعلم
کشف المحجوب میں فرماتے ہیں میں نے خراسان میں تین سو علماء سے ملاقاتیں کیں۔ آپ نے اپنے کثیر اساتذہ میں سے خصوصی طور پر شیخ ابو العباس احمد اشقانی رحمة اللہ علیہ اور شیخ ابوالقاسم علی گور گانی رحمة اللہ علیہ کا بڑے ادب وعقیدت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔ آپ نے تمام مروجہ علوم معقول و منقول میں کمال حاصل کیا۔ وعظ و ارشاد، درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے علاوہ مناظرہ میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا۔
داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فقہی مسلک
آپ مسائل فقہیہ میں امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمة اللہ علیہ کے مقلد تھے۔ کشف المحجوب میں آپ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کا شمار اجل صوفیا میں بھی کیا ہے۔ اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کو امام الائمہ، شرف فقہاء اور دیگر عظیم الشان القاب سے ملقب کیا ہے اور بڑے ادب سے آپ کا تذکرہ کیا ہے۔
امام اعظم کے متعلق حضرت داتا گنج بخش کا خواب
حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں، میں علی بن عثمان ملک شام میں حضرت پیغمبر صلی علیہ وآلہ وسلم کے مؤذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی قبر پر سورہا تھا خواب میں دیکھا کہ حضرت پیغمبر صلی علیہ وآلہ وسلم باب بنو شیبہ سے (حرم شریف میں) تشریف لائے اور ایک بوڑھے شخص کو آغوش میں لیا ہوا ہے جیسے بچوں کو آغوش میں لیا جاتا ہے۔ تو میں نے دوڑ کر آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کی قدم بوسی کی۔ میں حیران تھا کہ یہ بوڑھا شخص کون ہے تو رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے اعجازاً میری اس کیفیت اور خیال سے مطلع ہوکر فرمایا یہ تیرا اور تیرے اہل ملک کا امام ابو حنیفہ ہے۔
پھر آپ اس خواب کی تعبیر یوں بیان فرماتے ہیں: ''اس خواب سے مجھے اور میرے اہل شہر کو بڑی امید بندھی مجھ پر ثابت ہوگیا کہ وہ ان افراد میں سے ایک ہیں جو اوصاف طبع سے فانی، احکام شرع سے باقی اور ان سے قائم ہیں۔ حقیقتاً انہیں اوصاف طبع سے نکال کر لے جانے والے پیغمبر صلی علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اگر وہ خود اوصاف طبع رکھتے تو باقی صفت ہوتے۔ باقی صفت، خطا کرنے والا ہوتا ہے یا حق کو پہنچنے والا۔ چونکہ انہیں اوصاف طبع سے نکال کر لے جانے والے پیغمبر صلی علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
لہٰذا وہ فانی صفت اور حضور صلی علیہ وآلہ وسلم کی صفت بقاء سے باقی و قائم ہیں۔ جب پیغمبر صلی علیہ وآلہ وسلم سے خطا نہیں ہوسکتی تو اس شخص سے بھی جو حضور صلی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قائم ہے خطا کا ہونا غیر ممکن ہے اور یہ ایک نکتہ ہے''۔
بیعت طریقت
آپ نے سلوک کی منازل کی تکمیل کے لیے اس دور کے سلسلہ جنیدیہ کے جلیل القدر روحانی پیشواء اور متبحر عالم دین حضرت شیخ ابو الفضل محمد بن حسن جنیدی رحمة اللہ علیہ سے بیعت ارشاد فرمائی۔ جو ملک شام میں دمشق اور بانیار کے درمیان بیت الجن نامی ایک بستی میں رہتے تھے اور جہاں پر اب ان کا مزار ہے۔
حضرت داتا رحمة اللہ علیہ خود حنفی المذہب تھے لیکن طریقت میں آپ نے حنبلی المذہب شیخ ابوالفضل ختلی رحمة اللہ علیہ کی بیعت کی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اکابر اولیاء امت کے قلوب فقہی اختلافات کے باوجود تعصبات سے پاک تھے۔
سلسلہ طریقت
آپ کا سلسلہ طریقت اس طرح ہے۔ داتا گنج بخش علی ہجویری رحمة اللہ علیہ، مرید شیخ ابوالفضل محمد بن حسن ختلی کے، وہ مرید شیخ ابوالحسن علی حضرمی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابوبکر شبلی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ سری سقطی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ معروف کرخی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ دائود طائی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید حضرت حبیب عجمی رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ کے، وہ مرید باب مدینة العلم سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے اور وہ تربیت یافتہ حبیب خدا سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی علیہ وآلہ وسلم کے۔
حضرت شیخ ابو الفضل ختلی رحمة اللہ علیہ صاحب کشف و کرامات جلیل القدر ولی اللہ، متبحر عالم، عارف اکمل، شریعت مطہرہ کے سخت پابند اور زہد و تقویٰ میں یگانہ روزگار تھے۔ آپ سالکین کو کم کھانے کم خوابی اور کم بولنے کی تلقین فرماتے تھے۔ آپ نے جبل لکام میں ساٹھ سال طویل چلہ کشی فرمائی اس لمبے عرصے میں ایک ہی لباس میں ملبوس رہے اور اسے پاک وصاف رکھتے اور جب لباس پھٹ جاتا تو پیوند لگا لیتے حتیٰ کہ اصل کپڑے کا نام و نشان ختم ہوگیا تھا۔
حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے پیر و مرشد کے وصال کے وقت آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ آپ نے فرمایا: ''بیٹا! میں تمہیں عقیدے کا ایک مسئلہ بتاتا ہوں اگر تم نے اس پر عمل کرلیا تو ہر قسم کے رنج و تکلیف سے بچ جائو گے۔ یاد رکھو کہ ہر جگہ اور ہر حال اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد تیرے لئے مناسب ہے کہ نہ تو اس کے کسی فعل پر انگشت نمائی کرے اور نہ ہی دل میں اس پر معترض ہو اس کے علاوہ آپ نے اور کچھ نہ فرمایا اور جاں بحق تسلیم ہوگئے۔''
یہ 455ھ تھا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت داتا رحمة اللہ علیہ لاہور قیام کے دوران کچھ عرصہ (تقریبا 2 سال) کے لئے شام اپنے پیرو مرشد کے پاس چلے گئے تھے اور 455ھ میں ان کے وصال کے بعد پھر لاہور واپس آگئے تھے۔
حضرت داتا گنج بخش کی لاہور تشریف آوری
آپ غزنی میں لوگوں کی تعلیم و تربیت اور عبادت و ریاضت میں مشغول تھے کہ خواب میں پیر و مرشد حضرت شیخ ختلی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: اے فرزند تمہیں لاہور کی قطبیت پر مامور کیا جاتا ہے اٹھو اور لاہور جائو۔ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا میرے پیر بھائی شیخ حسین زنجانی قطبیت لاہور پر مامور ہیں ان کی موجودگی میں اس عاجز کی کیا ضرورت ہے۔ ارشاد ہوا ہم سے حکمت دریافت نہ کرو اور بلاتوقف لاہور روانہ ہوجائو۔
چنانچہ داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ 431ھ میں لاہور تشریف لائے اس وقت لاہور کا نام لہانور تھا۔ یہ سلطان محمود غزنوی کے بیٹے سلطان مسعود غزنوی کا دور تھا۔ پنجاب اگرچہ غزنی حکومت کا جز تھا لیکن لاہور پر اس وقت ہندو مذہب اور ہندو تہذیب چھائی ہوئی تھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں طویل سفر کے بعد جب لاہور پہنچا تو رات کا وقت تھا اور لاہور کے دروازے بند ہوچکے تھے۔
علی الصبح میں لاہور میں داخل ہوا تو شیخ زنجانی کے جنازہ کا بڑا انبوہ دیکھا اور شیخ زنجانی کی وصیت کے مطابق میں نے نماز جنازہ کی امامت کی۔ یاد رہے کہ بعض تبصرہ نگاروں نے آپ اور شیخ زنجانی رحمة اللہ علیہ کے پیر بھائی ہونے کی نفی کی ہے لیکن یہ درست نہیں کیونکہ ملفوظات خواجہ نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیہ کتاب فوائد الفواد شریف میں ان دونوں بزرگوں کا پیر بھائی ہونا صریحاً مذکور ہے۔
لاہور میں اسلامی تعلیم و تربیت کے پہلے منظم مرکز کا قیام
جہاں آج آپ کا مزار اقدس ہے اس وقت یہ جگہ دریائے راوی کے کنارے پر تھی اس جگہ آپ قیام پذیر ہوئے اور سادہ سی مسجد و مدرسہ پر مشتمل خانقاہ کی بنیاد رکھی اور یہی خانقاہ بعد میں برصغیر کی تمام خانقاہوں، مدارس اسلامیہ اور اسلام کی اشاعت و تعلیم و تربیت کی بنیاد ثابت ہوئی۔
خانہ کعبہ کی زیارت اور رائے راجو کا قبول اسلام
حضرت داتا رحمة اللہ علیہ نے مسجد کا رخ سیدھا مغرب کی بجائے مائل بجنوب رکھا تو لاہور کے علماء معترض ہوئے تو آپ نے تمام علماء لاہور کو کھانے پر دعوت دی نماز کی امامت خود فرمائی اور بعدازاں فرمایا بعض لوگوں کو مسجد کی سمت قبلہ پر کچھ شک ہے۔ میری درخواست ہے کہ ایک ساعت کے لیے آنکھیں بند کرکے مراقبہ کریں چنانچہ آپ نے ایسی توجہ فرمائی کہ تمام نمازیوں کے لیے تمام حجابات اٹھ گئے اور سب نے دیکھا کہ خانہ کعبہ سامنے ہے اور مسجد مبارک بالکل صحیح سمت پر تعمیر کی گئی ہے۔
رائے راجو ایک ہندو اور انتہائی سخت جادوگر تھا اسے جو دودھ کا نذرانہ نہ دیتا اسکے جانور پر ایسا جادو کرتا کہ اس جانور سے دودھ کی بجائے خون نکلتا تھا۔ ایک بوڑھی عورت رائے راجوکے پاس دودھ کا نذرانہ لے جارہی تھی کہ آپ نے اسے آواز دی کہ کچھ دودھ قیمت لے کر مجھے دے دو تو اس بوڑھی عورت نے رائے راجو کے جادو کا عذر کرکے دودھ بیچنے سے انکار کردیا اس پر حضرت داتا رحمة اللہ علیہ نے مسکرا کر فرمایا اگر تم دودھ دے دو تو تمہارے جانوروں کا دودھ بڑھ جائے گا چنانچہ اس خاتون نے بادل نخواستہ دودھ پیش کردیا جب گھر گئی تو اس کی حیرت کی حد نہ رہی کہ جانوروں کا دودھ اس قدر زیادہ ہوگیا کہ تمام برتن دودھ سے بھر گئے تو تھنوں سے دودھ ختم نہیں ہورہا تھا۔
جب یہ خبر پھیلی تو اگلے روز گردونواح کے تمام لوگ دودھ کا نذرانہ لے کر حاضر ہونے لگے تو اس طرح درویشوں اور مسافروںکے لیے لنگر کا سلسلہ شروع ہوا جوکہ آج تک
جاری ہے۔ رائے راجو کا دودھ کا نذرانہ بند ہوا تو اسے بڑا طیش آیا اور وہ حضرت داتا رحمة اللہ علیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے سامنے آیا اور آپ کو مقابلے کے لیے للکارتے ہوئے کہا کہ تمہارے پاس کوئی کمال ہے تو دکھائو۔
آپ نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ کا عاجز بندہ ہوں اگر تمہارے پاس کوئی کمال ہو تو دکھائو۔ رائے راجو نے جواب دیا تو لو دیکھو میرا کرشمہ یہ کہا اور جادو کے زور پر ہوا میں اڑنے لگا۔ حضرت داتا رحمة اللہ علیہ مسکرائے اور اپنے جوتے ہوا میں پھینک دیئے اور وہ جوتے رائے راجو کے ساتھ ہوا میں اڑنے لگے۔
حضرت داتا رحمة اللہ علیہ کی یہ کرامت دیکھ کر رائے راجو نے توبہ کرکے اسلام قبول کیا۔ چنانچہ حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ نے اس کی شاندار روحانی تربیت کی اور اسے شیخ ہندی کا خطاب دیا چونکہ داتا صاحب رحمة اللہ علیہ کی اولاد نہیں تھی لہٰذا شیخ ہندی کی اولاد اس وقت سے لے کر آج تک خانقاہ کی خدمت کے فرائض انجام دیتی آرہی ہے۔
مزار اقدس مرکز تجلیات و پناہ گاہ خلق خدا
موت سے روح ختم نہیں ہوتی بلکہ جسم سے آزاد ہونے کی وجہ سے پہلے سے زیادہ طاقتور وفعال ہوجاتی ہے۔ لہذا ولایت جوکہ اللہ تعالیٰ کے قرب و دوستی کا نام ہے وفات سے ختم نہیں ہوتی بلکہ اصحاب روحانیت وفات کے بعد دنیاوی زندگی سے بڑھ کر فیض رسانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس حقیقت پر ایک معتبر گواہی سلسلہ چشتیہ کے مورث اعلیٰ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی ہے جنہوں نے داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کے مزار اقدس پر اکتساب فیض کا چلہ مکمل کرنے کے بعد فرمایا:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں راہ رہنما
جبکہ مفکر اسلام شاعر مشرق علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:
سید ہجویر مخدوم امم مرقد اوپیر سنجر راحرم
بند ہائے کوہسار آساں کیسخت در زمین ہند تخم سجدہ ریخت
عہد فاروق از جماش تازہ شد حق زحرف او بلند آوازہ شد
پاسبان عزت ام الکتاب از نگاہش خانہ باطل خراب
خاک پنجاب ازدم او زندہ گشت صبح از مہراوتا بندہ گشت
عاشق وہم قاصد طیار عشق از جبینش آشکار اسرار عشق
نیز برصغیر کی مسلمہ علمی فکری و روحانی شخصیت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ نے بھی آپ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور اکتساب فیض کیا اور پھر فرمایا: ''مزار اقدس سے انوار وتجلیات کی ایک ایسی بارش برس رہی ہے جس سے تمام بلاد ہند مستفیض ہورہے ہیں۔'' خیال ہے کہ حرمین شریفین کے بعد علماء و صلحاء بادشاہوں و حکمرانوں اور تمام شعبہ زندگی کے عوام و خواص کی سب سے زیادہ شب روز حاضری آپ کے دربار عالیہ پر ہوتی ہے۔
روحانی فیوض و برکات کے ساتھ آپ کا لنگر روز بروز وسیع سے وسیع تر ہورہا ہے۔ دنیا کے کسی بادشاہ کے دروازے پر اس قدر مہمان نوازی نہیں جو مہمان نوازی آپ کے مزار اقدس پر شب و روز جاری ہے۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں غریب وسفید پوش لوگ نہ صرف خود لنگر کھاتے ہیں بلکہ اپنے اہل و عیال کے لیے گھر میں بھی لے جاتے ہیں۔
لفظ داتا گنج بخش کی شرعی حیثیت
داتا فارسی زبان میں سخی کو کہتے ہیں اور گنج بخش کا معنی بھی اس کے قریب ہی ہے یعنی خزانہ دینے والا لہٰذا سخی کا لفظ ایک عام آدمی پر اطلاق کرنے میں بھی کوئی شرعی و عقلی قباحت نہیں۔ چہ جائے کہ داتا کالفظ ایک ایسی ہستی پر بولا جائے جس نے ساری زندگی قرآن وسنت کی تعلیمات اور علوم ومعارف کے خزانے مخلوق خدا میں تقسیم کئے اور ان کی قبر انور بھی مرکز انوار وتجلیات وپناہ گاہ خلق خدا ہے۔
قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے ایک امیر یا ایک امت کی حیثیت سے اٹھائیگا۔''اس حدیث مبارک کی رو سے اللہ تعالیٰ کی عطاء سے رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم مخلوق میں بڑے داتا ہیں اور آپ کے وسیلہ سے آپکی امت کے علماء بھی داتا ہیں۔
آپ کی تصنیف کشف المحجوب
آپ نے متعدد کتب تصنیف فرمائیں لیکن '' کشف المحجوب '' کو بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی یہ کتاب فارسی زبان میں تصوف اسلامی پر پہلی اور اپنے موضوع پر سب کتب پر فائق تصنیف ہے۔ یہ کتاب شریعت اور سلوک کے طالب علم کے لیے مرشد کا درجہ رکھتی ہے۔
اسلامی عقائد و اعمال، اخلاق ظاہرہ و باطنہ اور علم تصوف کی تشریح اور اکابرین اسلام وبزرگان دین کے تعارف اور گمراہ، بے علم ولاعلم صوفیوں کی نشاندہی اور ان سے احتراز کرنے کی تلقین پر مشتمل ایک شاہکار تصنیف ہے۔ اس گمراہی و فرقہ پرستی کے دور میں راہ حق کے طالبین کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے اور اس مبارک کتاب کو نصابوں میں شامل کرنا چاہئے۔
تصویرِ ہانگ کانگ - - - - پچھلے اتوار تم کہاں تھے؟
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اتوارچھ جون کی بات ہے کہ میں نے حال احوال دریافت کرنے کی غرض سے اپنے ایک جاننے والے کے گھر پر فون کیا جس کا تعلق چینی نسل سے ہے ۔ مگر وہ اپنے گھر پر نہ ملا ۔ چند دن ٹھہر کر میں نے اسے دوبارہ فون لگایا تھا اور دریافت کیا تھا پچھلے اتوار تم کہاں تھے ؟ اس نے مجھے بتایا تھا کہ پچھلے اتوار کو وہ اس احتجاجی جلوس میں شرکت کرنے کے لئے گیا ہوا تھا ، جو غزہ کے لئے امداد لے کر جانے والے پر امن فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج کے جارحانہ اور خون ریز حملے کے خلاف نکالا گیا تھا۔
اس کا یہ جواب سن کر میرے دل میں یہ تجسس پیدا ہوا تھا کہ اس احتجاجی جلوس میں میرے جاننے والے چینی نسل کے کتنے لوگوں نے شرکت کی ہے؟ بہترتو یہی ہے کہ پہلے میں اپنے قارئین کو ہانگ کانگ کی آبادی اور اس کی تقسیم سے متعارف کروا دوں تاکہ میرے معزز قارئین کو ساری بات کے سیاق و سباق کا علم ہو جائے۔
ہانگ کا نگ کی آبادی اسی لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔ ہانگ کانگ کے نوے فیصد باشندے چینی نسل کے ہیں جبکہ دس فیصد باقی آبادی ملی جلی ہے۔ اس دس فیصد غیر چینی آبادی میں امریکہ اوریورپ کے سفید فام بھی شامل ہیں اورافریقہ و ایشیا کے رنگدار بھی شامل ہیں۔ رنگدار نسل کے لوگوں میں آپ کو ہانگ کانگ سے جغرافیائی قربت رکھنے والے ممالک فلپائن، انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ ، ویت نام، کمبوڈیا اور لاؤس کے لوگ زیادہ ملیں گے جن کے آباؤاجداد اچھے روزگار کی تلاش میں کشتیوں پر بیٹھ کر ہانگ کانگ آتے رہے تھے۔
یا پھران کے بعد تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر وہ لوگ ملیں گے جن کے بڑوں کو انتظامی اوردفاعی امور چلانے کے لئے انگریز برِصغیر سے خودلائے تھے۔ انگریز وں کے دور میں انتظامی امور کی نگرانی، انگریز خود کرتے تھے، جبکہ انڈین نسل کے لوگ ہر شعبے میں ان کے مدد گار ہوا کرتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ہانگ کانگ کے سبھی سرکاری اور غیر سرکاری شعبوںمیں انگریزوں کے بعد انڈین نسل کے لوگ زیادہ ہوا کرتے تھے، جن میں ہندو، مسلم ،سکھ ،عیسائی ، پارسی اور باقی دیگر مذاہب کے ماننے والے شامل تھے ۔
اس وقت ہانگ کانگ میں انڈین نسل کے باشندوں کی تعداد تقریباً چالیس ہزار بتائی جاتی ہے، جن میں سے پندرہ ہزار سکھ ہیں اور پندرہ ہزار ہی ہندو ہیں جب کہ انڈین مسلم کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے ،باقی کے پانچ ہزار انڈین لوگ مختلف مذاہب کے پیروکار ہیں ۔ ہانگ کانگ میں مسلم عقیدے کے لوگوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔
جن میں سے چالیس ہزار مسلم چینی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور پچیس ہزار مسلمانوں کا تعلق پاکستان سے ہے ۔ جب کہ باقی کے پنتیس ہزار مسلم عقیدے کے حامل لوگوں کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہے یوں پاکستانی نسل کے مسلم اپنی تعداد کے لحاظ سے ہانگ کانگ میں مقیم مسلم عقیدے کے لوگوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
ہانگ کانگ میں عیسائیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ،دوسرے نمبر پر چینی مذہب تھاؤ ازم(تاؤازم) کے ماننے والے بتائے جاتے ہیں جب کہ ہانگ کانگ میں تیسرے نمبر پر بے دین لوگوں آتے ہیں ۔ بدھ مت کے ماننے والے چوتھے نمبر پر ہیں۔ دین اسلام کے ماننے والے اپنی تعداد کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر آتے ہیں۔ ہندوؤں سکھوں پارسیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد مسلمانوں سے کم ہی ہے۔ ہانگ کانگ میں بہت سارے ایسے مذاہب کے ماننے والے بھی پائے جاتے ہیں جن کی تعداد چند سو سے لے کر چند درجن نفوس بتائی جاتی ہے۔
یوں آپ کو ہانگ کانگ میں ہر عقیدے اورہر نسل کے لوگ مل جائیں گے۔
ہانگ کانگ میںمیرے جاننے والوں میں ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں ۔چونکہ ہانگ کانگ میںچائینیز نسل کے لوگ زیادہ ہیں اسی لئے ایک ہزار کے لگ بھگ چائینیز ایسے ہیں جن کے ساتھ میں مستقل رابطے میں رہتا ہوں۔ ان ایک ہزار میں سے ایک سو چائینیز سے میرے قریبی اور ذاتی تعلقات ہیں ،جن سے میں خاصا بے تکلف ہوں اور ان سے ہر سنجیدہ موضوع پر کھل کر گفتگو بھی کر لیا کرتا ہوں۔
دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ ہانگ کانگ میں جن پاکستانی نسل کے لوگوں سے میرے ذاتی اور قریبی تعلقات ہیں ان کی تعداد تیس بھی نہیں بنتی ہے۔ جن چائینیز سے میرے قریبی اور ذاتی تعلقات ہیں، ان میں ہر مذہب اورہر عقیدے کے ماننے والے شامل ہیں اور ان چائینیز کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے ہے، یوں ان سبھی سے کسی بھی موضوع پر گفتگو کرنے کے بعدچائینیز نسل کی ایک متوازن رائے میرے سامنے آجاتی ہے۔
جب مجھے یہ جستجو ہوئی تھی کہ میرے جاننے والے کتنے چائینیز نے اس احتجاجی ریلی میں حصہ لیا تھا جو کہ ترکی کے پرامن امدادی فلوٹیلا پراسرائیل کے خون ریز اور جارحانہ حملے کے خلاف نکالا گیا تھا تو میں نے اگلے دو ہفتوں کے دوران اپنے سبھی جاننے والے چائینیز کو فون کیا تھا یا پھر کچھ سے بالمشافہ ملاقات کی تھی ۔
حوصلہ افزا بات تو یہ نکلی تھی کہ میرے قریبی جاننے والے چائینیز میں سے پانچ افراد اس احتجاجی ریلی میں شریک ہوئے تھے ۔ میرے معزز قارئین یہ امراپنے ذہن میں رکھیں کہ ایک تو ہانگ کانگ میں ہر شخص کی زندگی بے حد مصروف ہے دوسرے یہاں پر لوگ ہر مسلے کو مادیت میں تول کر دیکھتے ہیں ۔ان پانچ چائینیز میں سے دو کرسچین تھے ،ایک تھاؤازم کا ماننے والا تھا، ایک بے دین تھا اورایک بدھ مت کا ماننے والا تھا جنہوں نے اسرائیل کی مذمت اور فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کے لئے پرامن ریلی میں حصہ لیا تھا ۔
اس امن ریلی میں شرکت کرنے والوں کی تعدا د ایک محتَاط اندازے کے مطابق گیارہ سو اور تیرہ سو کے درمیان بتائی جاتی ہے ۔ہانگ کانگ میں چھ جون کو جو امن ریلی اسرائیل کے جارحانہ اور خون ریز حملے کے خلاف اور پرامن فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی کے لئے نکالی گئی تھی۔
اس میں ایمنیسٹی انٹر نیشنل، چائینیز مسلم کلچرل اینڈ فریٹرنل ایسوسی ایشن،ہانگ کانگ یونی سن،حضرت سلطان باہو سوسائٹی، ہانگ کانگ چائینیز اسلامک فیڈریشن، ہانگ کانگ اسلامک یوتھ ایسوسی ایشن، ہانگ کانگ مسلم وومن ایسوسی ایشن،انڈین مسلم ایسوسی ایشن، این جی اوز آف اسلامک ورلڈ، ایشین سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ، پاکستانی سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ہانگ کانگ، اسلامک ویلفیئر یونین ہانگ کانگ اور یونائٹڈمسلم ایسوسی ایشن آف ہانگ کانگ کی جانب سے اس احتجاجی ریلی میں شرکت کرنے کی درخواست کی گئی تھی اور مذکورہ سبھی تنظیموں کے نمائندوں نے اس احتجاجی ریلی میں شرکت بھی کی تھی ۔
اس احتجاجی ریلی میں پاکستان،انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ، ماریشش، آسٹریلیا ، جاپان، تھائی وان ،چین ،ہانگ کانگ ، فلپین، انڈونیشیاءملائیشیاء،تھائی لینڈ ، ویت نام، کمبوڈیا ، لاؤس اور دوسرے بہت سارے ممالک کے مسلم عقیدے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم عقیدے کے لوگوں نے بھی شرکت کی تھی یوں احتجاجی ریلی میں ہر نسل اور ہر عقیدے کے لوگ موجود تھے ۔
یہ احتجاجی ریلی ہانگ کانگ کی حکومت اور انتظامیہ سے باقائدہ اجازت لے کر نکالی گئی تھی ۔یہ احتجاجی ریلی ہانگ کانگ کے سب سے مشہور وکٹوریہ پارک سے روانہ ہوئی تھی اور ہانگ کانگ کے سب سے مصروف اور مشہور علاقے ایڈمیرلٹی میں واقع اسرائیلی کونسلیٹ تک آئی تھی، جہاں پر اس احتجاجی ریلی کے قائدین نے اسرائیلی کونسلیٹ کے نمائندوں کو ایک احتجاجی عرضداشت بھی پیش کی تھی ۔
اس احتجاجی ریلی کی خبر سی این این نے نشر کی تھی ،سی این این کی ویب سائٹ پر اس احتجاجی ریلی کی خبر اور تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں ،جہاں تک لوکل میڈیا کا تعلق ہے وہ صیہونیوں کے ہاتھوں میں ہے ،لہٰذا ہانگ کانگ کے کسی بھی انگلش اخبار نے اس احتجاجی ریلی کی خبر نہیں چھاپی تھی اور نہ ہی کسی انگلش چینل نے اس ریلی کی خبر کو نشر کیا تھا،کیونکہ ان کے مالکان کے مفادات یہودیوں کے ساتھ وابستہ ہیں ۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہاں سے شائع ہونے والے دو ہفتہ وار اردو ضمیمہ نما اخبار وںجنگ اور پاک ٹائمز نے صہیونیوں کی تقلید میں اس احتجاجی ریلی کے بارے میں ایک سطر کی خبر بھی شائع نہ کی تھی ۔
میں ان ضمیموں کے مالکان سے یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ پچھلے اتوار تم کہاں تھے؟
”کیونکہ وہ لوگ تو صرف انہی لوگوں سے کلام کرتے ہیں، جن سے ان کے مادی اور مالی مفادات وابستہ ہوتے ہیں ۔ “
٭ ڈاکٹر عصمت حیات علوی ٭06۔جولائی۔2010ء٭
اتوارچھ جون کی بات ہے کہ میں نے حال احوال دریافت کرنے کی غرض سے اپنے ایک جاننے والے کے گھر پر فون کیا جس کا تعلق چینی نسل سے ہے ۔ مگر وہ اپنے گھر پر نہ ملا ۔ چند دن ٹھہر کر میں نے اسے دوبارہ فون لگایا تھا اور دریافت کیا تھا پچھلے اتوار تم کہاں تھے ؟ اس نے مجھے بتایا تھا کہ پچھلے اتوار کو وہ اس احتجاجی جلوس میں شرکت کرنے کے لئے گیا ہوا تھا ، جو غزہ کے لئے امداد لے کر جانے والے پر امن فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج کے جارحانہ اور خون ریز حملے کے خلاف نکالا گیا تھا۔
اس کا یہ جواب سن کر میرے دل میں یہ تجسس پیدا ہوا تھا کہ اس احتجاجی جلوس میں میرے جاننے والے چینی نسل کے کتنے لوگوں نے شرکت کی ہے؟ بہترتو یہی ہے کہ پہلے میں اپنے قارئین کو ہانگ کانگ کی آبادی اور اس کی تقسیم سے متعارف کروا دوں تاکہ میرے معزز قارئین کو ساری بات کے سیاق و سباق کا علم ہو جائے۔
ہانگ کا نگ کی آبادی اسی لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔ ہانگ کانگ کے نوے فیصد باشندے چینی نسل کے ہیں جبکہ دس فیصد باقی آبادی ملی جلی ہے۔ اس دس فیصد غیر چینی آبادی میں امریکہ اوریورپ کے سفید فام بھی شامل ہیں اورافریقہ و ایشیا کے رنگدار بھی شامل ہیں۔ رنگدار نسل کے لوگوں میں آپ کو ہانگ کانگ سے جغرافیائی قربت رکھنے والے ممالک فلپائن، انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ ، ویت نام، کمبوڈیا اور لاؤس کے لوگ زیادہ ملیں گے جن کے آباؤاجداد اچھے روزگار کی تلاش میں کشتیوں پر بیٹھ کر ہانگ کانگ آتے رہے تھے۔
یا پھران کے بعد تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر وہ لوگ ملیں گے جن کے بڑوں کو انتظامی اوردفاعی امور چلانے کے لئے انگریز برِصغیر سے خودلائے تھے۔ انگریز وں کے دور میں انتظامی امور کی نگرانی، انگریز خود کرتے تھے، جبکہ انڈین نسل کے لوگ ہر شعبے میں ان کے مدد گار ہوا کرتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ہانگ کانگ کے سبھی سرکاری اور غیر سرکاری شعبوںمیں انگریزوں کے بعد انڈین نسل کے لوگ زیادہ ہوا کرتے تھے، جن میں ہندو، مسلم ،سکھ ،عیسائی ، پارسی اور باقی دیگر مذاہب کے ماننے والے شامل تھے ۔
اس وقت ہانگ کانگ میں انڈین نسل کے باشندوں کی تعداد تقریباً چالیس ہزار بتائی جاتی ہے، جن میں سے پندرہ ہزار سکھ ہیں اور پندرہ ہزار ہی ہندو ہیں جب کہ انڈین مسلم کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے ،باقی کے پانچ ہزار انڈین لوگ مختلف مذاہب کے پیروکار ہیں ۔ ہانگ کانگ میں مسلم عقیدے کے لوگوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔
جن میں سے چالیس ہزار مسلم چینی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور پچیس ہزار مسلمانوں کا تعلق پاکستان سے ہے ۔ جب کہ باقی کے پنتیس ہزار مسلم عقیدے کے حامل لوگوں کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہے یوں پاکستانی نسل کے مسلم اپنی تعداد کے لحاظ سے ہانگ کانگ میں مقیم مسلم عقیدے کے لوگوں میں دوسرے نمبر پر ہیں۔
ہانگ کانگ میں عیسائیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ،دوسرے نمبر پر چینی مذہب تھاؤ ازم(تاؤازم) کے ماننے والے بتائے جاتے ہیں جب کہ ہانگ کانگ میں تیسرے نمبر پر بے دین لوگوں آتے ہیں ۔ بدھ مت کے ماننے والے چوتھے نمبر پر ہیں۔ دین اسلام کے ماننے والے اپنی تعداد کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر آتے ہیں۔ ہندوؤں سکھوں پارسیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد مسلمانوں سے کم ہی ہے۔ ہانگ کانگ میں بہت سارے ایسے مذاہب کے ماننے والے بھی پائے جاتے ہیں جن کی تعداد چند سو سے لے کر چند درجن نفوس بتائی جاتی ہے۔
یوں آپ کو ہانگ کانگ میں ہر عقیدے اورہر نسل کے لوگ مل جائیں گے۔
ہانگ کانگ میںمیرے جاننے والوں میں ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں ۔چونکہ ہانگ کانگ میںچائینیز نسل کے لوگ زیادہ ہیں اسی لئے ایک ہزار کے لگ بھگ چائینیز ایسے ہیں جن کے ساتھ میں مستقل رابطے میں رہتا ہوں۔ ان ایک ہزار میں سے ایک سو چائینیز سے میرے قریبی اور ذاتی تعلقات ہیں ،جن سے میں خاصا بے تکلف ہوں اور ان سے ہر سنجیدہ موضوع پر کھل کر گفتگو بھی کر لیا کرتا ہوں۔
دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ ہانگ کانگ میں جن پاکستانی نسل کے لوگوں سے میرے ذاتی اور قریبی تعلقات ہیں ان کی تعداد تیس بھی نہیں بنتی ہے۔ جن چائینیز سے میرے قریبی اور ذاتی تعلقات ہیں، ان میں ہر مذہب اورہر عقیدے کے ماننے والے شامل ہیں اور ان چائینیز کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے ہے، یوں ان سبھی سے کسی بھی موضوع پر گفتگو کرنے کے بعدچائینیز نسل کی ایک متوازن رائے میرے سامنے آجاتی ہے۔
جب مجھے یہ جستجو ہوئی تھی کہ میرے جاننے والے کتنے چائینیز نے اس احتجاجی ریلی میں حصہ لیا تھا جو کہ ترکی کے پرامن امدادی فلوٹیلا پراسرائیل کے خون ریز اور جارحانہ حملے کے خلاف نکالا گیا تھا تو میں نے اگلے دو ہفتوں کے دوران اپنے سبھی جاننے والے چائینیز کو فون کیا تھا یا پھر کچھ سے بالمشافہ ملاقات کی تھی ۔
حوصلہ افزا بات تو یہ نکلی تھی کہ میرے قریبی جاننے والے چائینیز میں سے پانچ افراد اس احتجاجی ریلی میں شریک ہوئے تھے ۔ میرے معزز قارئین یہ امراپنے ذہن میں رکھیں کہ ایک تو ہانگ کانگ میں ہر شخص کی زندگی بے حد مصروف ہے دوسرے یہاں پر لوگ ہر مسلے کو مادیت میں تول کر دیکھتے ہیں ۔ان پانچ چائینیز میں سے دو کرسچین تھے ،ایک تھاؤازم کا ماننے والا تھا، ایک بے دین تھا اورایک بدھ مت کا ماننے والا تھا جنہوں نے اسرائیل کی مذمت اور فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کے لئے پرامن ریلی میں حصہ لیا تھا ۔
اس امن ریلی میں شرکت کرنے والوں کی تعدا د ایک محتَاط اندازے کے مطابق گیارہ سو اور تیرہ سو کے درمیان بتائی جاتی ہے ۔ہانگ کانگ میں چھ جون کو جو امن ریلی اسرائیل کے جارحانہ اور خون ریز حملے کے خلاف اور پرامن فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی کے لئے نکالی گئی تھی۔
اس میں ایمنیسٹی انٹر نیشنل، چائینیز مسلم کلچرل اینڈ فریٹرنل ایسوسی ایشن،ہانگ کانگ یونی سن،حضرت سلطان باہو سوسائٹی، ہانگ کانگ چائینیز اسلامک فیڈریشن، ہانگ کانگ اسلامک یوتھ ایسوسی ایشن، ہانگ کانگ مسلم وومن ایسوسی ایشن،انڈین مسلم ایسوسی ایشن، این جی اوز آف اسلامک ورلڈ، ایشین سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ، پاکستانی سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ہانگ کانگ، اسلامک ویلفیئر یونین ہانگ کانگ اور یونائٹڈمسلم ایسوسی ایشن آف ہانگ کانگ کی جانب سے اس احتجاجی ریلی میں شرکت کرنے کی درخواست کی گئی تھی اور مذکورہ سبھی تنظیموں کے نمائندوں نے اس احتجاجی ریلی میں شرکت بھی کی تھی ۔
اس احتجاجی ریلی میں پاکستان،انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ، ماریشش، آسٹریلیا ، جاپان، تھائی وان ،چین ،ہانگ کانگ ، فلپین، انڈونیشیاءملائیشیاء،تھائی لینڈ ، ویت نام، کمبوڈیا ، لاؤس اور دوسرے بہت سارے ممالک کے مسلم عقیدے کے لوگوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم عقیدے کے لوگوں نے بھی شرکت کی تھی یوں احتجاجی ریلی میں ہر نسل اور ہر عقیدے کے لوگ موجود تھے ۔
یہ احتجاجی ریلی ہانگ کانگ کی حکومت اور انتظامیہ سے باقائدہ اجازت لے کر نکالی گئی تھی ۔یہ احتجاجی ریلی ہانگ کانگ کے سب سے مشہور وکٹوریہ پارک سے روانہ ہوئی تھی اور ہانگ کانگ کے سب سے مصروف اور مشہور علاقے ایڈمیرلٹی میں واقع اسرائیلی کونسلیٹ تک آئی تھی، جہاں پر اس احتجاجی ریلی کے قائدین نے اسرائیلی کونسلیٹ کے نمائندوں کو ایک احتجاجی عرضداشت بھی پیش کی تھی ۔
اس احتجاجی ریلی کی خبر سی این این نے نشر کی تھی ،سی این این کی ویب سائٹ پر اس احتجاجی ریلی کی خبر اور تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں ،جہاں تک لوکل میڈیا کا تعلق ہے وہ صیہونیوں کے ہاتھوں میں ہے ،لہٰذا ہانگ کانگ کے کسی بھی انگلش اخبار نے اس احتجاجی ریلی کی خبر نہیں چھاپی تھی اور نہ ہی کسی انگلش چینل نے اس ریلی کی خبر کو نشر کیا تھا،کیونکہ ان کے مالکان کے مفادات یہودیوں کے ساتھ وابستہ ہیں ۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہاں سے شائع ہونے والے دو ہفتہ وار اردو ضمیمہ نما اخبار وںجنگ اور پاک ٹائمز نے صہیونیوں کی تقلید میں اس احتجاجی ریلی کے بارے میں ایک سطر کی خبر بھی شائع نہ کی تھی ۔
میں ان ضمیموں کے مالکان سے یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ پچھلے اتوار تم کہاں تھے؟
”کیونکہ وہ لوگ تو صرف انہی لوگوں سے کلام کرتے ہیں، جن سے ان کے مادی اور مالی مفادات وابستہ ہوتے ہیں ۔ “
٭ ڈاکٹر عصمت حیات علوی ٭06۔جولائی۔2010ء٭
صلاح الدین ایوبی - - - تاریخِ اسلام کا ایک درخشاں ستارہ
|
|
سلطان صلاح الدین ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں ۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار باکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنہوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔ ابتدائی دور سلطان صلاح الدین نسلاً کرد تھے اور 1138ء میں کردستان کے اس حصے میں پیدا ہوۓ جو اب عراق میں شامل ہے ۔ شروع میں وہ سلطان نور الدین زنگی کے یہاں ایک فوجی افسر تھے۔ مصر کو فتح کرنے والی فوج میں صلاح الدین بھی موجود تھے اور اس کے سپہ سالار شیر کوہ صلاح الدین کے چچا تھے۔ مصر فتح ہو جانے کے بعد صلاح الدین کو 564ھ میں مصر کا حاکم مقرر کردیا گیا۔ اسی زمانے میں 569ھ میں انہوں نے یمن بھی فتح کرلیا۔ نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد چونکہ اس کی کوئی لائق اولاد نہیں تھی اس لئے صلاح الدین حکمرانی پر فائز ہوۓ۔ کارنامے صلاح الدین اپنے کارناموں میں نور الدین پر بھی بازی لے گئے۔ ان میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بیت المقدس کی فتح ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ مصر کے بعد صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل، حلب وغیرہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران صلیبی سردار رینالڈ کے ساتھ چار سالہ معاہدہ صلح ہو چکا تھا جس کی رو سے دونوں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی تھا۔ صلیبی بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے تھے۔ جنگ حطین 1186ء میں عیسائیوںکے ایک ایسے ہی حملے میں رینالڈ نے یہ جسارت کی کہ بہت سے دیگر عیسائی امرا کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے اور فوراً رینالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے حطین میں اسے جالیا۔ سلطان نے یہیں دشمن کے لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ ڈلوایا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی۔ چنانچہ اس آتشیں ماحول میں 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا ۔ اس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار عیسائی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ رینالڈ گرفتار ہوا اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔ اس جنگ کے بعد اسلامی افواج عیسائی علاقوں پر چھا گئیں۔ فتح بیت المقدس حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس پورے 91 سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور تمام فلسطین سے مسیحی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔ انہوں نے مسجد اقصٰی میں داخل ہوکر نور الدین کا تیار کردہ منبر اپنے ہاتھ سے مسجد میں رکھا۔ اس طرح نور الدین کی خواہش ان کے ہاتھوں پوری ہوئی۔ صلاح الدین نے بیت المقدس میں داخل ہوکر وہ مظالم نہیں کئے جو اس شہر پر قبضے کے وقت عیسائی افواج نے کئے تھے ۔ صلاح الدین ایک مثالی فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس میں داخل ہوا۔ اس نے زر فدیہ لے کر ہر عیسائی کو امان دے دی اور جو غریب فدیہ نہیں ادا کر سکے ان کے فدیے کی رقم صلاح الدین اور اس کے بھائی ملک عادل نے خود ادا کی۔ بیت المقدس پر قبضہ کے ساتھ یروشلم کی وہ مسیحی حکومت بھی ختم ہوگئی جو فلسطین میں 1099ء سے قائم تھی۔ اس کے بعد جلد ہی سارا فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔ بیت المقدس پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948ء میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کرلیا ۔ تیسری صلیبی جنگ جب بیت المقدس پر قبضے کی خبر یورپ پہنچی تو سارے یورپ میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف لڑائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ جرمنی، اٹلی، فرانس اور انگلستان سے فوجوں پر فوجیں فلسطین روانہ ہونے لگیں۔ انگلستان کا بادشاہ رچرڈ جو اپنی بہادری کی وجہ سے شیر دل مشہور تھا اور فرانس کا بادشاہ فلپ آگسٹس اپنی اپنی فوجیں لے کر فلسطین پہنچے ۔ یورپ کی اس متحدہ فوج کی تعداد 6 لاکھ تھی جرمنی کا بادشاہ فریڈرک باربروسا بھی اس مہم میں ان کے ساتھ تھا۔ عیسائی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج ابھی تک فراہم نہ کی تھی۔ یہ عظیم الشان لشکر یورپ سے روانہ ہوا اور عکہ کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا اگرچہ سلطان صلاح الدین نے تن تنہا عکہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے تھے لیکن صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ ایک معرکے میں دس ہزار عیسائی قتل ہوئے مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا اس لیے صلیبی ناکہ بندی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچا سکا۔ تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو عیسائیوں کے حوالہ کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین کے درمیان معاہدہ طے ہوا کہ جس کے مطابق مسلمانوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطور تاوان جنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور صلیب اعظم اور 500 عیسائی قیدیوں کی واپسی کی شرائط طے کرتے ہوئے مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی ۔ وہ تمام مال اسباب لے کر شہر سے نکل جائیں لیکن رچرڈ نے بدعہدی کی اور محصورین کو قتل کر دیا۔ عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی بندرگاہ عسقلان کا رخ کیا۔ عسقلان پہنچنے تک عیسائیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بارہ بار مقابلہ ہوا سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔ سلطان نے جواں مردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفہ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی۔ لہذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ واپسی پر سلطان نے عسقلان کا شہر خود ہی تباہ کر دیا۔ اور جب صلیبی وہاں پہنچے تو انہیں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اس دوران سلطان نے بیت المقدس کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں کیونکہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا۔ سلطان نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس قدر عظیم لاؤ لشکر کا بڑی جرات اور حوصلہ سے مقابلہ کیا۔ جب فتح کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی۔ فریقین میں معاہدہ صلح ہوا۔ جس کی رو سے تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔ اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے عیسائیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ ناکام واپس ہوئے۔ رچرڈ شیر دل ، سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا جرمنی کا بادشاہ بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مرگیا اور تقریباً چھ لاکھ عیسائی ان جنگوں میںکام آئے۔ معاہدہ کے شرائط مندرجہ ذیل تھیں: 1. بیت المقدس بدستور مسلمانوں کے پاس رہے گا۔ 2. ارسوف، حیفہ، یافہ اور عکہ کے شہر صلیبیوں کے قبضہ میں چلے گئے۔ 3. عسقلان آزاد علاقہ تسلیم کیا گیا۔ 4. زائرین کو آمدورفت کی اجازت دی گئی۔ 5. صلیب اعظم بدستور مسلمانوں کے قبضہ میں رہی ۔ تیسری صلیبی جنگ میں سلطان صلاح الدین نے ثابت کردیا کہ وہ دنیا کا سب سے طاقتور ترین حکمران ہے ۔ سیرت صلاح الدین بڑا بہادر اور فیاض تھا۔ لڑائیوں میں اس نے عیسائیوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا کہ عیسائی آج بھی اس کی عزت کرتے ہیں۔ اس کو جہاد کا اتنا شوق تھا کہ ایک مرتبہ اس کے نچلے دھڑ میں پھوڑے ہوگئے ان کی وجہ سے وہ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتا تھا لیکن اس حالت میں بھی جہاد کی سرگرمی میں فرق نہ آیا۔ صبح سے ظہر تک اور عصر سے مغرب تک برابر گھوڑے کی پیٹھ پر رہتا۔ اس کو خود تعجب ہوتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ جب تک گھوڑے کی پیٹھ پر رہتا ہوں ساری تکلیف جاتی رہتی ہے اور اس سے اترنے پر پھر تکلیف شروع ہوجاتی ہے ۔ مسیحیوں سے صلح ہو جانے کے بعد صلاح الدین نے عیسائیوں کو بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دے دی۔ اجازت ملنے پر یورپ کے زائرین جو برسوں سے انتظار کر رہے تھے اس کثرت سے ٹوٹ پڑے کہ شاہ رچرڈ کے لئے انتظام قائم رکھنا مشکل ہوگیا اور اس نے سلطان سے کہا کہ وہ اس کی تحریر اور اجازت نامے کے بغیر کسی کو بیت المقدس میں داخل نہ ہونے دے ۔ سلطان نے جواب دیا ”زائرین بڑی بڑی مسافتیں طے کرکے زیارت کے شوق میں آتے ہیں ان کو روکنا مناسب نہیں“۔ سلطان نے نہ صرف یہ کہ ان زائرین کو ہر قسم کی آزادی دی بلکہ اپنی جانب سے لاکھوں زائرین کی مدارات، راحت، آسائش اور دعوت کا انتظام کیا۔ صلاح الدین کا غیر مسلموں سے سلوک عین اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا اور یہ اس کا ثبوت ہے کہ اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق بھی اسی طرح محفوظ ہوئے ہیں جس طرح مسلمانوں کے ۔ نور الدین کی طرح صلاح الدین کی زندگی بھی بڑی سادہ تھی۔ ریشمی کپڑے کبھی استعمال نہیں کئے اور رہنے کے لئے محل کی جگہ معمولی سا مکان ہوتا تھا۔ رفاہ عامہ کے کام قاہرہ پر قبضے کے بعد جب اس نے فاطمی حکمرانوں کے محلات کا جائزہ لیا تو وہاں بے شمار جواہرات اور سونے چاندی کے برتن جمع تھے ۔ صلاح الدین نے یہ ساری چیزیں اپنے قبضے میں لانے کے بجائے بیت المال میں داخل کرادیں۔ محلات کو عام استعمال میں لایا گیا اور ایک محل میں عظیم الشان خانقاہ قائم کی گئی۔ فاطمیوں کے زمانے میں مدرسے قائم نہیں کئے گئے شام میں تو نور الدین کے زمانے میں مدرسے اور شفاخانے قائم ہوئے لیکن مصر اب تک محروم تھا۔ صلاح الدین نے یہاں کثرت سے مدرسے اور شفاخانے قائم کئے ۔ ان مدارس میں طلبا کے قیام و طعام کا انتظام بھی سرکار کی طرف سے ہوتا تھا۔ قاہرہ میں صلاح الدین کے قائم کردہ شفاخانے کے بارے میں ایک سیاح ابن جبیر لکھتا ہے کہ یہ شفاخانہ ایک محل کی طرح معلوم ہوتا ہے جس میں دواؤں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے ۔ اس نے عورتوں کے شفاخانے اور پاگل خانے کا بھی ذکر کیا ہے ۔ صلاح الدین سلطنت غوریہ کے حکمران شہاب الدین غوری اور مراکشی حکمران یعقوب المنصور کا ہم عصر تھا اور بلاشبہ یہ تینوں حکمران اپنے وقت میں دنیا کے عظیم ترین حکمرانوں میں سے تھے ۔ انتقال 589ھ میں صلاح الدین انتقال کر گیا۔ اسے شام کے موجودہ دارالحکومت دمشق کی مشہور زمانہ اموی مسجد کے نواح میں سپرد خاک کیا گیا۔ صلاح الدین نے کل 20 سال حکومت کی۔ مورخ ابن خلکان کے مطابق ”اس کی موت کا دن اتنا تکلیف دہ تھا کہ ایسا تکلیف دہ دن اسلام اور مسلمانوں پر خلفائے راشدین کی موت کے بعد کبھی نہیں آیا“ ۔ موجودہ دور کے ایک انگریز مورخ لین پول نے بھی سلطان کی بڑی تعریف کی ہے اور لکھتا ہے کہ ”اس کے ہم عصر بادشاہوں اور اس میں ایک عجیب فرق تھا۔ بادشاہوں نے اپنے جاہ و جلال کے سبب عزت پائی اور اس نے عوام سے محبت اور ان کے معاملات میں دلچسپی لے کر ہردلعزیزی کی دولت کمائی“۔ صلاح الدین ایوبی کی قائم کردہ حکومت اس کے والد نجم الدین ایوب کے نامی پر ”ایوبی“ کہلاتی تھی۔ صلاح الدین اگرچہ ایک دانشمند اور قابل حکمران تھا لیکن وہ خود کو رواجی تصور سے آزاد نہ کرسکا۔ خلافت کے حقیقی تصور کو اب مسلمان معاشرہ اس حد تک بھلا چکا تھا کہ نور الدین اور صلاح الدین جیسے حکمران بھی ملوکیت کے انداز میں سوچتے تھے ۔ جانشینی کے معاملے میں صلاح الدین نے وہی غلطی کی جو سب سے پہلے ہارون الرشید نے کی تھی اور سلجوقیوں کے بعد سے تمام حکمران کرتے چلے آرہے تھے ۔ اس نے زمانے کے غلط رواج کے تحت اپنی سلطنت تین لڑکوں میں تقسیم کردی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ طاقتور سلطنت تقسیم ہوکر کمزور پڑگئی۔ پھر بھی ایوبی خاندان کے ان چند لائق حکمرانوں جن میں صلاح الدین کا بھائی ملک عادل اور اس کا لڑکا ملک کامل قابل ذکر ہیں، مصر، شام، حجاز اور یمن کو تقریباً 60 سال تک بڑی حد تک متحد رکھا۔ 648ھ میں ایوبی خاندان کی حکومت ختم ہوگئی اور ان کی جگہ ترک غلاموں کی حکومت قائم ہوئی جو مملوک کہلاتی تھی۔ |
دنیا پر قبضہ جمانے کا نیا امریکی منصوبہ!!
انور غازی
امریکی صدر اوباما نے 75 ممالک میں امریکی افواج اور کمانڈرز تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ امریکی اسپیشل فورسز کو پیشگی حملوں کا اختیار بھی مل چکا ہے۔ فورسز کا ایک مقصد انتہا پسندوں اور امریکا کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کو نشانہ بنانا بھی ہے۔ امریکی صدر نے ان کے اخراجات کے لیے مالی سال 2011ء کے بجٹ میں 5.7 فیصد اضافے کی بھی ہدایت کردی ہے۔ قارئین! اس خبر پر تبصرے وتجزیے سے قبل پس منظر وپیش منظر کے طور پر یاد رہے امریکی افواج ایک عرصے سے مختلف ممالک میں پہلے سے ہی ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ امریکا کی حاضر سروس افواج کی تعداد 1379551 ہے۔ ان میں سے 369000 فوجی دنیا کے تقریباً 149 ممالک میں ہیں۔
جرمنی، جاپان، جنوبی کوریا، پرتگال، انگلینڈ، نیدر لینڈ، بحرین، کیوبا، آئس لینڈ، اسپین، عمان، بحرین، تائیوان اور بھارت میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ ترکی، عراق، افغانستان، کویت، مصر میں تو باقاعدہ امریکی اڈے اور چھاؤنیاں ہیں۔ باقی چھوڑیں صرف خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو دیکھ لیں۔ متحدہ عرب امارات، کویت، دبئی، عراق، افغانستان، صومالیہ، بحرین، اُردن، لبنان، قطر، سعودی عرب، ترکی اور پاکستان میں امریکی فوجی تمام سازوسامان کے ساتھ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ترکی میں اس وقت 17 سو کے قریب فوجی موجود ہیں۔ اُردن میں 2 ہزار ہیں۔ سعودی عرب 2ہزار۔ کویت ایک لاکھ 15 ہزار فوجی، قطر میں 3500، متحدہ عرب امارات میں 400 ہزار اور عمان میں امریکا کے تین فضائی اڈے موجود ہیں۔
ان ممالک میں امریکی افواج کی تعیناتی کے کئی مقاصد ہیں۔ چند یہ ہیں: صہیونی ریاست ”اسرائیل“ کا استحکام۔ مسجد اقصیٰ کو گرا کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر۔ عرب مسلم ممالک پر بتدریج کنٹرول۔ سرکش ممالک کو رام کرنا۔ خلیج کی بے پناہ دولت پر قبضہ جمانا۔ اسلام اور مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے قدم روکنا۔ ہر ایسی تحریک کو چلانا جو اسلام کے خلاف ہو۔ مسلم دنیا خصوصاً عرب ممالک کو باہم لڑائیوں میں مصروف رکھنا تاکہ نشاة ثانیہ کے کام کو روکا جاسکے۔ اسی مقصد کے لیے جزیرة العرب کے دل میں ”اسرائیل“ نامی خنجر پیوست کیا گیا۔ جب مغربی ممالک کے مشترکہ بھیانک منصوبوں اور اسلام کے خلاف گھناؤنی سازشوں کے ذریعے 1948ء کو فلسطین میں صہیونی ریاست قائم کی گئی تو دنیا بھر سے یہودیوں کو لالاکر آباد کیا گیا۔ ابتدائی طورپر سوویت یونین سے 21391، پولینڈ سے 156011، جرمنی سے 11522، برطانیہ سے 14006، فرانس سے 26295، ایران سے 32304، عراق سے 124647، عرب ممالک سے 252642، مصر سے 37867، بلغاریہ سے 48642، ہنگری سے 24255 اور یمن سے 50359 لائے گئے۔ اس کے بعد سے اسرائیل کے شدت پسند حکمران اور اس کے پشت پناہ ممالک ”گریٹر اسرائیل“ کی طرف بتدریج بڑھ رہے ہیں۔ اسرائیل کے جھنڈے میں جو دو نیلی پٹیاں دکھائی دیتی ہیں ان سے مراد دریا دجلہ وفرات ہے۔ یعنی ان دو دریاؤں کے مابین اسرائیل کی حدود ہوں گی۔
امریکا اور اسرائیل کے صہیونی ”عظیم تر اسرائیل“ کا اعلان کرنے کے بعد اس کے نقشے میں رنگ بھرنے میں مصروف ہیں۔ اسلحے اور بارود کے انبار لگادیے گئے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور دیگر قوتیں اسرائیل کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ غزہ کے محصورین کے لیے امداد لے جانے والے ”فریڈم فلوٹیلا“ اور ”ریچل کوری“ بحری بیڑوں پر وحشیانہ بمباری ایسے ممالک کی شہ پر کی گئی ہے۔ اس پر پوری دنیا میں شدید احتجاج کے باوجود امریکا کا نائب صدر بڑی ڈھٹائی سے کہتا ہے: ”یہ اسرائیل کا حق تھا۔“ اسرائیل اور امریکا کی یہ جرات اس لیے ہے کہ مسلم ممالک کمزور ہیں۔ خلیج کے چھ ممالک سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، امارات، عمان کا فوجی بجٹ اسرائیل سے دوگنا ہے، مگر جنگی آلات ہتھیار اور دفاعی سازوسامان اسرائیل کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچتا۔ حالانکہ اللہ نے ہم مسلمانوں کو اسلحہ کی تیاری کا واضح حکم دیا ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں کو رنگ رلیوں سے ہی فرصت نہیں ہے۔ ان کے آپس کے فروعی اختلافات ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔
خیر آمدم بر سر مطلب! جس طرح جزیرة العرب کے 12 ممالک کی سرزمین پر سامراجی عزائم رکھنے والی افواج اور ان کی چھاؤنیاں موجود ہیں اسی طرح اسلامی سمندروں میں بھی سامراجی طاقتوں کے فوجی مراکز بڑی تعداد میں قائم ہیں۔ کویت کی بندرگاہ، سعودیہ کی دمام بندرگاہ، بحرین کی جفیر بندرگاہ، عمان کی خصب بندرگاہ، مسقط کی بندرگاہ، جبوتی کی باب المندب، جدہ کی بندرگاہ، مصر کی بنیاس بندرگاہ، ایلات بندرگاہ، اسکندریہ بندرگاہ، اس کے علاوہ خلیج عربی، خلیج عمان، بحرہند، خلیج عدن، بحیرہٴ احمر، خلیج عقبہ، نہرسوئز، بحر متوسط میں بھی امریکی بیڑے دندناتے پھرتے ہیں۔ ان سمندروں، درّوں اور بحیروں میں 95 کے قریب امریکا کے دیوہیکل بحری جہاز ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ ان پانیوں میں تین طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں۔ ان 3 بیڑوں پر 252 طیارے مستعد کھڑے رہتے ہیں۔
خلیج میں امریکا کے دو طیارے بردار بحری جہاز ”انڈی پینڈنٹ“ اور ”جان سی اسٹیٹس“ ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ اسی قسم کے جہاز کے ذریعے امریکا عراق، افغانستان اور دیگر ممالک پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس بیڑے پر سامان حرب سے لیس 105 جنگی جہاز، پانچ ہزار کمانڈوز تعینات رہے۔ اس طرح ”انٹرپرائزز“ جارج واشنگٹن وغیرہ بھی یہی کام کرتے ہیں۔ دنیا کے چار اہم ترین سمندری درّے جن کو آبی گزرگاہوں کی شہ رگ کہا جاتا ہے۔ قدرت کی فیاضی یہ چاروں مسلم دنیا کی حدود میں واقع ہیں۔ باب المندب، درہ ہرمز، درّہ جبل الطارق اور نہرسوئز چاروں مسلم ممالک میں واقع ہیں، مگر ان پر تسلط طاغوتی قوتوں کا ہے۔ 1973ء میں نہرسوئز پر قبضے کے لیے مصر اور اسرائیل کے مابین جنگ ہوئی تھی، لیکن آج کل اس پر عملاً امریکا کا تسلط ہے۔ میرے سامنے جو تصویر رکھی ہے، اس میں امریکا کا ایک طیارہ بردار جہاز نہر سوئز سے بڑی رعونت سے فراٹے بھرتے ہوئے گزر رہا ہے۔
عرب اخبارات ”الشرق الاوسط“، ”الحیاة“، ”الرائے“، ”قضایا دولیہ“ جیسے اخبارات اور ”ردادی“، ”الجزیرة“ اور ”جولة الصحافة“ جیسی بیسیوں ویب سائٹس کے مطابق امریکا ان کے ذریعے مسلم دنیا خصوصاً عرب ممالک پر تسلط جمائے رکھنا چاہتا ہے۔ جو مسلمان ملک امریکی کیمپ سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اسے طاقت کے ذریعے کچل دیا جاتا ہے۔ آپ تحقیق کرکے دیکھ لیں 58 مسلم ممالک پر امریکا کا کسی نہ کسی طرح قبضہ ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں اس کے علانیہ اور خفیہ فوجی اڈے قائم ہیں۔ بعض میں بڑے بڑے قونصل خانے اور ایمبیسی کے نام پر اڈے ہیں۔ بعض ممالک کے حکمرانوں کو خریدا ہوا ہے اور کوئی ازخود کاسہ لیس ہے۔
تاریخ گواہ ہے امریکی جہاں بھی جاتے ہیں، وہاں ان کے قدم ایسے جم جاتے ہیں کہ پھر نکلنے کا نام نہیں لیتے۔ کچھ عرصے قبل جاپان کے وزیر اعظم ”یوکیو ہاتو یاما“ نے کہا تھا: ”اوکی ناوا“ میں متنازع امریکی فوجی اڈے کو بندکرنا ممکن نہیں ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکا نے جاپان کو اس کی سلامتی کی ضمانت دی ہے۔ اس کے بدلے میں جاپان خود اپنی لڑاکا فوج نہیں رکھ سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے امریکی فوجی اڈوں کی مالی اعانت بھی کرنا ہوگی۔ اوکی ناوا کے فوجی اڈووں میں کوئی 20 ہزار کے لگ بھگ امریکی فوجی مقیم ہیں۔ جاپان میں مجموعی طور پر کوئی 47 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ اب جو 75 ممالک میں امریکی افواج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس کا واضح مطلب ہے امریکا پوری دنیا پر تسلط حاصل کرنا چاہتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے جب اوباما صدر بنے تھے تو انہوں نے اعلان کیا تھا میں سابق صدر بش کے برعکس سفارت کاری کے ذریعے پوری دنیا کے تمام مسائل حل کروں گا۔ میں پوری دنیا کو بدلنے کا عزم کیے ہوئے ہوں۔ میں جنگ سے نفرت کرتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے مسلم دنیا کا دورہ کیا۔
جامعہ ازہر قاہرہ میں مسلم دنیا کے ساتھ ازسرنو تعلقات کا اعلان کیا۔ بش کی چند پالیسیوں سے یوٹرن بھی لیا۔ اسی وجہ سے اکتوبر 2009ء میں انہیں امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔ مسٹر اوباما نے دنیا سے ایٹمی ہتھیاروں کی تخفیف کا بیڑا بھی اُٹھایا اور اس کے لیے کانفرنسوں پر کانفرنسیں کرڈالیں لیکن نتیجہ تاحال صفر ہے۔ عراق وافغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا دبے لفظوں اعلان کے بعد بھی گھمسان کی جنگ ہورہی ہے۔ یہ کھلا تضاد نہیں تو کیا ہے ابھی ایک ہفتہ قبل ہی اوباما نے نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ببانگ دہل کہا تھا: ”ہم بش کے نیو ورلڈ کو نہیں فالو نہیں کریں گے۔ ہم نے دنیا کے امن کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے۔“ ساتھ ہی انہوں نے 6 جون 2010ء کو خاموشی سے پچھتر ممالک میں خصوصی افواج کی تعیناتی کی منظوری بھی دے دی۔ یقینا اوباما کے اس فیصلے نے پوری دنیا کو ورطہٴ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کمانڈوز اور اسپیشل فورسز کے اختیارات میں بھی بے پناہ اضافہ کردیا۔ یہاں تک کہ پیشگی حملے کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ دنیا پر امریکی قبضہ جمانے کا منصوبہ نہیں تو کیا ہے؟ یہ ”دنیا کے امن کا ٹھیکہ دار“ بننا نہیں تو کیا ہے؟
قارئین! کچھ عرصے بعد جب کبھی یہ پچھتر ممالک امریکا سے اپنے اڈے خالی کرنے کا مطالبہ کریں گے تو امریکا کی طرف سے اسی طرح کا جواب ہوگا جس طرح جاپان نے امریکا سے احتجاج کیا کہ جاپان میں امریکی اڈے خالی کردیے جائیں لیکن امریکا نے یہ کہہ کر جاپان کو خاموش کرادیا دوسری جنگ میں ہمارا جتنا خرچہ ہوا ہے اسے پورا کردیا جائے۔ بصورت دیگر یہ اڈے خالی نہیں کیے جائیں گے۔
اسی عنوان یا لکھاری سے مزید
anwar ghazi,
cia,
usa
Wednesday, April 21, 2010
ہماری قومی اور سرکاری زبان عربی ہونی چاہیئے - - - - سچ تو یہ ہے
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ہ
اگر قیام پاکستان کے وقت حکومت پاکستان کے وزیر اور مشیر دانش مند ہوتے تو ڈھاکہ میں قومی زبان کے مسلے پر ہنگامہ نہ ہوتا۔غالباً رائے دینے والوں نے قائداعظم محمد علی جناح کو گمراہ کن اعداد و شمار دیے تھے، تبھی تو بنگلہ اور اردو کا جھگڑا کھڑا ہو گیا تھا ۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ قائداعظم کواصل حقائق سے مکمل طور پر لاعلم ہی رکھا گیا تھا ورنہ وہ جمہور پسند رہنما اکثریت کے جذبات کا ضرور بہ ضرور احترام کرتا اس کی بنیادی وجہِ یہ تھی کہ قائد اعظم کی خاندانی زبان گجراتی تھی اور سپوکن لیگویج انگلش تھی۔
انہوں نے اردو بھی محض اسی خیال کے تحت سیکھنے کی کوشش کی تھی ،کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ برصغیر کے تمام کے تمام مسلم عوام اردو ہی بولتے ہیں۔اگر ان کے ذہن میں ذرا سا بھی شبہ ہوتا تو وہ بنگالی عوام پر کسی ایک طبقے کی یا کسی فرد واحد کی مرضی یا فیصلہ ٹھونسنے کی کبھی بھی کوشش نہ کرتے۔
اگر اس ابتدائی دور میں دوراندیش ،معاملہ فہم ،حقائق پسنداور با اصول وزیر، مشیر ہماری مرکزی حکومت اور قیادت کا حصہ ہوتے تو بنگالی قوم پرست ناراض نہ ہوتے اورپھر دلوں میں نفرت اس قدر نہ بڑھتی کہ بھائی ہی بھائی کا جانی دشمن بن جاتا ،بلکہ ہماری قومی اور سرکاری زبان کا مسلہ بھی ان ہی ایام میں بخوبی حل ہوتا، پھر ہمارے مسائل اور آپس کی رنجشیں اتنی نہ بڑھتیں کہ انجام کار میں بنگلہ دیش بنانے کی نوبت آتی۔
جب ہماری اجتماعی نااہلیوں اور نا سمجھیوں کی بدولت ہمارے بنگالی بولنے والے بھائی ہم سے علیحدہ ہوگئے تھے اور بنگلہ دیش بن گیا تھا، تب باقی ماندہ پاکستان کو تو اردو کی سیادت اور قیادت پر متفق نظر آنا چاہیے تھا۔ کیونکہ بظاہر تو اس خطہ میں اردو کی پذیرائی ایسے ہی کی جاتی تھی جیسے کہ یہ زبان سبھی کو قبول ہے۔
مگر یہاں پر بھی مسلہ کہیں نہ کہیں چھپا ہوا تھا، اس لئے نظروں سے اوجھل تھا ۔وہ تو اس وقت سامنے آیا تھا ،جب سندھی قوم پرستوں نے ممتاز علی بھٹو کی قیادت میں سندھی زبان کو صوبہ سندھ کی سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
میں ذاتی طور پر نہ تو سندھی زبان کی ترویج، ترقی یا اس کے نفاذ کے خلاف ہوں اور نہ ہی اس فعل پر ممتاز علی بھٹو کو وطن کا غدار قرار دیتا ہوں کیونکہ اپنی مادری اور علاقائی زبان کی حفاظت کرنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور یہ حق ہمیں ہمارے متفقہ آئین نے دیا ہے ۔اسی آئین کے تحت دیے گئے حق کے تحت میں یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ ممتاز علی بھٹو کے دوروزارت اعلیٰ کے دوران جتنے انسانوں کا قتل ہوا، جتنی جائد ادیں لوٹی، چھینی اور جلائی گئیں،جتنی لڑکیوں اور عورتوں کو اغواءکیا گیایا ان کی عزتیں لوٹی گئیں یا کوئی اور خلاف قانون بلوے ہوئے تھے ،سب کی غیر جانب دارانہ اور کھلی تحقیقات ہونی چاہئیں اور تمام مجرموں کو سزا بھی دی جانی چاہئے، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے پائے۔
اسی طرح سے میں اس مطالبہ کی بھی حمایت کرتا ہوں کہ قیام بنگلہ دیش سے قبل ،مشرقی پاکستان میں جتنے بھی بنگالی اور غیر بنگالی ناحق قتل کئے گئے تھے اور جن جن عورتوں کی آبروریزی کی گئی تھی ۔ان سب کو انصاف دینے کے لئے سارے کے سارے حقائق کو سامنے لایا جائے اورمجرموں کو قرار واقعی سزا بھی دی جائے ،خواہ اس کے لئے مرے ہوئے لوگوں کے خلاف مقدمات چلانے کی ضرورت پڑے اور بعد میں ان کی قبروں پر ان کو دی گئی سزاﺅں کے کتبے گاڑے جائیں، تاکہ ہمارے ملک میں انصاف مہیا کرنے کی روایت قائم ہو۔انصاف ہونا چاہئے جلد یا بدیر!کیونکہ دین اسلام ہمیں انصاف اور عدل قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔
چونکہ اسلام میّت کی حرمت کا بھی حکم دیتا ہے اس لئے ان تاریخ کے مجرموں کی قبروں کو قطعاً نہ چھیڑا جائے۔
سچ تو یہ ہے کہ اردو زبان کو قومی زبان قرار دینے کے خلاف مزاحمت اور نفرت آج بھی موجود ہے۔کیونکہ نواب محمد اکبر بگٹی نے اپنی زندگی کے اختتامی سالوں میں اردو کی بجائے پنجابی زبان میں گفتگو کرنے کو ترجیح دی تھی۔ آپ کہیں گے کہ وہ تو غدار تھا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ان فوجی جرنیلوں کا غدار وطن کا اپنا ہی ذاتی معیار ہے ۔میں تو ان پر بالکل ہی ٹرسٹ نہیں کرتا ۔ ان ظالموں نے تو فوج اور پاکستان کو اپنے ذاتی، گروہی اور مذہبی مفادات کے لئے اس بری طرح سے استعمال کیا ہے کہ دونوں کی اصلی شکلیں بگڑ کر بھیانک بن گئیں ہیں۔
پاکستان کی موجودہ بگڑی ہوئی امن و امان کی صورت حال اور تباہ شدہ اقتصادیات کے اصل ذمہ دار یہ جرنیل ہی تو ہیں جنہوں نے پاکستان کی نصف عمر ضائع کردی اور قوم کو نصف در نصف کر دیا ہے ۔جب کہ ہم اتنے احمق ہیں کہ اگر کسی جمہوری حکمران نے کوئی سختی کی تو بیلٹ بکس اورالیکشن کے عمل کے ذریعے سے اس کو ہٹانے کی بجائے فوجی جرنل کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔
پھرجب فوجی آتا ہے تو وہ جاتا ہی نہیں ،کیونکہ وہ کونسا ہم عوام کے ذریعے سے آیا تھا ، کہ اب ہم سے پوچھ کر جائے گا۔اب اگر ہم نے ایک برے سیاست دان سے پانچ برس کے بعد جان چھڑا لینی تھی، تواس سے بھی کہیں برے جرنل سے دس برس بعد بھی چھوٹ جائے تو غنیمت ہے۔پھر جنرل جاتے جاتے ملک کو اور بھی تقسیم کر جائے گایا کسی نہ کسی پاکستانی کو غدار کا خطاب دے جائے گا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ جنرل ایوب نے پہلے مولانا مودودی جیسے جید عالم اور سیاسی رہنما کو غدار قرار دیا تھا اور پھر شیخ مجیب الرحمٰن کو۔
یہ وہی مجیب الرحمٰن ہے جو کہ قائد اعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناح ؒکے بعد بنگالی عوام کا مقبول لیڈر رہا ہے اور ہمارے ملک کے فوجی حکمران تو مقبول عوامی لیڈروں کو ہمیشہ سے ہی اپنے راستے کا کانٹا سمجھتے رہے ہیں۔
پاکستان اس روئے ارض کا واحد ملک ہے جس میں سب سے زیادہ کلمہ گو انسانوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اور سب سے زیادہ مقبول عوامی رہنماﺅں کو غدار وطن کا تمغہ دیا گیا ہے۔ اگر ان فوجی حکمرانوں کے بس میں ہوتا تو وہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ مرحوم صاحب کو بھی غدار قرار دے ہی دیتے۔
اس لئے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ان دونوں الفاظ کے استعمال پر پابندی عائد کر دینی چاہئے۔
اگر کسی شخص کے ’ایمان‘ پر شک و شبہ ہے تو اسلام کے تمام سکول آف تھاٹ کے جید علماءپر مشتمل بورڈ اس متعلقہ شخص کے عقیدے اور سوچ کی مکمل تحقیق کرے اور اس کے ایمان کے متعلق فیصلہ صادر کرے اور اگر کسی شخص کی ’وطنی محبت ‘پر شک ہے تو اس شخص پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہئے۔ پانچ ججز پر مشتمل پینل ہو ۔ جن میں سے ایک بین الاقوامی قانون دان ہو،دوسرا تمام فقہوں کا سکالرہو، باقی کے تین سپریم کورٹ کے مستقل ججز ہوں۔ ( تاکہ حکمران ، عارضی ججوں کو بلیک میل نہ کر سکے۔)
ان با عزت اداروں کے علاوہ کسی بھی شخص یا کسی دوسری اتھارٹی کو یہ حق حاصل نہ ہو کہ کسی فرد،ادارے، گروہ ،جماعت یا کسی مکتب فکر کو کافر یا غدار قرار دے سکے ۔اگر کوئی شخص یا حکمران ان معتبر اداروں سے بالا ہی بالااپنی من مانی کرے تو اس کے خلاف نقص امن کا مقدمہ بھی چلنا چاہئے اور جس شخص،ادارے ،گروہ جماعت یا مکتب فکر کی بدنامی ہوئی ہے ، اسے ازالہ حیثیت عرفی( ہتک عزت )کا دعویٰ دائر کرنے اور حرجانہ وصول کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم پاکستانیوں نے اس اہم ایشوکے بارے میں بروقت ،صحیح سمت میں اقدامات نہ اٹھائے تو ایک دن ایسابھی آسکتا ہے کہ لوگ کسی بھی مسلم کوکافر اور کسی بھی محب وطن کو غدار کہتے پھریں گے اور پھر ان لفظوں کی آڑ لے کر اپنی ذاتی دشمنیاں نکالتے پھریں گے۔جس کی وجہِ سے پاکستان میں انارکی کی سی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔
اگر ہم نے نوکر شاہی کی بات مان کر قومی زبان کے بارے میں بے لچک رویہ اپنایا تو ایک مرتبہ پھر سے لسانی،نسلی اور گروہی فسادات ہوسکتے ہیں اور اس وقت تو پاکستان میں خانہ جنگی کا یقینی خطرہ یقیناًموجود ہے ۔ سابقہ مشرقی پاکستان اور صوبہ سندھ میں لسانی فسادات اور قتل عام کا عملی مظاہرہ ہم پاکستانی دو مرتبہ تو دیکھ چکے ہیںجن میں سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، اب اس برے عمل کا اعادہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔
اگر ہم نے مشترکہ قومی زبان کے نازک اور حساس مسلے کو ماضی کی طرح سے افسر شاہی کی عینک سے دیکھا اور پھر سے پرانے اور بے کار ہتھکنڈے آزمائے، تو نفرت کے رکے ہوئے جذبات کا ریلہ اس شدت سے بہہ نکلے گا کہ ایک مرتبہ پھر سے ہمارا دشمن ہماری اندرونی کمزوریوںسے فائدہ اٹھائے گا اورہم دیکھتے ہی رہ جائیں گے ۔ ہمیں ایک اور ڈھاکہ فال سے قبل ہی عقل کے ناخن لینے چاہییں۔ بجائے اس کے کہ ہم دس سال کے بعد ٹیبل پر بیٹھ کر ہتھیار ڈالنے کے کاغذات پر دستخط کر رہے ہوں ۔
افہام وتفہیم کا جذبہ لے کر مسلے کے تمام فر یقوں کو مل کر بیٹھنا چاہئے اور آج ہی کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کی بنیاد پر ،کسی ایک متفقہ فیصلہ پر پہنچ جانا چاہیے کیونکہ پہلے ہی بہت ہی زیادہ دیر ہوچکی ہے ۔قوموں کی ترقی کی دوڑ میں ہم روز بہ روز پیچھے ہی رہتے جا رہے ہیں ۔اگر ہم نے جلد ہی کوئی مثبت فیصلہ نہ کیا تو کسی دشمن کو آکر اور بم برسا کر ہمیں پتھر کے دور میں پہنچانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی بلکہ اپنی بدعقلی(میں نے کم عقلی نہیں لکھا)کی بدولت ہم خود ہی پتھروں کے عہد میں پہنچ جائیں گے۔ (اللہ قادر مطلق نہ کرے کہ ایسا برا ہو یا ایسا برا دن بھی ہماری قوم پر آئے ۔آمین !!)
مشترکہ اور متفقہ قومی زبان کونسی ہو نی چاہیے؟ اس پر بہت ساری آراءہو سکتی ہیں ۔میری رائے میں عربی زبان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں ،جن کی بناءپر نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے تمام غیر عرب مسلم ممالک بھی عربی زبان کو اپنی واحد یاپھر دوسری ،تیسری سرکاری زبان کے طور پر اپنا سکتے ہیں۔
یہ میری ذاتی تجویز ہے ۔اس پر سوچا جا سکتا ہے اور بحث بھی کی جا سکتی ہے ۔آخَر ہم نے وفاق پاکستان بچانا ہے جو کہ ہم نے صدیوں کی جدوجہد اورلاکھوں ایمان والوں کی قربانی دے کر حاصل کیا ہے۔اس عظیم نعمت کو چند عشروں میں صرف زبان کے مسلے پر ضد بازی میں گنوانا دانش مندی نہیں ہے۔اگر ہم نے ضدبازی اور اناء کی جھوٹی جنگ میں یہ عظیم خطہ کھو دیا تو ذرا یہ سوچیں کہ آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں کن کن برے ناموں سے یاد کیا کرینگی؟
صوبائی سطح پر ہر صوبے کی اسمبلی اپنے صوبے کی زبان کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار رکھتی ہے۔مگر مسلہ یہ ہے کہ پاکستان کے تمام صوبے غیر فطری طور پر بہت بڑے ہیں،کوئی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے کئی ممالک سے بڑا ہے ،تو کوئی اتنا رقبہ رکھتا ہے کہ اس میں یورپ کے کئی ملک سما جائیں،پھر ہر صوبے میں ایک سے زیادہ مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں ۔اس طرح سے ہر لسانی گروہ اپنی زبان کا نفاذ چاہے گا جو کہ ہر ایک پاکستانی کا پیدائشی اور بنیادی حق ہے اور کسی ایک اکثریت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسری اقلیت کا حق دبائے۔
اس لئے پاکستان کے تمام صوبوں کو فطری اور انتظامی بنیادوں پر آبادی کے مفاد میں چھوٹا کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ ہمیں اس بارے میں بھی غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ عوام الناس کی بھلائی کس طرح سے کی جا سکتی ہے؟
اورکس طرح سے عوام الناس کو انتظامی محکموں سے متعلق سہولتیں انکے گھر کی دہلیز پر دی جا سکتی ہیں؟ اس وقت تو زیر گفتگو مسلہ مشترکہ قومی زبان کا ہے۔اس میں بھی عوام الناس کی بھلائی ہی پیش نظر رکھی جانی چاہئے۔میرا ذاتی خیال ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس مسلے کو حل نہیں کیا جا سکتا ،کیونکہ آبادی کے لحاظ سے چھوٹے صوبے پھر سے وہی شکایت کریں گے، کہ پنجاب اپنی واحد اکثریت کی بناءپر ہم پر ایک ایسی زبان ٹھونس رہا ہے ،جو کہ اس کی اپنی زبان نہیں ہے۔
ویسے ان کی شکایت بجا بھی ہے ،کیونکہ پنجاب والے بہت سارے معاملات میں حقیقت پسندانہ سوچ نہیں رکھتے۔جیسے کہ باقی صوبوں کے عوام اور خود پنجاب کے جنوبی ڈویژن اپنی زبان اور ثقافت کے بارے میں خا صے حساس ہیں ، جبکہ وسطی پنجاب کے علاقے کے عوام ان سے مختلف سوچ رکھتے ہیں۔اسی لئے انہوں نے اپنی تہذیب اور زبان کی سرپرستی کرنے کی بجائے دوسروں کی تہذیب اور زبان کوگلے سے لگا لیا ہے۔ اردو کی جذباتی سرپرستی اس سوچ کا نتیجہ ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے ،اس عمل کے نتیجے میںپنجابیوں نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی اپنی مادر ی زبانوں کو اتنی بے رحمی سے نظر انداز کیا ہوا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت ساری علاقائی زبانیں مر رہی ہیں۔
اگر میں کہوں کہ اب تو اردو زبان بھی مر رہی ہے تو کیا آپ یقین کریں گے ؟
جی ہاں! اردو زبان دنیا کی ان زبانوں میں سے ایک ہے ، جس کے بولنے والے افراد کی تعداد میں بظاہر تو اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ مگر دنیا کی کل آبادی کے مقابلے میں اردو بولنے والوں کی اوسط کم ہو رہی ہے۔اس کی دو وجوہات ہیں۔
پہلی تو یہ ہے کہ اردو بولنے والے پنجابی متوسط طبقے کے لوگوں نے ایلیٹ کلاس کی نقل میں انگلش لیگویج کی سرپرستی شروع کر دی ہے، دوسری یہ ہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں اور صوبوں سے جو پاکستانی بیرون ملک سیٹل ہو رہے ہیں وہ خود تو بے شک اردو پڑھ لکھ سکتے ہیں،مگر ان کی دوسری نسلیں اردو یا اپنی مادری زبانیں بول تو سکتی ہیں ،مگر پڑھ یا لکھ نہیں سکتیں تیسری نسل یاچوتھی نسل ملی جلی زبانیں بولتی ہیں اور اگر وہ تعلیم یافتہ ہیں تو پھر اپنے بڑوں کی زبانوں سے تقریباً نا آشنا ہی ہیں اگر یہی صورت حال جاری رہی تو ایک دن اردو زبان بھی پنجابی کی طرح سے صرف مشاعروں، ڈراموں اورفلموں کی حد تک ہی محدود ہوجائی گی یا پھریار لوگ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے کبھی کبھاربھانڈوں سے فرمائش کیا کریں گے کہ پیا جی۔ اردو میں کوئی چٹکلہ ہی سنا دو۔
اس وقت جو زبانیں دنیا میں پھیل رہی ہیں ان میں انگلش تو سر فہرست ہی ہے ،مگر ساتھ ہی ساتھ عربی، سپینیش، فرینچ اور مندرین (چین کی مرکزی سرکاری زبان) بولنے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ۔اگر کسی ملک نے ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہنا ہے ،تو اسے اپنی قومی اور سرکاری زبان کے ساتھ ساتھ ا ن زبانوںمیں سے کسی ایک یا دو زبانوں کو اپنانا ہی پڑے گا۔جیسے کہ چین والے انگلش کو اپنا رہے ہیں ۔جبکہ امریکہ میں انگلش کے ساتھ ساتھ سپینیش زبان بھی استعمال ہوتی ہے۔
پاکستان اگر صرف اردو کو ہی سرکاری زبان قرار دے دے، تو ہمیں بین الاقوامی سطح پر رابطے کے لئے اوپر بیان کی گئی، کسی ایک زبان کو لازمی اپنانا ہی پڑے گا اور اگر ہم اب بھی انگلش کی جگہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کی جنگ بدستور جاری رکھیں گے تو اندرون ملک زبانوں کی موجودہ جنگ بھی بدستورجاری ہی رہے گی اورپھر اردو کے ساتھ ساتھ ہمار ی ما دری، علاقائی ،مقامی اور قبائلی بولیاں بھی معدوم ہوتی چلی جائیں گی۔
ایک آپشن اور بھی ہے ۔وہ یہ کہ ہم صرف انگلش زبان کواپنی سرکاری زبان کے طور پر اپنا نے کا فیصلہ کر لیں ؟
بے شک انگلش موجودہ دور کی سب سے موثر بین الاقوامی زبان ہے، مگر اس کا مزاج،تہذیب اورثقافت ایسی ہے کہ ایک مسلم قوم اسے ایک زبان کے طور پر تو سیکھ سکتی ہے مگر قومی یا سرکاری زبان کے طور پر اپنا نہیں سکتی۔کیو نکہ جو بھی ملک اسے اپنا رہے ہیں۔ وہاں کے لوگ غیر شعوری طور پر انگلش اور امریکن ثقافت بھی اپنائے جا رہے۔
دوسرے ممالک کی تو خیر ہے ان کو کوئی بھی فرق نہیں پڑتا ،کیونکہ ان کو تو مادی ترقی سے مطلب ہے۔مگر ہمیں فرق پڑتا ہے۔کیونکہ ہم مسلم ہیں اور ہمارا دین اسلام ہے۔ اگر ہم لوگ ماضی کی طرح سے انگلش کو بدستوراپنائے رکھیں گے توہماری روایات ،تہذیب،ثقافت اوررسم ورواج تباہ وبرباد ہوتے رہیں گے۔
کیا ہم صرف مادی ترقی کی خا طر اپنی روایات ،تہذیب ،ثقافت اور رسم ورواج کو تباہ وبرباد ہوتے دیکھتے رہیں گے ؟
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہم اپنے دین اور اس سے وابستہ اقدار کو خیر آباد کہہ سکتے ہیں؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی قوم،، کسی دوسری قوم کی زبان کو اپنی مرضی سے اپناتی ہے یاپھرکوئی اجنبی زبان اس پر زبردستی مسلط کر دی جاتی ہے تو وہ قوم اس اجنبی زبان سے وابستہ بہت ساری روایات اور اصطلاحات کوغیر شعوری طور پر اپنا ہی لیا کرتی ہے۔جو کہ اس کے اپنے مزاج اور مذاق سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں۔جیسے کہ ہندی زبان میں سلام،عید اور طلاق کے خالص اسلامی الفاظ کو ہندو اپنی روز مرّہ کی زبان میں استعمال کرتے ہیں حالانکہ یہ خالص عربی زبان کے الفاظ ہیں، ان کا نہ توہندو تہذیب روایات اور مذہب سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی عربوں کی آمد سے قبل ان الفاظ کا سنسکرت زبان میں کوئی وجودتھا۔
بلکہ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ الفاظ ہندومذہب کی تعلیمات کی ضد اور الٹ ہیں،مگر پھر بھی کثیر ہندو آبادی اسے استعمال کرنے پر مجبور ہے۔کیونکہ یہ الفاظ ہندی میں فارسی سے آئے ہیں ،جو کہ مسلم حکمرانوں کے دور حکومت میں ہند کی سرکاری زبان تھی۔اب آپ خود ہی سوچیں کہ اگر عربی زبان ہند کی سرکاری زبان ہوتی تو ہندی میں کتنے فیصد سنسکرت باقی رہ جانی تھی؟
اسی ڈر سے تو جواہر لال نہرو نے ہندی کے لئے سنسکرت رسم الخط اپنانے کا فیصلہ کیا تھا کہ رہی سہی ہندی ہی بچا لی جائے ۔ یاد رہے کہ وہ بھارت کا پہلا وزیر اعظم تھا۔
بہت ساری خوبیوں کے علاوہ عر بی زبان میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ہماری دینی زبان بھی ہے ۔ہماری مقدس کتاب قرآن مجید اسی زبان میں نازل ہوئی ہے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کی احادیث بھی اسی زبان میں ہیں ۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان میں بولی جانے والی ساری کی ساری زبانیں اور بولیاں عربی زبان سے ہی نکلی ہیں اور صرف عربی ہی ان کی حفاظت کر سکتی ہے اور ان کو پروان بھی چڑھا سکتی ہے۔
تو کیوں نہ ہم عربی کو بطور سرکاری زبان اپنا لیں ؟؟؟
کیونکہ ہمارا بد ترین دشمن عربی زبان سے بری طرح سے گھبراتا ہے ۔سوچیں کہ اگر یہ زبان اس کی سرحد تک آگئی تو ڈر کے مارے اس کا کیا حال ہوگا؟؟؟
خادم الاسلام والمسلمین ڈاکٹر عصمت حیات علوی 30 جون 2009ء
اگر قیام پاکستان کے وقت حکومت پاکستان کے وزیر اور مشیر دانش مند ہوتے تو ڈھاکہ میں قومی زبان کے مسلے پر ہنگامہ نہ ہوتا۔غالباً رائے دینے والوں نے قائداعظم محمد علی جناح کو گمراہ کن اعداد و شمار دیے تھے، تبھی تو بنگلہ اور اردو کا جھگڑا کھڑا ہو گیا تھا ۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ قائداعظم کواصل حقائق سے مکمل طور پر لاعلم ہی رکھا گیا تھا ورنہ وہ جمہور پسند رہنما اکثریت کے جذبات کا ضرور بہ ضرور احترام کرتا اس کی بنیادی وجہِ یہ تھی کہ قائد اعظم کی خاندانی زبان گجراتی تھی اور سپوکن لیگویج انگلش تھی۔
انہوں نے اردو بھی محض اسی خیال کے تحت سیکھنے کی کوشش کی تھی ،کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ برصغیر کے تمام کے تمام مسلم عوام اردو ہی بولتے ہیں۔اگر ان کے ذہن میں ذرا سا بھی شبہ ہوتا تو وہ بنگالی عوام پر کسی ایک طبقے کی یا کسی فرد واحد کی مرضی یا فیصلہ ٹھونسنے کی کبھی بھی کوشش نہ کرتے۔
اگر اس ابتدائی دور میں دوراندیش ،معاملہ فہم ،حقائق پسنداور با اصول وزیر، مشیر ہماری مرکزی حکومت اور قیادت کا حصہ ہوتے تو بنگالی قوم پرست ناراض نہ ہوتے اورپھر دلوں میں نفرت اس قدر نہ بڑھتی کہ بھائی ہی بھائی کا جانی دشمن بن جاتا ،بلکہ ہماری قومی اور سرکاری زبان کا مسلہ بھی ان ہی ایام میں بخوبی حل ہوتا، پھر ہمارے مسائل اور آپس کی رنجشیں اتنی نہ بڑھتیں کہ انجام کار میں بنگلہ دیش بنانے کی نوبت آتی۔
جب ہماری اجتماعی نااہلیوں اور نا سمجھیوں کی بدولت ہمارے بنگالی بولنے والے بھائی ہم سے علیحدہ ہوگئے تھے اور بنگلہ دیش بن گیا تھا، تب باقی ماندہ پاکستان کو تو اردو کی سیادت اور قیادت پر متفق نظر آنا چاہیے تھا۔ کیونکہ بظاہر تو اس خطہ میں اردو کی پذیرائی ایسے ہی کی جاتی تھی جیسے کہ یہ زبان سبھی کو قبول ہے۔
مگر یہاں پر بھی مسلہ کہیں نہ کہیں چھپا ہوا تھا، اس لئے نظروں سے اوجھل تھا ۔وہ تو اس وقت سامنے آیا تھا ،جب سندھی قوم پرستوں نے ممتاز علی بھٹو کی قیادت میں سندھی زبان کو صوبہ سندھ کی سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
میں ذاتی طور پر نہ تو سندھی زبان کی ترویج، ترقی یا اس کے نفاذ کے خلاف ہوں اور نہ ہی اس فعل پر ممتاز علی بھٹو کو وطن کا غدار قرار دیتا ہوں کیونکہ اپنی مادری اور علاقائی زبان کی حفاظت کرنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور یہ حق ہمیں ہمارے متفقہ آئین نے دیا ہے ۔اسی آئین کے تحت دیے گئے حق کے تحت میں یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ ممتاز علی بھٹو کے دوروزارت اعلیٰ کے دوران جتنے انسانوں کا قتل ہوا، جتنی جائد ادیں لوٹی، چھینی اور جلائی گئیں،جتنی لڑکیوں اور عورتوں کو اغواءکیا گیایا ان کی عزتیں لوٹی گئیں یا کوئی اور خلاف قانون بلوے ہوئے تھے ،سب کی غیر جانب دارانہ اور کھلی تحقیقات ہونی چاہئیں اور تمام مجرموں کو سزا بھی دی جانی چاہئے، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے پائے۔
اسی طرح سے میں اس مطالبہ کی بھی حمایت کرتا ہوں کہ قیام بنگلہ دیش سے قبل ،مشرقی پاکستان میں جتنے بھی بنگالی اور غیر بنگالی ناحق قتل کئے گئے تھے اور جن جن عورتوں کی آبروریزی کی گئی تھی ۔ان سب کو انصاف دینے کے لئے سارے کے سارے حقائق کو سامنے لایا جائے اورمجرموں کو قرار واقعی سزا بھی دی جائے ،خواہ اس کے لئے مرے ہوئے لوگوں کے خلاف مقدمات چلانے کی ضرورت پڑے اور بعد میں ان کی قبروں پر ان کو دی گئی سزاﺅں کے کتبے گاڑے جائیں، تاکہ ہمارے ملک میں انصاف مہیا کرنے کی روایت قائم ہو۔انصاف ہونا چاہئے جلد یا بدیر!کیونکہ دین اسلام ہمیں انصاف اور عدل قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔
چونکہ اسلام میّت کی حرمت کا بھی حکم دیتا ہے اس لئے ان تاریخ کے مجرموں کی قبروں کو قطعاً نہ چھیڑا جائے۔
سچ تو یہ ہے کہ اردو زبان کو قومی زبان قرار دینے کے خلاف مزاحمت اور نفرت آج بھی موجود ہے۔کیونکہ نواب محمد اکبر بگٹی نے اپنی زندگی کے اختتامی سالوں میں اردو کی بجائے پنجابی زبان میں گفتگو کرنے کو ترجیح دی تھی۔ آپ کہیں گے کہ وہ تو غدار تھا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ان فوجی جرنیلوں کا غدار وطن کا اپنا ہی ذاتی معیار ہے ۔میں تو ان پر بالکل ہی ٹرسٹ نہیں کرتا ۔ ان ظالموں نے تو فوج اور پاکستان کو اپنے ذاتی، گروہی اور مذہبی مفادات کے لئے اس بری طرح سے استعمال کیا ہے کہ دونوں کی اصلی شکلیں بگڑ کر بھیانک بن گئیں ہیں۔
پاکستان کی موجودہ بگڑی ہوئی امن و امان کی صورت حال اور تباہ شدہ اقتصادیات کے اصل ذمہ دار یہ جرنیل ہی تو ہیں جنہوں نے پاکستان کی نصف عمر ضائع کردی اور قوم کو نصف در نصف کر دیا ہے ۔جب کہ ہم اتنے احمق ہیں کہ اگر کسی جمہوری حکمران نے کوئی سختی کی تو بیلٹ بکس اورالیکشن کے عمل کے ذریعے سے اس کو ہٹانے کی بجائے فوجی جرنل کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔
پھرجب فوجی آتا ہے تو وہ جاتا ہی نہیں ،کیونکہ وہ کونسا ہم عوام کے ذریعے سے آیا تھا ، کہ اب ہم سے پوچھ کر جائے گا۔اب اگر ہم نے ایک برے سیاست دان سے پانچ برس کے بعد جان چھڑا لینی تھی، تواس سے بھی کہیں برے جرنل سے دس برس بعد بھی چھوٹ جائے تو غنیمت ہے۔پھر جنرل جاتے جاتے ملک کو اور بھی تقسیم کر جائے گایا کسی نہ کسی پاکستانی کو غدار کا خطاب دے جائے گا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ جنرل ایوب نے پہلے مولانا مودودی جیسے جید عالم اور سیاسی رہنما کو غدار قرار دیا تھا اور پھر شیخ مجیب الرحمٰن کو۔
یہ وہی مجیب الرحمٰن ہے جو کہ قائد اعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناح ؒکے بعد بنگالی عوام کا مقبول لیڈر رہا ہے اور ہمارے ملک کے فوجی حکمران تو مقبول عوامی لیڈروں کو ہمیشہ سے ہی اپنے راستے کا کانٹا سمجھتے رہے ہیں۔
پاکستان اس روئے ارض کا واحد ملک ہے جس میں سب سے زیادہ کلمہ گو انسانوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اور سب سے زیادہ مقبول عوامی رہنماﺅں کو غدار وطن کا تمغہ دیا گیا ہے۔ اگر ان فوجی حکمرانوں کے بس میں ہوتا تو وہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ مرحوم صاحب کو بھی غدار قرار دے ہی دیتے۔
اس لئے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ان دونوں الفاظ کے استعمال پر پابندی عائد کر دینی چاہئے۔
اگر کسی شخص کے ’ایمان‘ پر شک و شبہ ہے تو اسلام کے تمام سکول آف تھاٹ کے جید علماءپر مشتمل بورڈ اس متعلقہ شخص کے عقیدے اور سوچ کی مکمل تحقیق کرے اور اس کے ایمان کے متعلق فیصلہ صادر کرے اور اگر کسی شخص کی ’وطنی محبت ‘پر شک ہے تو اس شخص پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہئے۔ پانچ ججز پر مشتمل پینل ہو ۔ جن میں سے ایک بین الاقوامی قانون دان ہو،دوسرا تمام فقہوں کا سکالرہو، باقی کے تین سپریم کورٹ کے مستقل ججز ہوں۔ ( تاکہ حکمران ، عارضی ججوں کو بلیک میل نہ کر سکے۔)
ان با عزت اداروں کے علاوہ کسی بھی شخص یا کسی دوسری اتھارٹی کو یہ حق حاصل نہ ہو کہ کسی فرد،ادارے، گروہ ،جماعت یا کسی مکتب فکر کو کافر یا غدار قرار دے سکے ۔اگر کوئی شخص یا حکمران ان معتبر اداروں سے بالا ہی بالااپنی من مانی کرے تو اس کے خلاف نقص امن کا مقدمہ بھی چلنا چاہئے اور جس شخص،ادارے ،گروہ جماعت یا مکتب فکر کی بدنامی ہوئی ہے ، اسے ازالہ حیثیت عرفی( ہتک عزت )کا دعویٰ دائر کرنے اور حرجانہ وصول کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم پاکستانیوں نے اس اہم ایشوکے بارے میں بروقت ،صحیح سمت میں اقدامات نہ اٹھائے تو ایک دن ایسابھی آسکتا ہے کہ لوگ کسی بھی مسلم کوکافر اور کسی بھی محب وطن کو غدار کہتے پھریں گے اور پھر ان لفظوں کی آڑ لے کر اپنی ذاتی دشمنیاں نکالتے پھریں گے۔جس کی وجہِ سے پاکستان میں انارکی کی سی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔
اگر ہم نے نوکر شاہی کی بات مان کر قومی زبان کے بارے میں بے لچک رویہ اپنایا تو ایک مرتبہ پھر سے لسانی،نسلی اور گروہی فسادات ہوسکتے ہیں اور اس وقت تو پاکستان میں خانہ جنگی کا یقینی خطرہ یقیناًموجود ہے ۔ سابقہ مشرقی پاکستان اور صوبہ سندھ میں لسانی فسادات اور قتل عام کا عملی مظاہرہ ہم پاکستانی دو مرتبہ تو دیکھ چکے ہیںجن میں سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، اب اس برے عمل کا اعادہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔
اگر ہم نے مشترکہ قومی زبان کے نازک اور حساس مسلے کو ماضی کی طرح سے افسر شاہی کی عینک سے دیکھا اور پھر سے پرانے اور بے کار ہتھکنڈے آزمائے، تو نفرت کے رکے ہوئے جذبات کا ریلہ اس شدت سے بہہ نکلے گا کہ ایک مرتبہ پھر سے ہمارا دشمن ہماری اندرونی کمزوریوںسے فائدہ اٹھائے گا اورہم دیکھتے ہی رہ جائیں گے ۔ ہمیں ایک اور ڈھاکہ فال سے قبل ہی عقل کے ناخن لینے چاہییں۔ بجائے اس کے کہ ہم دس سال کے بعد ٹیبل پر بیٹھ کر ہتھیار ڈالنے کے کاغذات پر دستخط کر رہے ہوں ۔
افہام وتفہیم کا جذبہ لے کر مسلے کے تمام فر یقوں کو مل کر بیٹھنا چاہئے اور آج ہی کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کی بنیاد پر ،کسی ایک متفقہ فیصلہ پر پہنچ جانا چاہیے کیونکہ پہلے ہی بہت ہی زیادہ دیر ہوچکی ہے ۔قوموں کی ترقی کی دوڑ میں ہم روز بہ روز پیچھے ہی رہتے جا رہے ہیں ۔اگر ہم نے جلد ہی کوئی مثبت فیصلہ نہ کیا تو کسی دشمن کو آکر اور بم برسا کر ہمیں پتھر کے دور میں پہنچانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی بلکہ اپنی بدعقلی(میں نے کم عقلی نہیں لکھا)کی بدولت ہم خود ہی پتھروں کے عہد میں پہنچ جائیں گے۔ (اللہ قادر مطلق نہ کرے کہ ایسا برا ہو یا ایسا برا دن بھی ہماری قوم پر آئے ۔آمین !!)
مشترکہ اور متفقہ قومی زبان کونسی ہو نی چاہیے؟ اس پر بہت ساری آراءہو سکتی ہیں ۔میری رائے میں عربی زبان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں ،جن کی بناءپر نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے تمام غیر عرب مسلم ممالک بھی عربی زبان کو اپنی واحد یاپھر دوسری ،تیسری سرکاری زبان کے طور پر اپنا سکتے ہیں۔
یہ میری ذاتی تجویز ہے ۔اس پر سوچا جا سکتا ہے اور بحث بھی کی جا سکتی ہے ۔آخَر ہم نے وفاق پاکستان بچانا ہے جو کہ ہم نے صدیوں کی جدوجہد اورلاکھوں ایمان والوں کی قربانی دے کر حاصل کیا ہے۔اس عظیم نعمت کو چند عشروں میں صرف زبان کے مسلے پر ضد بازی میں گنوانا دانش مندی نہیں ہے۔اگر ہم نے ضدبازی اور اناء کی جھوٹی جنگ میں یہ عظیم خطہ کھو دیا تو ذرا یہ سوچیں کہ آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں کن کن برے ناموں سے یاد کیا کرینگی؟
صوبائی سطح پر ہر صوبے کی اسمبلی اپنے صوبے کی زبان کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار رکھتی ہے۔مگر مسلہ یہ ہے کہ پاکستان کے تمام صوبے غیر فطری طور پر بہت بڑے ہیں،کوئی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے کئی ممالک سے بڑا ہے ،تو کوئی اتنا رقبہ رکھتا ہے کہ اس میں یورپ کے کئی ملک سما جائیں،پھر ہر صوبے میں ایک سے زیادہ مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں ۔اس طرح سے ہر لسانی گروہ اپنی زبان کا نفاذ چاہے گا جو کہ ہر ایک پاکستانی کا پیدائشی اور بنیادی حق ہے اور کسی ایک اکثریت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسری اقلیت کا حق دبائے۔
اس لئے پاکستان کے تمام صوبوں کو فطری اور انتظامی بنیادوں پر آبادی کے مفاد میں چھوٹا کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ ہمیں اس بارے میں بھی غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ عوام الناس کی بھلائی کس طرح سے کی جا سکتی ہے؟
اورکس طرح سے عوام الناس کو انتظامی محکموں سے متعلق سہولتیں انکے گھر کی دہلیز پر دی جا سکتی ہیں؟ اس وقت تو زیر گفتگو مسلہ مشترکہ قومی زبان کا ہے۔اس میں بھی عوام الناس کی بھلائی ہی پیش نظر رکھی جانی چاہئے۔میرا ذاتی خیال ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس مسلے کو حل نہیں کیا جا سکتا ،کیونکہ آبادی کے لحاظ سے چھوٹے صوبے پھر سے وہی شکایت کریں گے، کہ پنجاب اپنی واحد اکثریت کی بناءپر ہم پر ایک ایسی زبان ٹھونس رہا ہے ،جو کہ اس کی اپنی زبان نہیں ہے۔
ویسے ان کی شکایت بجا بھی ہے ،کیونکہ پنجاب والے بہت سارے معاملات میں حقیقت پسندانہ سوچ نہیں رکھتے۔جیسے کہ باقی صوبوں کے عوام اور خود پنجاب کے جنوبی ڈویژن اپنی زبان اور ثقافت کے بارے میں خا صے حساس ہیں ، جبکہ وسطی پنجاب کے علاقے کے عوام ان سے مختلف سوچ رکھتے ہیں۔اسی لئے انہوں نے اپنی تہذیب اور زبان کی سرپرستی کرنے کی بجائے دوسروں کی تہذیب اور زبان کوگلے سے لگا لیا ہے۔ اردو کی جذباتی سرپرستی اس سوچ کا نتیجہ ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے ،اس عمل کے نتیجے میںپنجابیوں نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی اپنی مادر ی زبانوں کو اتنی بے رحمی سے نظر انداز کیا ہوا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت ساری علاقائی زبانیں مر رہی ہیں۔
اگر میں کہوں کہ اب تو اردو زبان بھی مر رہی ہے تو کیا آپ یقین کریں گے ؟
جی ہاں! اردو زبان دنیا کی ان زبانوں میں سے ایک ہے ، جس کے بولنے والے افراد کی تعداد میں بظاہر تو اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ مگر دنیا کی کل آبادی کے مقابلے میں اردو بولنے والوں کی اوسط کم ہو رہی ہے۔اس کی دو وجوہات ہیں۔
پہلی تو یہ ہے کہ اردو بولنے والے پنجابی متوسط طبقے کے لوگوں نے ایلیٹ کلاس کی نقل میں انگلش لیگویج کی سرپرستی شروع کر دی ہے، دوسری یہ ہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں اور صوبوں سے جو پاکستانی بیرون ملک سیٹل ہو رہے ہیں وہ خود تو بے شک اردو پڑھ لکھ سکتے ہیں،مگر ان کی دوسری نسلیں اردو یا اپنی مادری زبانیں بول تو سکتی ہیں ،مگر پڑھ یا لکھ نہیں سکتیں تیسری نسل یاچوتھی نسل ملی جلی زبانیں بولتی ہیں اور اگر وہ تعلیم یافتہ ہیں تو پھر اپنے بڑوں کی زبانوں سے تقریباً نا آشنا ہی ہیں اگر یہی صورت حال جاری رہی تو ایک دن اردو زبان بھی پنجابی کی طرح سے صرف مشاعروں، ڈراموں اورفلموں کی حد تک ہی محدود ہوجائی گی یا پھریار لوگ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے کبھی کبھاربھانڈوں سے فرمائش کیا کریں گے کہ پیا جی۔ اردو میں کوئی چٹکلہ ہی سنا دو۔
اس وقت جو زبانیں دنیا میں پھیل رہی ہیں ان میں انگلش تو سر فہرست ہی ہے ،مگر ساتھ ہی ساتھ عربی، سپینیش، فرینچ اور مندرین (چین کی مرکزی سرکاری زبان) بولنے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ۔اگر کسی ملک نے ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہنا ہے ،تو اسے اپنی قومی اور سرکاری زبان کے ساتھ ساتھ ا ن زبانوںمیں سے کسی ایک یا دو زبانوں کو اپنانا ہی پڑے گا۔جیسے کہ چین والے انگلش کو اپنا رہے ہیں ۔جبکہ امریکہ میں انگلش کے ساتھ ساتھ سپینیش زبان بھی استعمال ہوتی ہے۔
پاکستان اگر صرف اردو کو ہی سرکاری زبان قرار دے دے، تو ہمیں بین الاقوامی سطح پر رابطے کے لئے اوپر بیان کی گئی، کسی ایک زبان کو لازمی اپنانا ہی پڑے گا اور اگر ہم اب بھی انگلش کی جگہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کی جنگ بدستور جاری رکھیں گے تو اندرون ملک زبانوں کی موجودہ جنگ بھی بدستورجاری ہی رہے گی اورپھر اردو کے ساتھ ساتھ ہمار ی ما دری، علاقائی ،مقامی اور قبائلی بولیاں بھی معدوم ہوتی چلی جائیں گی۔
ایک آپشن اور بھی ہے ۔وہ یہ کہ ہم صرف انگلش زبان کواپنی سرکاری زبان کے طور پر اپنا نے کا فیصلہ کر لیں ؟
بے شک انگلش موجودہ دور کی سب سے موثر بین الاقوامی زبان ہے، مگر اس کا مزاج،تہذیب اورثقافت ایسی ہے کہ ایک مسلم قوم اسے ایک زبان کے طور پر تو سیکھ سکتی ہے مگر قومی یا سرکاری زبان کے طور پر اپنا نہیں سکتی۔کیو نکہ جو بھی ملک اسے اپنا رہے ہیں۔ وہاں کے لوگ غیر شعوری طور پر انگلش اور امریکن ثقافت بھی اپنائے جا رہے۔
دوسرے ممالک کی تو خیر ہے ان کو کوئی بھی فرق نہیں پڑتا ،کیونکہ ان کو تو مادی ترقی سے مطلب ہے۔مگر ہمیں فرق پڑتا ہے۔کیونکہ ہم مسلم ہیں اور ہمارا دین اسلام ہے۔ اگر ہم لوگ ماضی کی طرح سے انگلش کو بدستوراپنائے رکھیں گے توہماری روایات ،تہذیب،ثقافت اوررسم ورواج تباہ وبرباد ہوتے رہیں گے۔
کیا ہم صرف مادی ترقی کی خا طر اپنی روایات ،تہذیب ،ثقافت اور رسم ورواج کو تباہ وبرباد ہوتے دیکھتے رہیں گے ؟
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہم اپنے دین اور اس سے وابستہ اقدار کو خیر آباد کہہ سکتے ہیں؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی قوم،، کسی دوسری قوم کی زبان کو اپنی مرضی سے اپناتی ہے یاپھرکوئی اجنبی زبان اس پر زبردستی مسلط کر دی جاتی ہے تو وہ قوم اس اجنبی زبان سے وابستہ بہت ساری روایات اور اصطلاحات کوغیر شعوری طور پر اپنا ہی لیا کرتی ہے۔جو کہ اس کے اپنے مزاج اور مذاق سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں۔جیسے کہ ہندی زبان میں سلام،عید اور طلاق کے خالص اسلامی الفاظ کو ہندو اپنی روز مرّہ کی زبان میں استعمال کرتے ہیں حالانکہ یہ خالص عربی زبان کے الفاظ ہیں، ان کا نہ توہندو تہذیب روایات اور مذہب سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی عربوں کی آمد سے قبل ان الفاظ کا سنسکرت زبان میں کوئی وجودتھا۔
بلکہ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ الفاظ ہندومذہب کی تعلیمات کی ضد اور الٹ ہیں،مگر پھر بھی کثیر ہندو آبادی اسے استعمال کرنے پر مجبور ہے۔کیونکہ یہ الفاظ ہندی میں فارسی سے آئے ہیں ،جو کہ مسلم حکمرانوں کے دور حکومت میں ہند کی سرکاری زبان تھی۔اب آپ خود ہی سوچیں کہ اگر عربی زبان ہند کی سرکاری زبان ہوتی تو ہندی میں کتنے فیصد سنسکرت باقی رہ جانی تھی؟
اسی ڈر سے تو جواہر لال نہرو نے ہندی کے لئے سنسکرت رسم الخط اپنانے کا فیصلہ کیا تھا کہ رہی سہی ہندی ہی بچا لی جائے ۔ یاد رہے کہ وہ بھارت کا پہلا وزیر اعظم تھا۔
بہت ساری خوبیوں کے علاوہ عر بی زبان میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ہماری دینی زبان بھی ہے ۔ہماری مقدس کتاب قرآن مجید اسی زبان میں نازل ہوئی ہے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کی احادیث بھی اسی زبان میں ہیں ۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان میں بولی جانے والی ساری کی ساری زبانیں اور بولیاں عربی زبان سے ہی نکلی ہیں اور صرف عربی ہی ان کی حفاظت کر سکتی ہے اور ان کو پروان بھی چڑھا سکتی ہے۔
تو کیوں نہ ہم عربی کو بطور سرکاری زبان اپنا لیں ؟؟؟
کیونکہ ہمارا بد ترین دشمن عربی زبان سے بری طرح سے گھبراتا ہے ۔سوچیں کہ اگر یہ زبان اس کی سرحد تک آگئی تو ڈر کے مارے اس کا کیا حال ہوگا؟؟؟
خادم الاسلام والمسلمین ڈاکٹر عصمت حیات علوی 30 جون 2009ء
اسی عنوان یا لکھاری سے مزید
ڈاکٹر عصمت حیات علوی
Friday, April 9, 2010
تیاری اور تحفّظ - - - - - - ابن الملک
سچی کہانیوں کا انوکھا سلسلہ
ایک دوراندیش مسلم مردکی سچی کہانی
جو افراد اور قومیں اپنے دفاع اور حفاظت سے غافل رہتی ہیں ،وہ جلد یا بدیر فنا ہو جاتی ہیں ۔
جملہ حقوق بحق ایکسیس ٹو کئیر پاکستان ۔امریکہ۔ چین۔ محفوظ ہیں۔ اس کہانی کا کوئی بھی حصہ یا کل یا جز نہ تو کسی الیکٹرانی۔ ریڈیائی یا کسی اور ذریعے سے نقل کرنا۔ محفوظ کرنا ۔ اس کہانی کے اصل متن کو بدلنا ۔ ترجمہ کرنا ۔ یا نام مقام تبدیل کرکے شائع کرنا منع ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للّٰہِ رب العالمین
٭بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم٭
تیاری اور تحفّظ
تحقیق و تحریر: ابن المک
چودہ اگست کادن پاکستانی قوم کے لیے تجدیدِعہد اور خوشی ومسرت کا دن ہوتا ہے۔ اس دن ہرسال ، پاکستانی قوم اللہ مالک سے کیا گیا اپنا وہ وعدہ یاد کرتی ہے جو کہ ہمارے اب وجد اور بزرگوں نے اپنے مالک و خالق اللہ رب السمٰوٰت والارض سے کیا تھا۔کہ اگر ہمیں اس زمین میں ایک خطہءارض مل گیا تو ہم اس خطہءارض پر تیرا دیا ہوا نظام یعنی کہ دینِ اسلام نافذ کریں گے۔
جب پاکستان کے نام کے خالق چوہدری محمد علی ؒ نے اس نام کے بارے میں سوچا اور غوروفکر کیا ہوگا توانہوں نے یہی خیال کیا ہو گا کہ جب دوچار نسلوں کے بعد،طویل اوران تھک جدوجہد کے اختتام پر میرے ہم قوم ہندوستان کے مسلم ،برصغیر میں ایک آزادخطہ حاصل کریں گے ۔تو اس وقت تک میں ناجانے کتنی مٹی تلے دفن ہوچکا ہوں گا؟
کچھ ایسا ہی خیال تحریکِ پاکستان چلانے والی نسل کے ذہن میں بھی تھا کہ شائد ہماری آئندہ نسلیں ہی پاکستان کو آزاد ہوتا دیکھ سکیں گی۔
جب کہ مسلم قوم کے دشمن بھی یہی خیال کرتے تھے کہ پاکستان ایک ناممکن العمل خیال ہے اور اس دنیا میں ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک ہزاروں برس قدیم ملک کسی مذہبی نظریئے کی بنیاد پر دو یا تین حصّوں میں بٹ جائے۔
مگر غیر متوقع طور پراللہ کریم کی رحمت جوش میں آگئی تھی۔ اپنوں کے اندازے غلط ثابت ہو گئے تھے اور دشمنوں کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔ایک معجزہ رونماءہو گیا تھا اللہ قادرِمطلق نے انڈین مسلم نیشن کو پاکستان بطورِ انعام دے دیا تھا جو نسل اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک آزاد وطن کے حصول کی جدوجہد کر رہی تھی۔اسی نسل کو ہی یہ موقع دے دیا تھا کہ وہ خود ہی لااِلہ الا للّٰہ کے اصولوں کی بنیاد پراپنے نئے گھر کی تعمیر کرکے اللہ مالک و خالق سے کیا گیا اپنا وعدہ خود ہی نبھائے ۔
پاکستان کی جدوجہد اور حصول کی داستان سرسیّد احمد خانؒ سے شروع ہوتی ہے اور اس طویل اور ان تھک جدو جہد کا اختتام قائدِاعظم محمد علی جناح ؒپر آ کر ہوتا ہے ۔ پاکستان کے قیام کے بعدپاکستان کی جدوجہد کی داستان کا مکمل احاطہ کرنے کے لیے اتنی کتب لکھی جانی چاہیئں تھیں کہ تحریکِ حصول ِ پاکستان پر لکھی گئی کتابوں کو رکھنے کے لئے سینکڑوںایکڑوں رقبے پر پھیلی ہوئی کئی کئی منزلہ لائبریریوں کی لاکھوں الماریاں بھی ان کتابوں کے لیے نا کافی ثابت ہوتیں۔
افسوس کا مقام تویہ ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم اس کے بالکل ہی برعکس کیا ہے ۔ ہم پاکستانیوں نے اپنی جدوجہد کی تاریخ یاد رکھنے اور لکھنے کی بجائے یکسر فراموش کر دی ہے۔
قوموں کی تاریخ میں یہ المیہ بھی ہمارے ساتھ ہی ہو نا تھا۔ سو ہو گیا ! ہم پاکستانیوں نے اپنی
جدوجہدِ آزادی کی تاریخ لکھنے کا حق اد ا ہی نہیں کیا ہے۔اس مجرمانہ غفلت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہماری قوم کی نئی نسل کو اپنی تاریخ سے آگاہی حاصل ہی نہیں ہے۔ اس قومی المیے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے ،،اتنا ہی کم ہے۔
جنابِ سرسید احمد خانؒ پہلے مسلم لیڈر تھے، جنہوں نے ہمیں یہ شعور دیا تھا کہ ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں ۔اگر اس حقیقت کو نظر انداز کر کے ہندوستان میں ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر برطانوی یا مغر بی جمہوریت کو نافذ کیا گیا تو برطانوی یا مغربی جمہوریت کے نفاذ کی صورت میں مسلم قوم اپنے ووٹوں کی عددی کمی کی بناءپر ہمیشہ کے لیے اقتدار سے باہر ہو جائی گی اور ہمیشہ کے لیے محرومیوں کا شکار رہے گی۔
سرسید احمد خانؒ نے فرمایا تھا کہ اس مسلے کا حل یہی ہے کہ ہندوستان میں ہمیں مسلم آبادی کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں نمائندگی اور سرکاری ملازمتیں ملنی چاہیئں ۔اس خیال یا نظریے کو دو قومی نظریہ کہتے ہیں۔ یوں سر سید احمد خانؒ دور جدید کے پہلے مسلم راہنما ءہیں جنہوں نے دو قومی نظریے کی تجدید کی تھی ۔ انہوں نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ اگر برصغیر(ہندوستان) کے مسلم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو وہ جدید اور انگریزی تعلیم حاصل کریں اور انگلش حکومت کے ساتھ تعاون کرکے ترقی کا کوئی بھی موقع ضائع نہ کریں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ہمیں سرسیّد احمدخانؒ جیسے بیدار مغز ،دور اندیش ،بے لوث اور مخلص راہنما نہ ملتے ۔ تو انڈیا کے تمام کے تمام مسلم ، آج ( برٹش قوم کے جگہ پر ) ہندو قوم کے غلام ہوتے اور پاکستان کبھی بھی معرضِ وجود میں نہ آتا۔
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرسیّد احمد خان ؒ جیسے عظیم لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور یہ اللّٰہ قادرِ مطلق کی بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں۔ہمیں اس نعمت پر رب کریم کا ہمیشہ شکر ادا کرنا چاہیے۔
ہ الحمدللّٰہ ِ الرب العالمین ہ
پاکستان بنانے کی جدوجہد میں ہر سلیم القلب مسلم نے اپنی اپنی استطاعت اور مکمل اخلاص کے ساتھ کوشش کی تھی۔اسی لیے جب چودہ اگست انیس سو سنتالیس (14۔اگست ۔1947) کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا تو ہر مسلم و مومن خوش تھا کہ ہمیں ہماری منزلِ مراد مل گئی ہے۔ملک معراج الدین کھوکھر کے گھر تو دہری خوشی تھی،کیونکہ اسی صبح بخیر کو تہجد اور فجر کے درمیانی وقت میں ایک بچی پیدا ہوئی تھی جو کہ معراج الدین کی شادی کے دس برس کے بعد بہت سی دعاؤں اور التجاؤں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔
اسلام کے شیدائی اور مجاہد قلب اس شخص نے اپنی بیٹی کا نام مسرتِ تشکیلِ پاکستان رکھا تھا ۔
ملک معراج ا لدین کو قیام پاکستان کے ساتھ ہی پہلی اولاد کی ولادت پر اتنی خوشی اور مسرت ہوئی تھی کہ وہ اپنی بچی کے پیدائش کے اندراج کے لیے متعلقہ دفتر کے کھلنے سے قبل ہی اس دفترکے دروازے پر جا کھڑا ہوا تھا۔اس دفتر کا کلرک بھی ایک مسلم ہی تھا۔ کلرک نے جب نومولود بچی کا نام سنا تھا تو وہ خوشی جوش اور عقیدت کے عالم میں اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا اور پھر جوش وعقیدت کے عالم میں ملک معراج الدین کھوکھر کو سلیوٹ کیا تھا۔
ان کی بیوی ،اپنے خاوند ملک معراج الدین کا نام بڑی عقیدت اور محبت سے لیا کرتی ہیں۔ بلکہ ان کا نام لیتے ہوئے ان کا لہجہ حلاوت اور شیرینی سے بھر جاتا ہے۔کیونکہ ملک معراج الدین مرحوم نہ صرف ان کے بلکہ اپنے پورے گھرانے کے ہیرو ہیں۔میں بھی ان کو ہیرو ہی مانتا ہوں اس لیے ان کی بہادری کی داستانیں سننے کے لیے ان کے گھر جا یا کرتا تھا اور ان کی بیوی سے ملک صاحب مرحوم کی بہادری کے قصے سنا کرتا تھا۔
اماں جان مجھے اپنے ساتھ ہی اپنی چارپائی پر بٹھا لیا کرتی تھیں ۔ جی ہاں! ملک صاحب مرحوم کی بیوی کو ان کے سبھی بچوں کی طرح سے ،میں بھی اماں جان ہی کہتا ہوں۔
وہ مجھے بتایا کرتی ہیں کہ ریڈکلف ایوارڈ کے تحت جو حد بندی ہوئی تھی ۔اس کے تحت ہمارا ضلع گرداسپور پاکستان میں شامل ہو گیا تھا اور اس دن گرمی کے باوجود ملک صاحب اپنی ذاتی سائیکل پر بیٹھ کر شہر گئے تھے اور ضلعی ہیڈ کوارٹر کی عمارت پر پاکستان کا ہلالی پرچم لہراتا ہوا دیکھ کر آئے تھے اور بہت خوش بھی تھے۔اسی خوشی کے عالم میں انہوں نے یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ کل صبح کو وہ اپنی ڈیوٹی پردوبارہ سے حاضر ہو جائیں گے مگر جب صبح کو ڈیوٹی پر جانے کے چند گھنٹے کے بعد ہی وہ گھر واپس آگئے تھے تو مجھے ان کی اچانک اور غیر متوقع واپسی پر بڑی حیر انگی ہوئی تھی۔
ابھی میں ان کی اچانک اور غیر متوقع واپسی پر حیران ہو ہی رہی تھی کہ انہوں نے گھر کے کسی کونے کھدرے میں چھپائی ہوئی اپنی بندوق اور گن دونوں ہی نکال لی تھی اور ان کو صاف کرنے لگے تھے اور ساتھ ہی سبھی گھر والوں کو بتانے لگے تھے کہ اب اس اسلحہ کے استعمال کا موقعہ آگیا ہے۔میں ان کی بات سن کر حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہوچکی تھی۔
اپنے اسلحہ کو تیاری کی حالت میں لانے کے بعد ملک صاحب فرمانے لگے تھے ۔دیکھو میں نہ کہتا تھا کہ کافر پر کبھی بھی اعتماد نہ کرنا کیونکہ کافر ہمیشہ ہی ہمیں دھوکے میں رکھتا ہے اور جب ہم اپنے دفاع سے غافل ہو جاتے ہیں تو وہ ہمیں دھوکے میں رکھ کرمارڈالتا ہے۔اسی لیے تو میں نے انگریزوں کا حکم نہیں مانا تھا اور دوسرے مسلمانوں کی طرح سے اپنا اسلحہ حکومت کے پاس جمع نہیں کروایا تھا۔
میں ان کی یہ بات سن کر اور بھی الجھ گئی تھی۔ ملک صاحب نے ہمیں بتایا تھا کہ انگریزوں نے ہندووں کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف گہری سازش چلی ہے انہوں نے مسلم قوم سے کئے گئے معاہدے سے بد عہدی کی ہے اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلم اکثریت کا ضلع گرداسپور ہندوستان کو دے دیا ہے ،اسی لیے اس وقت ضلعی ہیڈکورٹر کی عمارت پر پاکستان کے پرچم کی جگہ بھارت کا ترنگا لہرا رہا ہے۔
اماں جان کہنے لگی تھیں ۔ملک صاحب آدھے ولی اللہ تھے۔ ان کے اکثر اندازے درست ہی ہوا کرتے تھے۔جب قیام پاکستان کے وقت کا تعیین ہو گیا تھا۔ تب انگریزوں نے حکم دیا تھا کہ سبھی لوگ اپنا لائسنسی اسلحہ حکومت کے پاس جمع کروا دیں ۔ملک صاحب نے جب ہند حکومت کا یہ اعلان سنا تھا تو ملک صاحب اسی وقت فرمانے لگے تھے ۔ یہ حکم صرف مسلما نوں پر ہی لاگو ہو گا۔
مسلمانوں سے سارا اسلحہ واپس لے لیا جائے گا۔ مگر ہندوؤں اور سکھوں سے اسلحہ کبھی بھی نہیں لیا جائے گا ، تاکہ ہمیں نہتا کرکے مارا جاسکے۔ وہ تو اسی وقت کہنے لگے تھے یہ تو صاف صاف خودکشی ہے کہ ہم اپنا رہا سہا اسلحہ بھی اپنے دشمنوں کے حوالے کر دیں۔ ملک صاحب نے اپنا لائسنسی اسلحہ حکومت کے پاس جمع کروانے کی بجائے اپنی ملازمت پر ہی جانا چھوڑ دیا تھا ۔
کچھ غلامانہ ذہن رکھنے والے مسلمانوں نے نہ صرف خود حکومت سے تعاون کیا تھا بلکہ انہوں نے تو ملک صاحب کو بھی تنبیہ کی تھی کہ حکومتِ ہند اپنے حکم کی خلاف ورزی پر تمہاری نوکری ختم کر سکتی ہے تو ملک صاحب نے انہیں یہ جواب دیا تھا اب جب کہ پاکستان کے قیام کا اعلان ہو چکا ہے ۔اس لئے میں خود کو پاکستان کی سرکار کا نوکر سمجھتا ہوں لہٰذا مجھے حکومتِ ہند کے احکامات کی ذرّہ برابر بھی پرواہ نہیں ہے۔
پھر کچھ دن کے بعد ملک صاحب کچھ عرصہ کے لیے روپوش ہوگئے تھے ،مگر ہمارے حال سے وہ کبھی بھی غافل نہ رہے تھے۔یہ بات کہہ کر اماں جان مسکرانے لگی تھیںپھر انہوں نے بڑی ہی محبت بھری نظروں سے اپنی سب سے بڑی بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے مجھے یوں بتایا تھا
ملک صاحب بہت بہادر، دلیر،جری اور طاقت ور تھے اور ان کا قد کاٹھ ؟ یوں سمجھو کہ یہ میری مسرت ان کی چلتی پھرتی تصویر ہے۔
اماں جان نے اپنی انگلی سے اپنی پہلوٹھی کی بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا اوریہ کہتے کہتے اماں جان کی آنکھوں میں بے پناہ محبت اور عقیدت بھی اتر آئی تھی۔
اسی کی طرح کا مضبوط بدن ،بس یہی رنگ ،یہی روپ ، یہی ناک ، یہی نقش ، یہی حسن ، یہی کشش ، یہی قد ،یہی کاٹھ اور یہی چال ڈھال ۔اماں جان اپنی بیٹی کو محبت بھری نظروں سے دیکھے جا رہی تھیں اور اپنے شہید خاوند کی چلتی پھرتی تصویر مجھے دکھائے جا رہی تھیں ۔
اپنے شہید خاوند کے جسمانی خدو خال بیان کرنے کے بعد اماں جان اپنے شہید خاوند کی طاقت اور قوت کے متعلق بتانے لگی تھیں ۔وہ کہنے لگیںملک صاحب اتنے طاقت ور تھے کہ دو یا تین مضبوط اور طاقتور آدمیوں پر بھاری ہی پڑتے تھے۔ان کو پہلوانی کا شوق جنون کی حد تک تھا نوجوانی میں وہ اپنے سکول کی ہاکی ٹیم کے بہترین پلیئر تھے ۔ساتھ ہی ساتھ اپنے گاؤں کے جانے پہچانے کبڈی کے کھلاڑی بھی تھے ۔
پورے کا پورا گاؤں ان کی طاقت پر مان کیا کرتا تھا ۔ وہ جتنے طاقت ور تھے اتنے ہی ذہین بھی تھے۔ ساتھ ہی ساتھ خوش باش ،زندہ دل اور خوش اخلاق تھے۔ ملک صاحب کی سبھی خوبیاں میری اس بیٹی میں یکجا ہیں ۔ شائد اس لیے کہ مسرت کی تعلیم وتربیت انہی کی زیر نگرانی ہوئی تھی۔ یہ کہتے ہوئے گویا اماں جان تو اپنی پہلوٹھی کی اولاد مسرتِ تشکیلِ پاکستان پر فدا ہوئے جا رہی تھیں۔
جس وقت اماں جان مجھے یہ سب کچھ بتارہی تھیں تو اس وقت میں اس یہ سوچے جا رہا تھا کہ اگر اماں جان اپنے شہید شوہر کی تصویر سے اتنی شدید قسم کی محبت اور گہری عقیدت رکھتی ہیں تو اصل شخصیت یعنی کہ ملک معراج الدین مرحوم سے کتنی محبت اور عقیدت رکھتی ہوں گی ؟؟؟ اس سوچ کے بعد میرے دل میں یہ سوچ بھی آئی تھی کہ وہ حقیقت میں کیسے ہوں گے؟
پھر اماں جان مجھے اسی دور میں لے گئی تھیں ۔جب ان کے شوہر خوبرو بھی تھے اور طاقتور بھی وہ کہنے لگیں۔ جب ہندوؤں اور سکھوں کو علم ہوا تھا کہ ضلع گورداسپور کو ہندوستان میں شامل کر دیا گیا ہے تو جن سنگھی اور اکالی مسلمانوں پر راتوں میں چھپ چھپا کر حملے کرنے لگے تھے۔
پھر جب مسلمانوں کی طرف سے کوئی جوابی کاروائی نہ ہوئی تھی۔ توکچھ دنوں کے بعد انہوں نے مسلمانوں کے گھروں پر دن دیہاڑے حملے شروع کر دئیے تھے پھر نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ انتظامیہ اور پولیس بھی کھلم کھلا انہی بلوائیوں، قاتلوں اورفسادیوں کا ساتھ دے رہی تھی۔ مسلمان کی بستیوں اور آبادیوں میں شدید قسم کاخوف وہراس پیدا ہو گیا تھا ۔
وہی لوگ جو کل تک ملک صاحب کی تیاریوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور ان کی باتوں پر یقین نہ کرتے تھے۔ اس ان دیکھے خطرے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگے تھے جس اندیکھے خطرے کے متعلق ملک صاحب مہینوں قبل ہی ہر وقت فکر مند رہا کرتے تھے۔ پھر لوگ باگ افراتفری کے عالم میں پاکستان کی طرف ہجرت کرنے لگے تھے اس وقت بھی ملک صاحب نے ان کو سمجھایا تھا کہ اگر کوچ کرنا ہی ہے تو منصوبہ بندی کرکے کسی طریقے اور سلیقے سے کوچ کرو۔ مگر کسی نے بھی ان کی نہیں سنی تھی۔
یہ کہتے ہوئے اماں جان نے ٹھنڈی سانس لی تھی۔
ملک صاحب کہا کرتے تھے کہ دیکھو یہ اس نبیﷺ کی امت کا حال ہے جنہوں نے مکة المکرمہ سے ہجرت کامکمل انتظام مہینوں قبل ہی مکمل کررکھا تھا۔ اس بد قسمت امت نے اپنے نبیﷺ کی سنت سے کچھ بھی نہیں سیکھا ہے ۔ ان دنوں ملک صاحب یہی کہتے ہوتے تھے۔ اگر ہم نے اس ہادی برحق ﷺ کی مبارک زندگی کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کیا ہوتا کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے قیامت آنے کے وقت تک کے حالات کے لئے رہنمائی کے اصول و ضوابط ملیں گے تو آج یہ لوگ افرتفری کے عالم میں اس طرح سے خوف زدہ ہو کر بھاگ نہ رہے ہوتے۔
اتنا کہہ کر اماں جان مزید یوں فرمانے لگی تھیں۔بیٹا ! ملک صاحب بہت دور کی سوچا کرتے تھے۔اس لیے وہ ایسے خطرات کے بارے میں بھی اپنی تیاریاں مکمل کرکے رکھا کرتے تھے ،جن خطرات کو عام لوگ باگ واہمے سمجھا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے ذہن میں اس اصول کو جگہ دے رکھی تھی کہ دشمن پر کبھی بھی اعتماد نہ کرو ۔ جب عام مسلمان مطمئن اور خوش تھے۔اس وقت ملک صاحب خوش تو ضرور تھے مگروہ مطمئن بالکل ہی نہ تھے ۔
اسی بے اطمینانی اور فکر مندی کی کیفیت میں انہوں نے نہ تو اپنا اسلحہ حکومت کے پاس جمع کروایا تھا اور نہ ہی سکون سے گھر پر بیٹھے رہے تھے۔بلکہ انہوں نے اپنی حفاظت کی مکمل تیاری کر لی تھی۔صرف میں اور میری والدہ یہ جانتی تھیں کہ ملک صاحب نے ڈیڑھ سینکڑہ ایل جی کے کارتوس جمع کر لئے تھے اور اتنی ہی تھری ناٹ تھری کی گولیاں بھی۔
دراصل ملک صاحب ہر چیز کو اور ہر مسلے کو ایسے زاویے سے دیکھا کرتے تھے ۔ جس زاویئے یا نقطئہ نظر سے عام لوگ باگ نہیں دیکھا کرتے تھے۔اماں جان نے اپنا داہنا ہاتھ بڑے ہی پیار سے میرے لمبے لمبے بالوں میں پھیرتے ہوئے مجھے بتایا تھا۔
عام لوگ تو اس دوران افراتفری کے عالم میں روانہ ہوئے تھے ۔جب کہ ہم لوگ اپنی تیاری مکمل کرنے کے بعداور اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعائیں مانگنے کے بعد،اپنے گاؤں سے باہر نکلے تھے۔جب ہم لوگوں نے اپنے آبائی گاؤں سے کوچ کیا تھا تو ہمارے قافلے میںکل ملا کر ایک سو سنتالیس نفوس تھے۔ سو سے زائد تو جوان عورتیں، لڑکیاں اور بچے تھے، شیر خوار بھی تھے اور نونہال بھی تھے۔
باقی بوڑھے مرد اور عورتیں تھیںاورجوان مر دتو صرف چارہی تھے اور ان چارمیں سے صرف ملک صاحب ہی ہتھیار استعمال کرنا جانتے تھے۔یہ تھی صورت حال ! جب ہم لوگوںنے اپنا گاؤں چھوڑا تھا۔ اماں جان نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا تھا۔
اماں جان کہنے لگیں ۔ ملک صاحب نے گاؤں سے کوچ کرنے سے قبل سبھی سے کہا تھا کہ ہمارے بنیﷺ پر کتاب اور حکمت اتری ہے اور اس کڑے وقت میں حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ تما م عورتیں اپنا پردہ ترک کرکے مردوں کا سا حلیہ اختیار کرلیں اور اس بات کو اچھی طرح سے اپنے ذہنوں میں بٹھا لیں کہ جن گوروں کی مملکت کی حفاظت کی خاطر ان کے جوان بیٹے یا شوہر ہزاروں میل دور گئے ہوئے ہیں ،وہ گورے ہماری مدد کو قطعاً نہیں آئیں گے ،،بلکہ ہم لوگوں نے اپنی حفاظت کا انتظام اور بندوبست خود ہی کرنا ہے۔
اماں جان کہنے لگیں ۔بیٹا تمہیں کیا بتاؤں کہ ان دنوں مسلمانوں کی بستیوں اور آبادیوں میں کیسا خوف وہراس تھا ؟ آج کل کی نسل کواگر بتائیں ، اوّل تو سنتی ہی نہیں ہے اور اگر سنتی بھی ہے تو یقین ہی نہیں کرتی ہے کہ ہم مسلمان اس دور میں کس طرح سے آگ اور خون کے دریا سے گذر کر آئے ہیں ؟
بیٹا کس کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے ان گھروں کو چھوڑے جہاں پر بچپن اور لڑکپن گذارا ہے ۔ جہاں پر اس کے بڑوں اور بزرگوں کی قبریں ہیں ،شادی بیاہ اور مرگ کی یادیں ہیں۔بچوں کی پیدائش کی خوشیاں ہیں اور ان کو ننھے ننھے قدموں کی چاپیں ہیں ۔ قدم قدم پر یادوں کی نشانیاں ہیں اور ہر در و دیوار سے لپٹی ہوئی، ماضی کی وابستگیاں ہیں۔
بیٹا کس کا دل چاہتا ہے ؟بیٹا کس کا دل چاہتا ہے ؟بیٹا کس کا دل چاہتا ہے ؟ اماں جان بظاہر تو مجھے پوچھ رہی تھیں مگر حقیقت میں وہ خود کلامی کر رہی تھیں ۔
پھر انہوں نے کہا تھا۔بیٹا ہم اپنے گھروں کو کبھی بھی نہ چھوڑتے ۔ اگر ہندو اور سکھ ہمیں امن اور چین سے وہاں پر رہنے دیتے۔مگر وہ تو ہمارے خون کے پیاسے ہو گئے تھے اور ہماری عزتوں کے لٹیرے بن گئے تھے۔حالات تو اس قدر بگڑ گئے تھے کہ پڑوسی ہی پڑوسی کی جان مال اور عزت کا دشمن بن گیا تھا۔ ہم تو اس لحاظ سے خوش نصیب تھے کہ ہمارا سارے کا سارا گاؤں مسلم آبادی تھا۔مگر جہاں پر آبادی ملی جلی تھی وہا ںپر تو پاس پڑوس والے ہندوؤں اور سکھوں نے نہ صرف اپنے مسلمان ہمسایوں کو قتل کیا تھا بلکہ ان کی املاک کو بھی لوٹ لیا تھا اور ساتھ ہی مسلمانوں کی جائداد وں پر قبضہ کر لیا تھا ۔
اماں جان نے بڑی لمبی اور ٹھنڈی سانس لی تھی اور کہا تھا ان ظالموں اور خونی درندوں نے مسلمانوں پر ہر قسم کا ظلم روا رکھا تھا ۔ان بے ایمان کافروں نے برسوں اور نسلوں تک ہمسایہ میں رہنے والے مسلمانوں کا نہ صرف بڑی ہی بے دردی سے قتل عام کیا تھا اور بلکہ ساتھ ہی ان کی عزتوں کو بھی لوٹا تھا اور کئی ایک نے توزندہ انسانوں کو ان کے اپنے ہی گھروں میں بند کرکے آگ کی نذرکر دیا تھا۔
ایسے پر آشوب حالات میں ملک صاحب نے اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا تھا اگر حالات کچھ بہتر ہوتے تو ہم لوگ کبھی بھی اپنے آبائی گھروں کو یوں بھرا پرا نہ چھوڑتے اور اپنے آباء و اجداد کی قبروں کو کبھی بھی خیر آباد نہ کہتے۔ یہ کہہ کر اماں جان کہنے لگی تھیں۔بیٹا کس انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر دربدر بھٹکتا پھرے ؟ اور بھیک منگوں کی طرح سے دوسروں کے آگے دستِ سوال بھی دراز کرتا پھرے؟
بتاؤ بیٹا ۔ وہ شخص جو صرف ایک دن قبل ہی خوشحال اور تونگر تھا اور اپنے ہاتھوں سے خیر خیرات کیا کرتا تھا ،اسی شخص کو اگلے روز ہی اپنا خیرات کرنے والا ہا تھ ،خیرات وصول کرنے کے لیے پھیلا نا پڑے تو اس کے دل پر کیا گذرتی ہے ؟ اتنا کہتے کہتے اماں جان کی آنکھوں سے بے اختیار ہو کر آنسو بہہ نکلے تھے ساتھ ہی میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے تھے اور ہمارے پاس بیٹھے ہوئے سبھی کی آنکھیں بھی پر نم ہو چکی تھیں۔
کچھ دیر تک تو اماں جان خاموش بیٹھی رہی تھیں ۔جب انہوں نے اپنے جذبات پر قابو پا لیا تھا اور آنسوؤں کو بھی روک لیا تھا تو انہوں نے اپنے لہجے کو مضبوط بناتے ہوئے کہا تھا ۔
جب روانگی سے قبل ملک صاحب نے کہا تھا کہ ہمارے قافلے کی تمام عورتیں صرف عارضی طور پر اور اس ابتلاءکے خاتمے تک ،اپنا پردہ ترک کرکے مردوں والا حلیہ اختیار کر لیں۔ اگر اس وقت چند بڑے اور بزرگ ملک صاحب کی بات مان لیتے تو سبھی لوگوں نے بحفاظت پاکستان پہنچ جانا تھا مگر ہمارے گاؤں کے کچھ بڑوں اور بزرگوں نے ان کی اس تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انگریزی سکولوں کا پڑھا لکھا لڑکا ہماری عورتوں کو بے پردہ کرنا چاہتا ہے۔
اس لیے بہت سارے افراد ہمارے قافلے سے علیحدٰہ ہو گئے تھے پھر راستے میں ہی ان اختلاف کرنے والوںکے سبھی جوان اور بوڑھے مرد مارے گئے تھے اس قافلے کی سبھی جوان عورتوں کو سکھ اٹھا کر لے گئے تھے بوڑھی عورتوں اور بچوں کو سکھوں اور ہندوؤں نے کھیتوں کے اندر پکی ہوئی فصل کی طرح سے کاٹ کر رکھ دیا تھا۔ اتناکہہ کر اماں جان زار و قطار رونے لگی تھیں۔
وہ کیوں کر نہ روتیں؟ سبھی مرنے والے ان کے رشتہ دار، عزیزواقارب اور خاندان والے تھے۔ان کے قبیلے والے تھے اور ان کے ہم نسل اور ہم مذہب لوگ تھے۔ان میں سے تو کئی ایک بہت ہی قریبی تعلق والے تھے اور سارے کے سارے دور و نزدیک کے رشتے والے تھے۔ ان کی خالائیں تھیں۔ ان کی سہیلیاں اور ہم جولیاں تھیں۔ان کی تائی اور چچیاں تھیں رشتہ میں ان کی بھتیجیاں اور بھانجیاں تھیں۔ پھوپھیاں اور دادیاں تھیں۔
تائے اور چاچے تھے۔ خالو اور مامے تھے۔ کئی ایک پھوپھا بھی تھے۔چند ایک رشتے میں نانے تھے تو کچھ دادے تھے۔سبھی رشتے تھے ۔سبھی ناتے تھے اور سبھی تعلق تھے ۔اماں جان کے زیادہ تررشتہ دار تو قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کے دوران ہی شہید ہوگئے تھے ۔اس لیے ہر سال چودہ اگست کے دن ،ان سبھی شہیدوں کی یاد ان کے دل میں ایسے ہی تازہ ہو جاتی ہے جیسے یہ کل کی بات ہے ۔اس روز بھی چودہ اگست ہی تھی ۔جب اماں جان یہ قصہ میرے سے بیان کر رہی تھیں۔
اس مرتبہ اماں جان کی خاموشی کچھ زیادہ ہی طویل رہی تھی ۔وہ کافی دیر تک سسکیاں لیتی رہی تھیں۔ہم سبھی اس وقت خاموش اور اداس بیٹھے ہو ئے تھے اور ہمیں اس وقت یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ سبھی پیارے ابھی کچھ دیر پہلے ہی ہم سے جدا ہوئے ہیں ۔
کافی دیر کے بعد جا کر اماں جان کے آنسو تھمے تھے تو وہ یوں گویا ہوئی تھیںملک صاحب نے اپنے باپ اور دادا کی طرح داڑھی تو نہیں رکھی ہوئی تھی البتہ وہ پنج وقتہ نمازی تھے اور ہر صبح کو تلاوت کرنا ان کا معمول تھا۔بلکہ ان کو قرآن کی بہت سارے سورتیں حفظ تھیں ۔ مغرب کے بعد ملک صاحب ہمیشہ ترجمے والا قرآن پڑھا کرتے تھے چونکہ ان کے پاس ڈھیر ساری دینی کتابیں تھیں اس لئے عشا کے بعد دینی کتب کا مطالعہ کیا کرتے تھے ۔
اس کے علاوہ ان کو حضرت علامہ اقبال صاحب کی تقریباً ساری کی ساری اہم اور مشہور نظمیں زبانی ہی یاد تھیں ،اس لیے رات کوسونے سے پہلے جب وہ اپنے بستر پر آتے تھے تو لیٹنے سے قبل بلند آواز میں ان نظموں میں سے کوئی ایک نظم جھوم جھوم کر گایا کرتے تھے۔ اپنے مرحوم شوہر کا ذکر کرتے کرتے اماں جان کی آواز میں عجیب قسم کی حلاوت سی آگئی تھی۔
اماں جان ایک مرتبہ پھر ہمیں انیس سو سنتالیس کے دور میں واپس لے گئی تھیں۔اب وہ کہہ رہی تھیں ملک صاحب کو دینی مسائل بھی یاد تھے کیونکہ وہ مشہور عالموں کی کتابیں بھی بڑے ہی شوق اور ذوق سے پڑھا کرتے تھے۔ ان کو ہمارے گاؤں کی مسجد کے پیش امام سے کہیں زیادہ آیات، حدیثیں، اصحاب رسل کے قصص اور مسلے مسائل زبانی یاد تھے۔ ان جیسا متقی اور پرہیزگار جوان ہمارے پورے گاؤں میں ایک بھی نہ تھا۔اماں جان نے یہ بات بڑے ہی فخر سے کہی تھی اور پھر کہا تھا۔
ملک صاحب نے کہا تھا کہ اگر ابتلاء اور مصیبت کے دور میں شریعت کے احکامات پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو اس وقت ہمیں حالات کی نوعیت اور نزاکت کے تحت، عقل ودانش سے کا م لینا چاہیے اور اسی کو حکمت کہتے ہیں اور اس وقت حکمت کا تقاضہ تو یہی ہے کہ ہم اپنے عیار اور مکار دشمن کو دھوکے میں رکھیں۔ اگر ہم اپنے چالاک اور ہوشیار دشمن کو دھوکے میں نہیں رکھیں گے تو ہمارا عیار اور مکار دشمن ہمیں دھوکے اور فریب سے مار ڈالے گا۔
جب ملک صاحب یہ بات کہہ رہے تھے تب میرا دل یہ کہہ رہا تھا کہ تیراشوہر صحیح کہہ رہا ہے۔ اس لیے میں نے اور میری والدہ صاحِبہ نے اپنے گاؤں کی سبھی عورتوں سے کہا تھا کہ وہ ملک صاحب کی بات مان لیں اور اپنے حلیے بدل لیں ۔
ملک صاحب نے بچوں اور کمزوروں کو درمیان میں رکھا تھا اور پھر بچوں اور کمزوروں کے گرد جوان عورتوں کا ایک حلقہ بنایا تھا، جنہوں نے مردانہ کپڑے پہن رکھے تھے اور اپنے لمبے بالوں کو اپنی پگڑیوں کے نیچے چھپا لیا تھا۔ عورتوں کو اونچی آوازمیں بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔
مباداء جھاڑیوں یا درختوں کے پیچھے چھپا ہوا دشمن عورتوں کی آوازیں سن لے تو اس پر یہ حقیقت کھل جائے کہ اس قافلے میں جوان عورتیں اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جوان عورتوں کے گھیرے کے گرد بوڑھی مگر صحت مند عورتوں کا گھیرا تھا بوڑھی عورتیںبھی مردانہ کپڑے پہن کر مرد بنی ہوئی تھیں۔
ہمارے قافلے کے دائیں اور بائیں اطراف میں بوڑھے مردوں کی ایک ایک قطار تھی جو کہ اپنی اپنی طرف سے ہوشیار تھی، جب کہ ہمارے قافلے کے آگے دو جوان مرد تھے ایسے ہی ہمارے قافلے کے پیچھے بھی دو جوان مرد تھے جب کہ ہمارے قافلے کی قیادت ملک صاحب کر رہے تھے مگر جب وہ کسی خطرے کی بو کو محسوس کرتے تھے تو جدھر سے ان کو خطرہ محسوس ہوتا تھا تو اس وقت وہ ضرورت کے تحت قافلے کے پیچھے ، دائیں یا پھر بائیں بھی چلنا شروع کر دیتے تھے ۔ اپنے مرحوم خاوند کا ذکر کرتے ہوئے اماں جان کا لہجہ فخریہ ہو گیا تھا۔
ہمارے قافلے کے آگے والے اور پیچھے والے مردوں کے ہاتھوں میں نیزے تھے ۔جو کہ ملک صاحب نے گاؤں کے لوہار سے تیار کروا کر مہینوں پہلے ہی اپنے کھیتوں میں چھپا رکھے
تھے۔جب کہ توانامردوں کے ہاتھوں میں برچھے اور لاٹھیاں تھیں جو مرد زیادہ بوڑھے تھے انہوں نے ڈنڈے اور ٹوکے تھام رکھے تھے۔ تاکہ حملے کی صورت میں، کم از کم وہ اپنی جان کی حفاظت تو کرسکیں اور شہید ہونے سے قبل کسی نہ کسی کافر کو جہنم رسید بھی کر سکیں ۔بوڑھی عورتوں نے لکڑی کی بندوقیں اٹھا رکھی تھیں ،جن پر کالے رنگ کا کپڑا لپیٹ کر ان کو اصلی جیسا ہی بنا دیا گیا تھا۔
ہماری شادی کے فوراً بعد ہی ملک صاحب نے مجھے بندوق چلانا سکھائی تھی وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ خدیجہ بیگم ! ہم میں سے ہر مسلم کو ہتھیار بند ہونا چاہیے اور جدید ترین اسلحہ کا استعمال بھی آنا چاہیے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمیں یہ حکم دے رکھا ہے کہ ہم گھوڑے پالیں اور اپنے اسلحہ کو ہر دم تیار ی کی حالت رکھیں۔
اس دن میری بندوق چلانے کی صلاحیت کام آئی تھی۔ میں نے گن سے فائر کرکے دو سکھ مارے ہیں ۔ اماں جان نے بڑے ہی فخر سے اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
ملک صاحب کے ہاتھ میں تھری ناٹ تھری کی رائفل تھی اور میرے پاس بارہ بور کی گن تھی۔
جب دشمن ہماری رینج میں آجاتا تھا ، تب ہم لوگ نشانہ باندھ کر فائر کرتے تھے۔کیونکہ ملک صاحب مجھے اکثر یہی سمجھایا کرتے تھے کہ صرف ایک اناڑی ہی خوا مخواہ اور نشانہ باندھے بغیر فائر کرتا ہے ۔جب کہ اچھا نشانچی اور تجربہ کار شکاری صرف اس وقت فائر کرتا ہے جب شکار اس کی زد میں اور نشانے پر آجاتا ہے ۔اس طرح سے نہ تو کوئی گولی ضائع ہوتی ہے اور نہ ہی شکار بچ کر نکلنے پاتا ہے۔
اس روز قافلہ روانہ ہونے سے قبل ملک صاحب نے ایک مرتبہ پھر سے یاد دھانی کرواتے ہوئے مجھے کہا تھا کہ ان سکھ لٹیروں اور بلوہ پسندوں میں بہت سارے سابقہ فوجی بھی ہیں اگر تم نے نشانہ باندھے بغیر اور دشمن کو اپنی رینج میں لیے بغیر بلا ضرورت فائر کیا تو وہ ہوشیار اور تجربہ کار سابقہ فوجی سمجھ جائیں گے کہ ان کے مقابلے پر اناڑی اور نا تجربہ کار لوگ ہیں۔
اگر ان کو ذرّہ برابر بھی یہ احساس ہو گیا کہ ان کا مقابلہ کسی اناڑی اور نا تجربہ کار دشمن سے ہے تو پھر یوں سمجھ لو کہ وہ ڈٹ جائیں گے اور اس طرح کی صورت حال میں ہمارے بچ نکلنے کے امکانات نہیں رہیں گے ۔اس لیے تم سمجھداری تحمل مزاجی اور صبر سے کام لینا کیونکہ اللہ تعالیٰ صبر اور تحمل رکھنے والوں کی مدد ضرور بہ ضرور کرتے ہیں۔انشاءاللہ!!! فتح ہماری ہی ہوگی۔
ہمارے قافلے پر پورے سفر کے دوران دو مرتبہ حملہ ہوا تھا۔جب وہ ہماری رینج میں آجاتے تھے تب ہم فائر کرتے تھے۔ ایک تو ملک صاحب کا نشانہ بہت اچھا تھا ۔دوسرے تھری ناٹ تھری کی رینج بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے ملک صاحب نے بہت سوں کو جہنم رسید کیا تھا،
میرا اندازہ ہے کہ انہوں نے گیارہ بارہ دشمنوں کو تو لازم ختم کیا تھا۔بھاگتا ہوا دشمن جب فائر کھا کر لوٹ پوٹ ہوتا تھا تو ملک صاحب کے نعرہء تکبیر کے جواب میں باقی سبھی مردوں کے ساتھ میں بھی جوش کے عالم میں اللہ اکبر کہتی تھی تواس وقت میری آواز سب سے بلند ہوتی تھی ۔
اس سے قبل گاؤں والے اور برادری والے میری موٹی آواز کا بہت ہی مذاق اڑایا کرتے تھے مگر ملک صاحب نے ایک مرتبہ بھی میری موٹی آواز کا مذاق نہ اڑایا تھا بلکہ وہ تومیرا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ خدیجہ بیگم ! اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کوئی بھی شے یا مخلوق بے عبث پیدا نہیں کی ہے ہمارے خالق کی ہرتخلیق کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ ہجرت کے موقع پر میری موٹی اور مردانہ آواز اور جسم کا مقصد بھی ظاہر ہو ہی گیا تھا جب میں نعرے کا جواب دیتی تھی تو دشمن جتھے دار یہی سمجھتے تھے کہ میں بھی کوئی پہلوان ہوں۔
پھر اماں جان نے اطمینان کی سانس لیتے ہوئے ہمیں یہ بتایا تھا کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ
نہ تو دست بدست لڑائی کی کوئی نوبت آئی تھی اور نہ ہی ہمارے قافلے کا کوئی شخص دشمن کے ہاتھوں سے شہید ہوا تھا۔یہ سب آیت الکرسی کے ورد کا اعجاز ہے کہ ہم سبھی محفوظ و مامون پاکستان کی سرحد کے اندر پہنچ گئے تھے ،البتہ ہمارے قافلے کے ایک بوڑھے اور ضعیف شخص نے بھوک اور پیاس کے ہاتھوں شہادت کو خود ہی اپنے گلے سے لگایا تھا۔
دراصل کوچ سے قبل ملک صاحب نے ہمیں یہ بتایا تھا کہ بعض اوقات دشمن کنوؤں اور تالابوں میں زہر بھی ملا دیا کرتے ہیں اس لیے ہم راستے میں کسی بھی کنویں اور تالاب کا پانی نہیں پئیں گے ۔صرف چلتا ہوا پانی ہی استعمال کریں گے انہوں نے راستے میں خوراک کے لیے بھنے چنے اور بھنی گندم رکھ لی تھی اور گڑ بھی۔ پینے کے پانی کا خاطر خواہ انتظام نہ ہوسکا تھا کیونکہ صرف دویا
تین فوجیوں کے گھروں سے پانی کی بوتلیں مل سکی تھیں اور صرف ایک مشکیزہ۔
پھر اماں جان مجھے سمجھانے لگی تھیں کہ فوجیوں کو (دورانِ جنگ) پینے کاپانی رکھنے کی خاص قسم کی بوتلیں دی جاتی ہیں اور کینوس کا بنا ہوا مشکیزہ دیا جاتا ہے جو کہ آسانی سے اٹھایا جا سکتا ہے ۔لمبے سفر میں عام مشک بھاری ہونے کی بناءپر لیجائی نہیں جا سکتی اور نہ ہی مٹی کے گھڑے وغیرہ ۔ ہمارے قافلے کے پاس کھانے کا سامان بھی محدود ہی تھا اور پینے کا پانی بھی تھوڑا ہی تھی۔
اس لیے ملک صاحب نے ہر شخص کا راشن مقرر کر دیا تھا۔ہمارے شہید ہونے والے بزرگ پورے سفر کے دوران اپنے حصے کی خوراک اور اپنے حصے کاپانی دودھ پلانے والی عورتوں میں باری باری سے تقسیم کرتے رہے تھے اور ہمیں اپنی قربانی اور نیکی کا پتہ بھی نہیں چلنے دیا تھا۔
انہوں نے پاکستان کی سرحد سے چند میل کے فاصلے پر اپنا دم دیتے ہوئے کہا تھا ۔بیٹو !!!
پاکستان پہنچ کر یہ یاد رکھنا کہ ضلع گرداسپور میں دفن تمہارے ایک بزرگ تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کہ کب ان کے بیٹے اور پوتے آکر ان کی قبر پر فاتحہ ادا کرتے ہیں ۔ یہ تم لوگوں پر میرا قرض ہے ۔تم میرا یہ قرض ضرور بہ ضرور ادا کرنا۔اگر تم میرا قرض ادا نہ کر سکے تو میں روز قیامت اپنا حق(قرض) تم لوگوں سے زبردستی وصول کر لوں گا اتنا کہہ کر اماں جان زار و قطار رونے لگی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی کہتی جارہی تھیں کہ دیکھو اللہ سچے نے تو ہمیں پاکستان عطا کردیا ۔
مگر ہم لوگ اتنے بد نصیب ہیں کہ نہ تو ہم نے اپنے سچے رب سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا ہے اور نہ ہی اپنے بزرگوں کو دیئے ہوئے الفاظ کو عملی جامہ پہنایا ہے ۔ جب ہم نے مسلسل وعدہ خلافی کی تھی تو قیام پاکستان کے پچیس سال کے بعد اللہ نے ہم سے آدھا پاکستان چھین لیا تھا۔
آج جبکہ پاکستان کو بنے ہوئے پچاس سال ہو چکے ہیں اور ہماری تیسری نسل بھی آچکی ہے مگر ہم ایسی بد نصیب قوم ہیں کہ اب تک باقی ماندہ پاکستان میں بھی اسلامی نظام کو نافذ نہیں کرسکے ہیں مجھے تویہ خطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ان وعدہ خلافیوں اور بد عنوانیوں کی پاداش میں کہیں باقی ماندہ پاکستان بھی ہم سے نہ چھین لیں۔اتنا کہہ کر اماں جان اس طرح سے پھوٹ پھوٹ کر روئی تھیں کہ ہم سبھی کو بے اختیار رونا آ گیا تھا۔
اماں جان ہمیں بتانے لگیں (جب پاکستان بنا تھا) ان دنوں گرداسپورشہر سے سیالکوٹ شہر آدھے دن میں پہنچا جا سکتا تھا۔مگر ہمیں گردا سپور سے شکر گڑھ تک پہنچنے میں سات دن لگے تھے۔میں یہ سمجھتی ہوں کہ ہم پھر بھی جلد پہنچ گئے تھے ۔کیونکہ ہمارے قافلے کے ساتھ عورتیں بچے اور بوڑھے زیادہ تھے۔
جن میں کئی حاملہ عورتیں تھیں اور بہت سے ضعیف مرد تھے ،اوپر سے حبس تھا اور جھلسَانے والی دھوپ تھی۔اس لیے ہم لوگ تیزی سے سفر نہ کر سکتے تھے۔پھر حفا ظتی نقطہ ءنظر سے ہم لوگ نہ تو ہر راستہ اختیار کرسکتے تھے اور نہ ہی ہر مقام پر رک سکتے تھے اور یہ کہ نہ ہی ہر وقت محوِسفر رہ سکتے تھے۔
ان سات دنوں میں ہر فرد کی زبان پر کلمہ شہادت کا ورد تھا یا پھر جن کو آیت الکرسی زبانی یاد تھی وہ اس کا مسلسل ورد کر رہے تھے۔ہم لوگ تیّمم کرتے تھے اور باری باری نماز ادا کرتے تھے ۔ وہ وقت بیداری اور ہوشیاری کا وقت تھا ۔ان سات دنوں میں ہم لوگ ایک لحظے کو بھی غافل نہ ہوئے تھے۔ اگر ایک آدمی آرام کر رہا ہے یا رفع حاجت کر رہا ہے تو دو آدمی اس کی رکھوالی کر رہے ہیں۔
میں نے حیرت اور خوشی کے عالم میں اماں جان سے پوچھا تھا ۔تو اماں جان ایک سو سینتالیس میں سے ایک سو چھیالیس افراد صحیح سلامت پاکستان کی سرحد کے اندر پہنچ گئے تھے؟
ہاں بیٹا ! اور یہ سب کچھ ملک صاحب کی دانشمندی اور حکمتِ عملی کی بدولت ہوا تھا ۔اگر ان کی جگہ پر کوئی دوسرا شخص ہمارا راہنما ءہوتا تو شائد حالات کچھ اور ہی ہوتے کیونکہ اس ابتلا کے دور میں ہمارے ضلع سے بہت سارے قافلے چلے تھے۔ زیادہ تر تو اپنا راستہ بھٹک گئے تھے اور کہیں کے کہیں جا نکلے تھے اور پھر انجانے میں دشمن کے گھیرے میں آگئے تھے اور ان سینکڑوں ہزاروں لوگوںمیں سے چند ایک فرد ہی زندہ سلامت بچ سکے تھے زیادہ تر قافلے تو ایسے ہی تھے جو کہ کبھی بھی پاکستان نہ پہنچ سکے تھے۔
اکثر بد قسمت قافلوں کے سارے کے سارے افراد شہید کردیئے گئے تھے۔ کچھ ایسے قافلے بھی تھے جن قافلوں کے مر دوں نے بھاگ کر اپنی جانیں تو بچا لی تھےں اور عورتوں کا کیا بنا ؟ وہ خود بھی نہیں جانتے ۔
ہمارے علاقے سے چلنے والے قافلوں میں سے صرف ہمارا قافلہ ایسا تھا جس کے ایک بھی فرد کو کوئی بھی گزند نہ پہنچا تھا اور جس قافلے کی ایک بھی لڑکی نہ چھینی گئی ۔ورنہ بیٹا کیا بتاؤں ! ستر ہزار مسلمان لڑکی ایسی ہے جو کہ سکھوں نے واپس ہی نہیں کی۔ جو بے آبرو کر دی گئیں اورجو شہید کر دی گئیں ، ان کا حساب تو کوئی بھی نہیں جانتا۔یہ دردناک حقیقت بتاتے ہوئے اماں جان نے سرد آہ بھری تھی۔
بیٹا ہم اس لیے نہیں بھٹکے تھے کہ ملک صاحب ٹی اینڈ ٹی میں ملازم تھے ۔ان کو سائیکل چلانے کا بھی بڑا شوق تھا۔ان کو اپنے ضلع کی ہر گذرگاہ،ہر راستے ،ہرپگڈنڈی،ہرکچی اورہر پکی سڑک کا علم تھا۔ان کو اپنے ضلع کے ہر گاؤں، ہرکوٹ اورہر کٹیا کا بھی پتہ تھا۔
وہ یہ بھی جانتے تھے کہ کس گاؤں کی کل آبادی کتنی ہے؟ اس گاؤں میں سکھوں اور ہندوؤں کے کتنے گھر ہیں اور مسلمانوں کی آبادی کتنی ہے اور اس گاؤں کی کس گلی یا کس بازار میں مسجد، مندر یا گردوارہ ہے ۔ وہ تواپنے علاقے کے قبرستانوں سے بھی واقف تھے اور ان کو مرگھٹوں اور مڑھیوں کے مقامات کا بھی پتہ تھا۔ وہ نہروں ، کھالوں اور موگوں کا علم بھی رکھتے تھے اوران کو پلوں کا بھی پتہ تھا بلکہ وہ تو یہ بھی جانتے تھے کہ کس نہر یا کھال کو کس مقام سے کسی کی نظروں سے بچ کر اور ڈوبے بغیر پار کیا جاسکتا ہے۔
ریلوے لائن پر کتنے سٹیشن ہیں اور ڈاک بنگلے اور ریسٹ ہاؤس کس کس مقام پر واقع ہیں ۔وہ تو گھاٹیوں ،کھایوں ،اونچائیوں اور نیچائیوں سے بھی بڑی اچھی طرح سے واقف تھے ۔ کنویں تالاب اور کھڑے پانی کے جوہڑ بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہ تھے۔ ملک صاحب کو شرارتی اور فریبی ہندوؤں سے اچھی طرح سے آگاہی حاصل تھی اوران کومتعصب سکھوں کی حویلیوں کا حدوداربعہ بھی یاد تھا۔
وہ سڑکوں ،نہروں اور ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ لگے درختوں کی تعداد سے بھی واقف تھے یہاں تک کہ کھالوں نہروں اور دریا کے کنارے اگے سرکنڈوں اور جھاڑیوں کے جھنڈوں سے بھی ان کی آشنائی تھی۔بیٹا ! ان کی نظر سے تو ان کے علاقے کی کوئی بھی چیز اوجھل نہ تھی وہ تو اپنی آنکھیں بند کرکے صرف ہاتھ سے چھو کر اور سونگھ کر یہ بتا سکتے تھے کہ وہ کس دیوار کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں یا اس مقام سے گاؤں کے چوہدری کا مکان کتنی دور ہے؟
اگر ملک صاحب ہمارے قافلے کے قائد نہ ہوتے تو میں اس وقت یہاں پر بیٹھی ہوئی ،تمہیں اپنی داستان نہ سنا رہی ہوتی۔ یا تو قتل ہو کر مٹی بن چکی ہوتی یا پھر کسی سکھ کے بچوں کو جنم دینے کے بعد اسی سکھ کے پوتوں کو پال رہی ہوتی۔یہ بات کہتے کہتے اماں جان کا چہرہ پتھرا سا گیا تھا۔
اماں جان کی والدہ (نانی اماں)جو کہ بہت ہی کم گو ہیں اور زیادہ تر تسبیحات میں مگن رہتی ہیں اس پوری گفتگو میں پہلی مرتبہ گویا ہوئی تھیں۔کہنے لگیں۔جب گاؤں والے معراج پتّر سے اختلاف کرکے ہم سے علیحدٰہ ہونے لگے تھے تو میں نے ایک ایک کی منّت اور ایک ایک سے ترلا کیا تھا کہ معراج پتّر کی بات مان لو ۔
اس لیے نہیں کہ وہ میرا جوائی ہے بلکہ اس لیے کہ وہ ست پنڈوں میں سب سے سیانا منڈا ہے۔میرے مرحوم شوہر کہا کرتے تھے کہ وہ گھرانہ خوش نصیب ہو گا جس گھرانے کا جوائی معراج الدین بنے گا۔پھر ٹھنڈی سانس بھر کر نانی جان کہنے لگیں ۔افسوس کہ انہوں نے میری ایک نہ مانی تھی ۔سبھی مرد اپنی زندگیاںبے مقصد گنوا بیٹھے تھے اور ان کے ساتھ جو لڑکیاں اور عورتیں تھیں ان بے چاریوں کا کیا بنا ؟؟
پھر وہ کہنے لگیں ۔مجھے ان کے مرنے کا افسوس نہیں ہے ۔مجھے افسوس تو ان کی بے عقلی پر ہے انہوں نے جانیں بھی گنوائیں اور عزتیں بھی لٹوائیں ۔جو لوگ اور قومیں آنے والے برے اور بھلے وقت کی تیاری نہ کریں ان کے مرنے پر افسوس نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کی کم عقلی پر ماتم کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے عقل استعمال کرنے کے لیے دی ہے نہ کہ کسی کجے( کوزہ) میں ڈال کر رکھنے کو۔ یہ فقرہ کہتے ہوئے نانی جان نہایت غصے کے عالم میں تھیں۔
پھروہ مجھے مخاطب کرکے کہنے لگیں ۔ دیکھ پتّر ! ایک تو میری پنج جوان جہان کڑیاں تھیں ،اوپر سے میں بیوہ ،پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ میرا کلّم کلّا نابالغ منڈا۔پھر بھی میں صحیح سلامت اپنی نقدی اور زیورات سمیت پاکستان پہنچ گئی ۔ اب اگر میں معراج پتّر کی صفت نہ کروں تو کس کی کروں؟؟؟
نانی اماں نے یہ بھی بتایا تھا ۔
پتّر !! جب پاکستان بنا تھا اور لوگ باگ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے تھے تو بہت سے مہاجر کئی کئی مہینوں تک کیمپوں میں رہے تھے جب کہ اکثر مہاجروں کے برعکس ہم لوگ سیالکوٹ پہنچتے ہی کرایہ کا مکان لے کر رہنے لگے تھے۔ صرف ہمارا گھرانہ ہی نہیں ۔ ہمارے قافلے کے ساتھ جتنے بھی لوگ پاکستان پہنچے تھے کسی ایک مہاجر کوبھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی۔
سبھی قافلے والوں کوہفتے عشرے میں کوئی نہ کوئی ٹھکانہ میسر آگیا تھا۔شکر الحمدللہ! اور بہت بہت شکریہ پتّر معراج الدین کا، کہ اس کی حکمت اور سیانت ہمارے کام آئی ۔
اللہ نے اسے عقل دی،،، اس نے تیاری کی اس نے تدبیر کی اور اللہ نے تحفظ دیا ۔
یہ کہہ کر نانی اماں جلالی کیفیت میں تسبیح کرنے لگی تھیں۔
الحمد للہ !! الحمد للہ !! الحمد للہ !!۔۔
الحمد للہ !! الحمد للہ !! الحمد للہ !!۔۔ الحمد للہ !! الحمد للہ !! الحمد للہ !! ۔۔
14۔اگست۔2008ء
(اماں جان اور نانی جان کی زبانی یہ سچا واقعہ میں نے چودہ اگست انیس سو ستانوے کو سنا تھا اس وقت اماں جان کی گود میں ان کا ایک سالہ پوتا معراج الدین لیٹا ہواتھا۔اگر اللہ کریم نے توفیق دی تو ملک معراج الدین شہید کی شہادت کا واقعہ بھی تحریر کروں گا:: انشااللہ تعالیٰ)
ابن الملک
ایک دوراندیش مسلم مردکی سچی کہانی
جو افراد اور قومیں اپنے دفاع اور حفاظت سے غافل رہتی ہیں ،وہ جلد یا بدیر فنا ہو جاتی ہیں ۔
جملہ حقوق بحق ایکسیس ٹو کئیر پاکستان ۔امریکہ۔ چین۔ محفوظ ہیں۔ اس کہانی کا کوئی بھی حصہ یا کل یا جز نہ تو کسی الیکٹرانی۔ ریڈیائی یا کسی اور ذریعے سے نقل کرنا۔ محفوظ کرنا ۔ اس کہانی کے اصل متن کو بدلنا ۔ ترجمہ کرنا ۔ یا نام مقام تبدیل کرکے شائع کرنا منع ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للّٰہِ رب العالمین
٭بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم٭
تیاری اور تحفّظ
تحقیق و تحریر: ابن المک
چودہ اگست کادن پاکستانی قوم کے لیے تجدیدِعہد اور خوشی ومسرت کا دن ہوتا ہے۔ اس دن ہرسال ، پاکستانی قوم اللہ مالک سے کیا گیا اپنا وہ وعدہ یاد کرتی ہے جو کہ ہمارے اب وجد اور بزرگوں نے اپنے مالک و خالق اللہ رب السمٰوٰت والارض سے کیا تھا۔کہ اگر ہمیں اس زمین میں ایک خطہءارض مل گیا تو ہم اس خطہءارض پر تیرا دیا ہوا نظام یعنی کہ دینِ اسلام نافذ کریں گے۔
جب پاکستان کے نام کے خالق چوہدری محمد علی ؒ نے اس نام کے بارے میں سوچا اور غوروفکر کیا ہوگا توانہوں نے یہی خیال کیا ہو گا کہ جب دوچار نسلوں کے بعد،طویل اوران تھک جدوجہد کے اختتام پر میرے ہم قوم ہندوستان کے مسلم ،برصغیر میں ایک آزادخطہ حاصل کریں گے ۔تو اس وقت تک میں ناجانے کتنی مٹی تلے دفن ہوچکا ہوں گا؟
کچھ ایسا ہی خیال تحریکِ پاکستان چلانے والی نسل کے ذہن میں بھی تھا کہ شائد ہماری آئندہ نسلیں ہی پاکستان کو آزاد ہوتا دیکھ سکیں گی۔
جب کہ مسلم قوم کے دشمن بھی یہی خیال کرتے تھے کہ پاکستان ایک ناممکن العمل خیال ہے اور اس دنیا میں ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک ہزاروں برس قدیم ملک کسی مذہبی نظریئے کی بنیاد پر دو یا تین حصّوں میں بٹ جائے۔
مگر غیر متوقع طور پراللہ کریم کی رحمت جوش میں آگئی تھی۔ اپنوں کے اندازے غلط ثابت ہو گئے تھے اور دشمنوں کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔ایک معجزہ رونماءہو گیا تھا اللہ قادرِمطلق نے انڈین مسلم نیشن کو پاکستان بطورِ انعام دے دیا تھا جو نسل اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک آزاد وطن کے حصول کی جدوجہد کر رہی تھی۔اسی نسل کو ہی یہ موقع دے دیا تھا کہ وہ خود ہی لااِلہ الا للّٰہ کے اصولوں کی بنیاد پراپنے نئے گھر کی تعمیر کرکے اللہ مالک و خالق سے کیا گیا اپنا وعدہ خود ہی نبھائے ۔
پاکستان کی جدوجہد اور حصول کی داستان سرسیّد احمد خانؒ سے شروع ہوتی ہے اور اس طویل اور ان تھک جدو جہد کا اختتام قائدِاعظم محمد علی جناح ؒپر آ کر ہوتا ہے ۔ پاکستان کے قیام کے بعدپاکستان کی جدوجہد کی داستان کا مکمل احاطہ کرنے کے لیے اتنی کتب لکھی جانی چاہیئں تھیں کہ تحریکِ حصول ِ پاکستان پر لکھی گئی کتابوں کو رکھنے کے لئے سینکڑوںایکڑوں رقبے پر پھیلی ہوئی کئی کئی منزلہ لائبریریوں کی لاکھوں الماریاں بھی ان کتابوں کے لیے نا کافی ثابت ہوتیں۔
افسوس کا مقام تویہ ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم اس کے بالکل ہی برعکس کیا ہے ۔ ہم پاکستانیوں نے اپنی جدوجہد کی تاریخ یاد رکھنے اور لکھنے کی بجائے یکسر فراموش کر دی ہے۔
قوموں کی تاریخ میں یہ المیہ بھی ہمارے ساتھ ہی ہو نا تھا۔ سو ہو گیا ! ہم پاکستانیوں نے اپنی
جدوجہدِ آزادی کی تاریخ لکھنے کا حق اد ا ہی نہیں کیا ہے۔اس مجرمانہ غفلت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہماری قوم کی نئی نسل کو اپنی تاریخ سے آگاہی حاصل ہی نہیں ہے۔ اس قومی المیے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے ،،اتنا ہی کم ہے۔
جنابِ سرسید احمد خانؒ پہلے مسلم لیڈر تھے، جنہوں نے ہمیں یہ شعور دیا تھا کہ ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں ۔اگر اس حقیقت کو نظر انداز کر کے ہندوستان میں ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر برطانوی یا مغر بی جمہوریت کو نافذ کیا گیا تو برطانوی یا مغربی جمہوریت کے نفاذ کی صورت میں مسلم قوم اپنے ووٹوں کی عددی کمی کی بناءپر ہمیشہ کے لیے اقتدار سے باہر ہو جائی گی اور ہمیشہ کے لیے محرومیوں کا شکار رہے گی۔
سرسید احمد خانؒ نے فرمایا تھا کہ اس مسلے کا حل یہی ہے کہ ہندوستان میں ہمیں مسلم آبادی کی بنیاد پر پارلیمنٹ میں نمائندگی اور سرکاری ملازمتیں ملنی چاہیئں ۔اس خیال یا نظریے کو دو قومی نظریہ کہتے ہیں۔ یوں سر سید احمد خانؒ دور جدید کے پہلے مسلم راہنما ءہیں جنہوں نے دو قومی نظریے کی تجدید کی تھی ۔ انہوں نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ اگر برصغیر(ہندوستان) کے مسلم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو وہ جدید اور انگریزی تعلیم حاصل کریں اور انگلش حکومت کے ساتھ تعاون کرکے ترقی کا کوئی بھی موقع ضائع نہ کریں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ہمیں سرسیّد احمدخانؒ جیسے بیدار مغز ،دور اندیش ،بے لوث اور مخلص راہنما نہ ملتے ۔ تو انڈیا کے تمام کے تمام مسلم ، آج ( برٹش قوم کے جگہ پر ) ہندو قوم کے غلام ہوتے اور پاکستان کبھی بھی معرضِ وجود میں نہ آتا۔
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سرسیّد احمد خان ؒ جیسے عظیم لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور یہ اللّٰہ قادرِ مطلق کی بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں۔ہمیں اس نعمت پر رب کریم کا ہمیشہ شکر ادا کرنا چاہیے۔
ہ الحمدللّٰہ ِ الرب العالمین ہ
پاکستان بنانے کی جدوجہد میں ہر سلیم القلب مسلم نے اپنی اپنی استطاعت اور مکمل اخلاص کے ساتھ کوشش کی تھی۔اسی لیے جب چودہ اگست انیس سو سنتالیس (14۔اگست ۔1947) کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا تو ہر مسلم و مومن خوش تھا کہ ہمیں ہماری منزلِ مراد مل گئی ہے۔ملک معراج الدین کھوکھر کے گھر تو دہری خوشی تھی،کیونکہ اسی صبح بخیر کو تہجد اور فجر کے درمیانی وقت میں ایک بچی پیدا ہوئی تھی جو کہ معراج الدین کی شادی کے دس برس کے بعد بہت سی دعاؤں اور التجاؤں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔
اسلام کے شیدائی اور مجاہد قلب اس شخص نے اپنی بیٹی کا نام مسرتِ تشکیلِ پاکستان رکھا تھا ۔
ملک معراج ا لدین کو قیام پاکستان کے ساتھ ہی پہلی اولاد کی ولادت پر اتنی خوشی اور مسرت ہوئی تھی کہ وہ اپنی بچی کے پیدائش کے اندراج کے لیے متعلقہ دفتر کے کھلنے سے قبل ہی اس دفترکے دروازے پر جا کھڑا ہوا تھا۔اس دفتر کا کلرک بھی ایک مسلم ہی تھا۔ کلرک نے جب نومولود بچی کا نام سنا تھا تو وہ خوشی جوش اور عقیدت کے عالم میں اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا اور پھر جوش وعقیدت کے عالم میں ملک معراج الدین کھوکھر کو سلیوٹ کیا تھا۔
ان کی بیوی ،اپنے خاوند ملک معراج الدین کا نام بڑی عقیدت اور محبت سے لیا کرتی ہیں۔ بلکہ ان کا نام لیتے ہوئے ان کا لہجہ حلاوت اور شیرینی سے بھر جاتا ہے۔کیونکہ ملک معراج الدین مرحوم نہ صرف ان کے بلکہ اپنے پورے گھرانے کے ہیرو ہیں۔میں بھی ان کو ہیرو ہی مانتا ہوں اس لیے ان کی بہادری کی داستانیں سننے کے لیے ان کے گھر جا یا کرتا تھا اور ان کی بیوی سے ملک صاحب مرحوم کی بہادری کے قصے سنا کرتا تھا۔
اماں جان مجھے اپنے ساتھ ہی اپنی چارپائی پر بٹھا لیا کرتی تھیں ۔ جی ہاں! ملک صاحب مرحوم کی بیوی کو ان کے سبھی بچوں کی طرح سے ،میں بھی اماں جان ہی کہتا ہوں۔
وہ مجھے بتایا کرتی ہیں کہ ریڈکلف ایوارڈ کے تحت جو حد بندی ہوئی تھی ۔اس کے تحت ہمارا ضلع گرداسپور پاکستان میں شامل ہو گیا تھا اور اس دن گرمی کے باوجود ملک صاحب اپنی ذاتی سائیکل پر بیٹھ کر شہر گئے تھے اور ضلعی ہیڈ کوارٹر کی عمارت پر پاکستان کا ہلالی پرچم لہراتا ہوا دیکھ کر آئے تھے اور بہت خوش بھی تھے۔اسی خوشی کے عالم میں انہوں نے یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ کل صبح کو وہ اپنی ڈیوٹی پردوبارہ سے حاضر ہو جائیں گے مگر جب صبح کو ڈیوٹی پر جانے کے چند گھنٹے کے بعد ہی وہ گھر واپس آگئے تھے تو مجھے ان کی اچانک اور غیر متوقع واپسی پر بڑی حیر انگی ہوئی تھی۔
ابھی میں ان کی اچانک اور غیر متوقع واپسی پر حیران ہو ہی رہی تھی کہ انہوں نے گھر کے کسی کونے کھدرے میں چھپائی ہوئی اپنی بندوق اور گن دونوں ہی نکال لی تھی اور ان کو صاف کرنے لگے تھے اور ساتھ ہی سبھی گھر والوں کو بتانے لگے تھے کہ اب اس اسلحہ کے استعمال کا موقعہ آگیا ہے۔میں ان کی بات سن کر حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہوچکی تھی۔
اپنے اسلحہ کو تیاری کی حالت میں لانے کے بعد ملک صاحب فرمانے لگے تھے ۔دیکھو میں نہ کہتا تھا کہ کافر پر کبھی بھی اعتماد نہ کرنا کیونکہ کافر ہمیشہ ہی ہمیں دھوکے میں رکھتا ہے اور جب ہم اپنے دفاع سے غافل ہو جاتے ہیں تو وہ ہمیں دھوکے میں رکھ کرمارڈالتا ہے۔اسی لیے تو میں نے انگریزوں کا حکم نہیں مانا تھا اور دوسرے مسلمانوں کی طرح سے اپنا اسلحہ حکومت کے پاس جمع نہیں کروایا تھا۔
میں ان کی یہ بات سن کر اور بھی الجھ گئی تھی۔ ملک صاحب نے ہمیں بتایا تھا کہ انگریزوں نے ہندووں کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف گہری سازش چلی ہے انہوں نے مسلم قوم سے کئے گئے معاہدے سے بد عہدی کی ہے اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلم اکثریت کا ضلع گرداسپور ہندوستان کو دے دیا ہے ،اسی لیے اس وقت ضلعی ہیڈکورٹر کی عمارت پر پاکستان کے پرچم کی جگہ بھارت کا ترنگا لہرا رہا ہے۔
اماں جان کہنے لگی تھیں ۔ملک صاحب آدھے ولی اللہ تھے۔ ان کے اکثر اندازے درست ہی ہوا کرتے تھے۔جب قیام پاکستان کے وقت کا تعیین ہو گیا تھا۔ تب انگریزوں نے حکم دیا تھا کہ سبھی لوگ اپنا لائسنسی اسلحہ حکومت کے پاس جمع کروا دیں ۔ملک صاحب نے جب ہند حکومت کا یہ اعلان سنا تھا تو ملک صاحب اسی وقت فرمانے لگے تھے ۔ یہ حکم صرف مسلما نوں پر ہی لاگو ہو گا۔
مسلمانوں سے سارا اسلحہ واپس لے لیا جائے گا۔ مگر ہندوؤں اور سکھوں سے اسلحہ کبھی بھی نہیں لیا جائے گا ، تاکہ ہمیں نہتا کرکے مارا جاسکے۔ وہ تو اسی وقت کہنے لگے تھے یہ تو صاف صاف خودکشی ہے کہ ہم اپنا رہا سہا اسلحہ بھی اپنے دشمنوں کے حوالے کر دیں۔ ملک صاحب نے اپنا لائسنسی اسلحہ حکومت کے پاس جمع کروانے کی بجائے اپنی ملازمت پر ہی جانا چھوڑ دیا تھا ۔
کچھ غلامانہ ذہن رکھنے والے مسلمانوں نے نہ صرف خود حکومت سے تعاون کیا تھا بلکہ انہوں نے تو ملک صاحب کو بھی تنبیہ کی تھی کہ حکومتِ ہند اپنے حکم کی خلاف ورزی پر تمہاری نوکری ختم کر سکتی ہے تو ملک صاحب نے انہیں یہ جواب دیا تھا اب جب کہ پاکستان کے قیام کا اعلان ہو چکا ہے ۔اس لئے میں خود کو پاکستان کی سرکار کا نوکر سمجھتا ہوں لہٰذا مجھے حکومتِ ہند کے احکامات کی ذرّہ برابر بھی پرواہ نہیں ہے۔
پھر کچھ دن کے بعد ملک صاحب کچھ عرصہ کے لیے روپوش ہوگئے تھے ،مگر ہمارے حال سے وہ کبھی بھی غافل نہ رہے تھے۔یہ بات کہہ کر اماں جان مسکرانے لگی تھیںپھر انہوں نے بڑی ہی محبت بھری نظروں سے اپنی سب سے بڑی بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے مجھے یوں بتایا تھا
ملک صاحب بہت بہادر، دلیر،جری اور طاقت ور تھے اور ان کا قد کاٹھ ؟ یوں سمجھو کہ یہ میری مسرت ان کی چلتی پھرتی تصویر ہے۔
اماں جان نے اپنی انگلی سے اپنی پہلوٹھی کی بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا اوریہ کہتے کہتے اماں جان کی آنکھوں میں بے پناہ محبت اور عقیدت بھی اتر آئی تھی۔
اسی کی طرح کا مضبوط بدن ،بس یہی رنگ ،یہی روپ ، یہی ناک ، یہی نقش ، یہی حسن ، یہی کشش ، یہی قد ،یہی کاٹھ اور یہی چال ڈھال ۔اماں جان اپنی بیٹی کو محبت بھری نظروں سے دیکھے جا رہی تھیں اور اپنے شہید خاوند کی چلتی پھرتی تصویر مجھے دکھائے جا رہی تھیں ۔
اپنے شہید خاوند کے جسمانی خدو خال بیان کرنے کے بعد اماں جان اپنے شہید خاوند کی طاقت اور قوت کے متعلق بتانے لگی تھیں ۔وہ کہنے لگیںملک صاحب اتنے طاقت ور تھے کہ دو یا تین مضبوط اور طاقتور آدمیوں پر بھاری ہی پڑتے تھے۔ان کو پہلوانی کا شوق جنون کی حد تک تھا نوجوانی میں وہ اپنے سکول کی ہاکی ٹیم کے بہترین پلیئر تھے ۔ساتھ ہی ساتھ اپنے گاؤں کے جانے پہچانے کبڈی کے کھلاڑی بھی تھے ۔
پورے کا پورا گاؤں ان کی طاقت پر مان کیا کرتا تھا ۔ وہ جتنے طاقت ور تھے اتنے ہی ذہین بھی تھے۔ ساتھ ہی ساتھ خوش باش ،زندہ دل اور خوش اخلاق تھے۔ ملک صاحب کی سبھی خوبیاں میری اس بیٹی میں یکجا ہیں ۔ شائد اس لیے کہ مسرت کی تعلیم وتربیت انہی کی زیر نگرانی ہوئی تھی۔ یہ کہتے ہوئے گویا اماں جان تو اپنی پہلوٹھی کی اولاد مسرتِ تشکیلِ پاکستان پر فدا ہوئے جا رہی تھیں۔
جس وقت اماں جان مجھے یہ سب کچھ بتارہی تھیں تو اس وقت میں اس یہ سوچے جا رہا تھا کہ اگر اماں جان اپنے شہید شوہر کی تصویر سے اتنی شدید قسم کی محبت اور گہری عقیدت رکھتی ہیں تو اصل شخصیت یعنی کہ ملک معراج الدین مرحوم سے کتنی محبت اور عقیدت رکھتی ہوں گی ؟؟؟ اس سوچ کے بعد میرے دل میں یہ سوچ بھی آئی تھی کہ وہ حقیقت میں کیسے ہوں گے؟
پھر اماں جان مجھے اسی دور میں لے گئی تھیں ۔جب ان کے شوہر خوبرو بھی تھے اور طاقتور بھی وہ کہنے لگیں۔ جب ہندوؤں اور سکھوں کو علم ہوا تھا کہ ضلع گورداسپور کو ہندوستان میں شامل کر دیا گیا ہے تو جن سنگھی اور اکالی مسلمانوں پر راتوں میں چھپ چھپا کر حملے کرنے لگے تھے۔
پھر جب مسلمانوں کی طرف سے کوئی جوابی کاروائی نہ ہوئی تھی۔ توکچھ دنوں کے بعد انہوں نے مسلمانوں کے گھروں پر دن دیہاڑے حملے شروع کر دئیے تھے پھر نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ انتظامیہ اور پولیس بھی کھلم کھلا انہی بلوائیوں، قاتلوں اورفسادیوں کا ساتھ دے رہی تھی۔ مسلمان کی بستیوں اور آبادیوں میں شدید قسم کاخوف وہراس پیدا ہو گیا تھا ۔
وہی لوگ جو کل تک ملک صاحب کی تیاریوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور ان کی باتوں پر یقین نہ کرتے تھے۔ اس ان دیکھے خطرے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگے تھے جس اندیکھے خطرے کے متعلق ملک صاحب مہینوں قبل ہی ہر وقت فکر مند رہا کرتے تھے۔ پھر لوگ باگ افراتفری کے عالم میں پاکستان کی طرف ہجرت کرنے لگے تھے اس وقت بھی ملک صاحب نے ان کو سمجھایا تھا کہ اگر کوچ کرنا ہی ہے تو منصوبہ بندی کرکے کسی طریقے اور سلیقے سے کوچ کرو۔ مگر کسی نے بھی ان کی نہیں سنی تھی۔
یہ کہتے ہوئے اماں جان نے ٹھنڈی سانس لی تھی۔
ملک صاحب کہا کرتے تھے کہ دیکھو یہ اس نبیﷺ کی امت کا حال ہے جنہوں نے مکة المکرمہ سے ہجرت کامکمل انتظام مہینوں قبل ہی مکمل کررکھا تھا۔ اس بد قسمت امت نے اپنے نبیﷺ کی سنت سے کچھ بھی نہیں سیکھا ہے ۔ ان دنوں ملک صاحب یہی کہتے ہوتے تھے۔ اگر ہم نے اس ہادی برحق ﷺ کی مبارک زندگی کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے کیا ہوتا کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے قیامت آنے کے وقت تک کے حالات کے لئے رہنمائی کے اصول و ضوابط ملیں گے تو آج یہ لوگ افرتفری کے عالم میں اس طرح سے خوف زدہ ہو کر بھاگ نہ رہے ہوتے۔
اتنا کہہ کر اماں جان مزید یوں فرمانے لگی تھیں۔بیٹا ! ملک صاحب بہت دور کی سوچا کرتے تھے۔اس لیے وہ ایسے خطرات کے بارے میں بھی اپنی تیاریاں مکمل کرکے رکھا کرتے تھے ،جن خطرات کو عام لوگ باگ واہمے سمجھا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے ذہن میں اس اصول کو جگہ دے رکھی تھی کہ دشمن پر کبھی بھی اعتماد نہ کرو ۔ جب عام مسلمان مطمئن اور خوش تھے۔اس وقت ملک صاحب خوش تو ضرور تھے مگروہ مطمئن بالکل ہی نہ تھے ۔
اسی بے اطمینانی اور فکر مندی کی کیفیت میں انہوں نے نہ تو اپنا اسلحہ حکومت کے پاس جمع کروایا تھا اور نہ ہی سکون سے گھر پر بیٹھے رہے تھے۔بلکہ انہوں نے اپنی حفاظت کی مکمل تیاری کر لی تھی۔صرف میں اور میری والدہ یہ جانتی تھیں کہ ملک صاحب نے ڈیڑھ سینکڑہ ایل جی کے کارتوس جمع کر لئے تھے اور اتنی ہی تھری ناٹ تھری کی گولیاں بھی۔
دراصل ملک صاحب ہر چیز کو اور ہر مسلے کو ایسے زاویے سے دیکھا کرتے تھے ۔ جس زاویئے یا نقطئہ نظر سے عام لوگ باگ نہیں دیکھا کرتے تھے۔اماں جان نے اپنا داہنا ہاتھ بڑے ہی پیار سے میرے لمبے لمبے بالوں میں پھیرتے ہوئے مجھے بتایا تھا۔
عام لوگ تو اس دوران افراتفری کے عالم میں روانہ ہوئے تھے ۔جب کہ ہم لوگ اپنی تیاری مکمل کرنے کے بعداور اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعائیں مانگنے کے بعد،اپنے گاؤں سے باہر نکلے تھے۔جب ہم لوگوں نے اپنے آبائی گاؤں سے کوچ کیا تھا تو ہمارے قافلے میںکل ملا کر ایک سو سنتالیس نفوس تھے۔ سو سے زائد تو جوان عورتیں، لڑکیاں اور بچے تھے، شیر خوار بھی تھے اور نونہال بھی تھے۔
باقی بوڑھے مرد اور عورتیں تھیںاورجوان مر دتو صرف چارہی تھے اور ان چارمیں سے صرف ملک صاحب ہی ہتھیار استعمال کرنا جانتے تھے۔یہ تھی صورت حال ! جب ہم لوگوںنے اپنا گاؤں چھوڑا تھا۔ اماں جان نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا تھا۔
اماں جان کہنے لگیں ۔ ملک صاحب نے گاؤں سے کوچ کرنے سے قبل سبھی سے کہا تھا کہ ہمارے بنیﷺ پر کتاب اور حکمت اتری ہے اور اس کڑے وقت میں حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ تما م عورتیں اپنا پردہ ترک کرکے مردوں کا سا حلیہ اختیار کرلیں اور اس بات کو اچھی طرح سے اپنے ذہنوں میں بٹھا لیں کہ جن گوروں کی مملکت کی حفاظت کی خاطر ان کے جوان بیٹے یا شوہر ہزاروں میل دور گئے ہوئے ہیں ،وہ گورے ہماری مدد کو قطعاً نہیں آئیں گے ،،بلکہ ہم لوگوں نے اپنی حفاظت کا انتظام اور بندوبست خود ہی کرنا ہے۔
اماں جان کہنے لگیں ۔بیٹا تمہیں کیا بتاؤں کہ ان دنوں مسلمانوں کی بستیوں اور آبادیوں میں کیسا خوف وہراس تھا ؟ آج کل کی نسل کواگر بتائیں ، اوّل تو سنتی ہی نہیں ہے اور اگر سنتی بھی ہے تو یقین ہی نہیں کرتی ہے کہ ہم مسلمان اس دور میں کس طرح سے آگ اور خون کے دریا سے گذر کر آئے ہیں ؟
بیٹا کس کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے ان گھروں کو چھوڑے جہاں پر بچپن اور لڑکپن گذارا ہے ۔ جہاں پر اس کے بڑوں اور بزرگوں کی قبریں ہیں ،شادی بیاہ اور مرگ کی یادیں ہیں۔بچوں کی پیدائش کی خوشیاں ہیں اور ان کو ننھے ننھے قدموں کی چاپیں ہیں ۔ قدم قدم پر یادوں کی نشانیاں ہیں اور ہر در و دیوار سے لپٹی ہوئی، ماضی کی وابستگیاں ہیں۔
بیٹا کس کا دل چاہتا ہے ؟بیٹا کس کا دل چاہتا ہے ؟بیٹا کس کا دل چاہتا ہے ؟ اماں جان بظاہر تو مجھے پوچھ رہی تھیں مگر حقیقت میں وہ خود کلامی کر رہی تھیں ۔
پھر انہوں نے کہا تھا۔بیٹا ہم اپنے گھروں کو کبھی بھی نہ چھوڑتے ۔ اگر ہندو اور سکھ ہمیں امن اور چین سے وہاں پر رہنے دیتے۔مگر وہ تو ہمارے خون کے پیاسے ہو گئے تھے اور ہماری عزتوں کے لٹیرے بن گئے تھے۔حالات تو اس قدر بگڑ گئے تھے کہ پڑوسی ہی پڑوسی کی جان مال اور عزت کا دشمن بن گیا تھا۔ ہم تو اس لحاظ سے خوش نصیب تھے کہ ہمارا سارے کا سارا گاؤں مسلم آبادی تھا۔مگر جہاں پر آبادی ملی جلی تھی وہا ںپر تو پاس پڑوس والے ہندوؤں اور سکھوں نے نہ صرف اپنے مسلمان ہمسایوں کو قتل کیا تھا بلکہ ان کی املاک کو بھی لوٹ لیا تھا اور ساتھ ہی مسلمانوں کی جائداد وں پر قبضہ کر لیا تھا ۔
اماں جان نے بڑی لمبی اور ٹھنڈی سانس لی تھی اور کہا تھا ان ظالموں اور خونی درندوں نے مسلمانوں پر ہر قسم کا ظلم روا رکھا تھا ۔ان بے ایمان کافروں نے برسوں اور نسلوں تک ہمسایہ میں رہنے والے مسلمانوں کا نہ صرف بڑی ہی بے دردی سے قتل عام کیا تھا اور بلکہ ساتھ ہی ان کی عزتوں کو بھی لوٹا تھا اور کئی ایک نے توزندہ انسانوں کو ان کے اپنے ہی گھروں میں بند کرکے آگ کی نذرکر دیا تھا۔
ایسے پر آشوب حالات میں ملک صاحب نے اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا تھا اگر حالات کچھ بہتر ہوتے تو ہم لوگ کبھی بھی اپنے آبائی گھروں کو یوں بھرا پرا نہ چھوڑتے اور اپنے آباء و اجداد کی قبروں کو کبھی بھی خیر آباد نہ کہتے۔ یہ کہہ کر اماں جان کہنے لگی تھیں۔بیٹا کس انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر دربدر بھٹکتا پھرے ؟ اور بھیک منگوں کی طرح سے دوسروں کے آگے دستِ سوال بھی دراز کرتا پھرے؟
بتاؤ بیٹا ۔ وہ شخص جو صرف ایک دن قبل ہی خوشحال اور تونگر تھا اور اپنے ہاتھوں سے خیر خیرات کیا کرتا تھا ،اسی شخص کو اگلے روز ہی اپنا خیرات کرنے والا ہا تھ ،خیرات وصول کرنے کے لیے پھیلا نا پڑے تو اس کے دل پر کیا گذرتی ہے ؟ اتنا کہتے کہتے اماں جان کی آنکھوں سے بے اختیار ہو کر آنسو بہہ نکلے تھے ساتھ ہی میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے تھے اور ہمارے پاس بیٹھے ہوئے سبھی کی آنکھیں بھی پر نم ہو چکی تھیں۔
کچھ دیر تک تو اماں جان خاموش بیٹھی رہی تھیں ۔جب انہوں نے اپنے جذبات پر قابو پا لیا تھا اور آنسوؤں کو بھی روک لیا تھا تو انہوں نے اپنے لہجے کو مضبوط بناتے ہوئے کہا تھا ۔
جب روانگی سے قبل ملک صاحب نے کہا تھا کہ ہمارے قافلے کی تمام عورتیں صرف عارضی طور پر اور اس ابتلاءکے خاتمے تک ،اپنا پردہ ترک کرکے مردوں والا حلیہ اختیار کر لیں۔ اگر اس وقت چند بڑے اور بزرگ ملک صاحب کی بات مان لیتے تو سبھی لوگوں نے بحفاظت پاکستان پہنچ جانا تھا مگر ہمارے گاؤں کے کچھ بڑوں اور بزرگوں نے ان کی اس تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انگریزی سکولوں کا پڑھا لکھا لڑکا ہماری عورتوں کو بے پردہ کرنا چاہتا ہے۔
اس لیے بہت سارے افراد ہمارے قافلے سے علیحدٰہ ہو گئے تھے پھر راستے میں ہی ان اختلاف کرنے والوںکے سبھی جوان اور بوڑھے مرد مارے گئے تھے اس قافلے کی سبھی جوان عورتوں کو سکھ اٹھا کر لے گئے تھے بوڑھی عورتوں اور بچوں کو سکھوں اور ہندوؤں نے کھیتوں کے اندر پکی ہوئی فصل کی طرح سے کاٹ کر رکھ دیا تھا۔ اتناکہہ کر اماں جان زار و قطار رونے لگی تھیں۔
وہ کیوں کر نہ روتیں؟ سبھی مرنے والے ان کے رشتہ دار، عزیزواقارب اور خاندان والے تھے۔ان کے قبیلے والے تھے اور ان کے ہم نسل اور ہم مذہب لوگ تھے۔ان میں سے تو کئی ایک بہت ہی قریبی تعلق والے تھے اور سارے کے سارے دور و نزدیک کے رشتے والے تھے۔ ان کی خالائیں تھیں۔ ان کی سہیلیاں اور ہم جولیاں تھیں۔ان کی تائی اور چچیاں تھیں رشتہ میں ان کی بھتیجیاں اور بھانجیاں تھیں۔ پھوپھیاں اور دادیاں تھیں۔
تائے اور چاچے تھے۔ خالو اور مامے تھے۔ کئی ایک پھوپھا بھی تھے۔چند ایک رشتے میں نانے تھے تو کچھ دادے تھے۔سبھی رشتے تھے ۔سبھی ناتے تھے اور سبھی تعلق تھے ۔اماں جان کے زیادہ تررشتہ دار تو قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کے دوران ہی شہید ہوگئے تھے ۔اس لیے ہر سال چودہ اگست کے دن ،ان سبھی شہیدوں کی یاد ان کے دل میں ایسے ہی تازہ ہو جاتی ہے جیسے یہ کل کی بات ہے ۔اس روز بھی چودہ اگست ہی تھی ۔جب اماں جان یہ قصہ میرے سے بیان کر رہی تھیں۔
اس مرتبہ اماں جان کی خاموشی کچھ زیادہ ہی طویل رہی تھی ۔وہ کافی دیر تک سسکیاں لیتی رہی تھیں۔ہم سبھی اس وقت خاموش اور اداس بیٹھے ہو ئے تھے اور ہمیں اس وقت یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ سبھی پیارے ابھی کچھ دیر پہلے ہی ہم سے جدا ہوئے ہیں ۔
کافی دیر کے بعد جا کر اماں جان کے آنسو تھمے تھے تو وہ یوں گویا ہوئی تھیںملک صاحب نے اپنے باپ اور دادا کی طرح داڑھی تو نہیں رکھی ہوئی تھی البتہ وہ پنج وقتہ نمازی تھے اور ہر صبح کو تلاوت کرنا ان کا معمول تھا۔بلکہ ان کو قرآن کی بہت سارے سورتیں حفظ تھیں ۔ مغرب کے بعد ملک صاحب ہمیشہ ترجمے والا قرآن پڑھا کرتے تھے چونکہ ان کے پاس ڈھیر ساری دینی کتابیں تھیں اس لئے عشا کے بعد دینی کتب کا مطالعہ کیا کرتے تھے ۔
اس کے علاوہ ان کو حضرت علامہ اقبال صاحب کی تقریباً ساری کی ساری اہم اور مشہور نظمیں زبانی ہی یاد تھیں ،اس لیے رات کوسونے سے پہلے جب وہ اپنے بستر پر آتے تھے تو لیٹنے سے قبل بلند آواز میں ان نظموں میں سے کوئی ایک نظم جھوم جھوم کر گایا کرتے تھے۔ اپنے مرحوم شوہر کا ذکر کرتے کرتے اماں جان کی آواز میں عجیب قسم کی حلاوت سی آگئی تھی۔
اماں جان ایک مرتبہ پھر ہمیں انیس سو سنتالیس کے دور میں واپس لے گئی تھیں۔اب وہ کہہ رہی تھیں ملک صاحب کو دینی مسائل بھی یاد تھے کیونکہ وہ مشہور عالموں کی کتابیں بھی بڑے ہی شوق اور ذوق سے پڑھا کرتے تھے۔ ان کو ہمارے گاؤں کی مسجد کے پیش امام سے کہیں زیادہ آیات، حدیثیں، اصحاب رسل کے قصص اور مسلے مسائل زبانی یاد تھے۔ ان جیسا متقی اور پرہیزگار جوان ہمارے پورے گاؤں میں ایک بھی نہ تھا۔اماں جان نے یہ بات بڑے ہی فخر سے کہی تھی اور پھر کہا تھا۔
ملک صاحب نے کہا تھا کہ اگر ابتلاء اور مصیبت کے دور میں شریعت کے احکامات پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو اس وقت ہمیں حالات کی نوعیت اور نزاکت کے تحت، عقل ودانش سے کا م لینا چاہیے اور اسی کو حکمت کہتے ہیں اور اس وقت حکمت کا تقاضہ تو یہی ہے کہ ہم اپنے عیار اور مکار دشمن کو دھوکے میں رکھیں۔ اگر ہم اپنے چالاک اور ہوشیار دشمن کو دھوکے میں نہیں رکھیں گے تو ہمارا عیار اور مکار دشمن ہمیں دھوکے اور فریب سے مار ڈالے گا۔
جب ملک صاحب یہ بات کہہ رہے تھے تب میرا دل یہ کہہ رہا تھا کہ تیراشوہر صحیح کہہ رہا ہے۔ اس لیے میں نے اور میری والدہ صاحِبہ نے اپنے گاؤں کی سبھی عورتوں سے کہا تھا کہ وہ ملک صاحب کی بات مان لیں اور اپنے حلیے بدل لیں ۔
ملک صاحب نے بچوں اور کمزوروں کو درمیان میں رکھا تھا اور پھر بچوں اور کمزوروں کے گرد جوان عورتوں کا ایک حلقہ بنایا تھا، جنہوں نے مردانہ کپڑے پہن رکھے تھے اور اپنے لمبے بالوں کو اپنی پگڑیوں کے نیچے چھپا لیا تھا۔ عورتوں کو اونچی آوازمیں بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔
مباداء جھاڑیوں یا درختوں کے پیچھے چھپا ہوا دشمن عورتوں کی آوازیں سن لے تو اس پر یہ حقیقت کھل جائے کہ اس قافلے میں جوان عورتیں اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جوان عورتوں کے گھیرے کے گرد بوڑھی مگر صحت مند عورتوں کا گھیرا تھا بوڑھی عورتیںبھی مردانہ کپڑے پہن کر مرد بنی ہوئی تھیں۔
ہمارے قافلے کے دائیں اور بائیں اطراف میں بوڑھے مردوں کی ایک ایک قطار تھی جو کہ اپنی اپنی طرف سے ہوشیار تھی، جب کہ ہمارے قافلے کے آگے دو جوان مرد تھے ایسے ہی ہمارے قافلے کے پیچھے بھی دو جوان مرد تھے جب کہ ہمارے قافلے کی قیادت ملک صاحب کر رہے تھے مگر جب وہ کسی خطرے کی بو کو محسوس کرتے تھے تو جدھر سے ان کو خطرہ محسوس ہوتا تھا تو اس وقت وہ ضرورت کے تحت قافلے کے پیچھے ، دائیں یا پھر بائیں بھی چلنا شروع کر دیتے تھے ۔ اپنے مرحوم خاوند کا ذکر کرتے ہوئے اماں جان کا لہجہ فخریہ ہو گیا تھا۔
ہمارے قافلے کے آگے والے اور پیچھے والے مردوں کے ہاتھوں میں نیزے تھے ۔جو کہ ملک صاحب نے گاؤں کے لوہار سے تیار کروا کر مہینوں پہلے ہی اپنے کھیتوں میں چھپا رکھے
تھے۔جب کہ توانامردوں کے ہاتھوں میں برچھے اور لاٹھیاں تھیں جو مرد زیادہ بوڑھے تھے انہوں نے ڈنڈے اور ٹوکے تھام رکھے تھے۔ تاکہ حملے کی صورت میں، کم از کم وہ اپنی جان کی حفاظت تو کرسکیں اور شہید ہونے سے قبل کسی نہ کسی کافر کو جہنم رسید بھی کر سکیں ۔بوڑھی عورتوں نے لکڑی کی بندوقیں اٹھا رکھی تھیں ،جن پر کالے رنگ کا کپڑا لپیٹ کر ان کو اصلی جیسا ہی بنا دیا گیا تھا۔
ہماری شادی کے فوراً بعد ہی ملک صاحب نے مجھے بندوق چلانا سکھائی تھی وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ خدیجہ بیگم ! ہم میں سے ہر مسلم کو ہتھیار بند ہونا چاہیے اور جدید ترین اسلحہ کا استعمال بھی آنا چاہیے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمیں یہ حکم دے رکھا ہے کہ ہم گھوڑے پالیں اور اپنے اسلحہ کو ہر دم تیار ی کی حالت رکھیں۔
اس دن میری بندوق چلانے کی صلاحیت کام آئی تھی۔ میں نے گن سے فائر کرکے دو سکھ مارے ہیں ۔ اماں جان نے بڑے ہی فخر سے اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
ملک صاحب کے ہاتھ میں تھری ناٹ تھری کی رائفل تھی اور میرے پاس بارہ بور کی گن تھی۔
جب دشمن ہماری رینج میں آجاتا تھا ، تب ہم لوگ نشانہ باندھ کر فائر کرتے تھے۔کیونکہ ملک صاحب مجھے اکثر یہی سمجھایا کرتے تھے کہ صرف ایک اناڑی ہی خوا مخواہ اور نشانہ باندھے بغیر فائر کرتا ہے ۔جب کہ اچھا نشانچی اور تجربہ کار شکاری صرف اس وقت فائر کرتا ہے جب شکار اس کی زد میں اور نشانے پر آجاتا ہے ۔اس طرح سے نہ تو کوئی گولی ضائع ہوتی ہے اور نہ ہی شکار بچ کر نکلنے پاتا ہے۔
اس روز قافلہ روانہ ہونے سے قبل ملک صاحب نے ایک مرتبہ پھر سے یاد دھانی کرواتے ہوئے مجھے کہا تھا کہ ان سکھ لٹیروں اور بلوہ پسندوں میں بہت سارے سابقہ فوجی بھی ہیں اگر تم نے نشانہ باندھے بغیر اور دشمن کو اپنی رینج میں لیے بغیر بلا ضرورت فائر کیا تو وہ ہوشیار اور تجربہ کار سابقہ فوجی سمجھ جائیں گے کہ ان کے مقابلے پر اناڑی اور نا تجربہ کار لوگ ہیں۔
اگر ان کو ذرّہ برابر بھی یہ احساس ہو گیا کہ ان کا مقابلہ کسی اناڑی اور نا تجربہ کار دشمن سے ہے تو پھر یوں سمجھ لو کہ وہ ڈٹ جائیں گے اور اس طرح کی صورت حال میں ہمارے بچ نکلنے کے امکانات نہیں رہیں گے ۔اس لیے تم سمجھداری تحمل مزاجی اور صبر سے کام لینا کیونکہ اللہ تعالیٰ صبر اور تحمل رکھنے والوں کی مدد ضرور بہ ضرور کرتے ہیں۔انشاءاللہ!!! فتح ہماری ہی ہوگی۔
ہمارے قافلے پر پورے سفر کے دوران دو مرتبہ حملہ ہوا تھا۔جب وہ ہماری رینج میں آجاتے تھے تب ہم فائر کرتے تھے۔ ایک تو ملک صاحب کا نشانہ بہت اچھا تھا ۔دوسرے تھری ناٹ تھری کی رینج بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے ملک صاحب نے بہت سوں کو جہنم رسید کیا تھا،
میرا اندازہ ہے کہ انہوں نے گیارہ بارہ دشمنوں کو تو لازم ختم کیا تھا۔بھاگتا ہوا دشمن جب فائر کھا کر لوٹ پوٹ ہوتا تھا تو ملک صاحب کے نعرہء تکبیر کے جواب میں باقی سبھی مردوں کے ساتھ میں بھی جوش کے عالم میں اللہ اکبر کہتی تھی تواس وقت میری آواز سب سے بلند ہوتی تھی ۔
اس سے قبل گاؤں والے اور برادری والے میری موٹی آواز کا بہت ہی مذاق اڑایا کرتے تھے مگر ملک صاحب نے ایک مرتبہ بھی میری موٹی آواز کا مذاق نہ اڑایا تھا بلکہ وہ تومیرا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ خدیجہ بیگم ! اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کوئی بھی شے یا مخلوق بے عبث پیدا نہیں کی ہے ہمارے خالق کی ہرتخلیق کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ ہجرت کے موقع پر میری موٹی اور مردانہ آواز اور جسم کا مقصد بھی ظاہر ہو ہی گیا تھا جب میں نعرے کا جواب دیتی تھی تو دشمن جتھے دار یہی سمجھتے تھے کہ میں بھی کوئی پہلوان ہوں۔
پھر اماں جان نے اطمینان کی سانس لیتے ہوئے ہمیں یہ بتایا تھا کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ
نہ تو دست بدست لڑائی کی کوئی نوبت آئی تھی اور نہ ہی ہمارے قافلے کا کوئی شخص دشمن کے ہاتھوں سے شہید ہوا تھا۔یہ سب آیت الکرسی کے ورد کا اعجاز ہے کہ ہم سبھی محفوظ و مامون پاکستان کی سرحد کے اندر پہنچ گئے تھے ،البتہ ہمارے قافلے کے ایک بوڑھے اور ضعیف شخص نے بھوک اور پیاس کے ہاتھوں شہادت کو خود ہی اپنے گلے سے لگایا تھا۔
دراصل کوچ سے قبل ملک صاحب نے ہمیں یہ بتایا تھا کہ بعض اوقات دشمن کنوؤں اور تالابوں میں زہر بھی ملا دیا کرتے ہیں اس لیے ہم راستے میں کسی بھی کنویں اور تالاب کا پانی نہیں پئیں گے ۔صرف چلتا ہوا پانی ہی استعمال کریں گے انہوں نے راستے میں خوراک کے لیے بھنے چنے اور بھنی گندم رکھ لی تھی اور گڑ بھی۔ پینے کے پانی کا خاطر خواہ انتظام نہ ہوسکا تھا کیونکہ صرف دویا
تین فوجیوں کے گھروں سے پانی کی بوتلیں مل سکی تھیں اور صرف ایک مشکیزہ۔
پھر اماں جان مجھے سمجھانے لگی تھیں کہ فوجیوں کو (دورانِ جنگ) پینے کاپانی رکھنے کی خاص قسم کی بوتلیں دی جاتی ہیں اور کینوس کا بنا ہوا مشکیزہ دیا جاتا ہے جو کہ آسانی سے اٹھایا جا سکتا ہے ۔لمبے سفر میں عام مشک بھاری ہونے کی بناءپر لیجائی نہیں جا سکتی اور نہ ہی مٹی کے گھڑے وغیرہ ۔ ہمارے قافلے کے پاس کھانے کا سامان بھی محدود ہی تھا اور پینے کا پانی بھی تھوڑا ہی تھی۔
اس لیے ملک صاحب نے ہر شخص کا راشن مقرر کر دیا تھا۔ہمارے شہید ہونے والے بزرگ پورے سفر کے دوران اپنے حصے کی خوراک اور اپنے حصے کاپانی دودھ پلانے والی عورتوں میں باری باری سے تقسیم کرتے رہے تھے اور ہمیں اپنی قربانی اور نیکی کا پتہ بھی نہیں چلنے دیا تھا۔
انہوں نے پاکستان کی سرحد سے چند میل کے فاصلے پر اپنا دم دیتے ہوئے کہا تھا ۔بیٹو !!!
پاکستان پہنچ کر یہ یاد رکھنا کہ ضلع گرداسپور میں دفن تمہارے ایک بزرگ تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کہ کب ان کے بیٹے اور پوتے آکر ان کی قبر پر فاتحہ ادا کرتے ہیں ۔ یہ تم لوگوں پر میرا قرض ہے ۔تم میرا یہ قرض ضرور بہ ضرور ادا کرنا۔اگر تم میرا قرض ادا نہ کر سکے تو میں روز قیامت اپنا حق(قرض) تم لوگوں سے زبردستی وصول کر لوں گا اتنا کہہ کر اماں جان زار و قطار رونے لگی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی کہتی جارہی تھیں کہ دیکھو اللہ سچے نے تو ہمیں پاکستان عطا کردیا ۔
مگر ہم لوگ اتنے بد نصیب ہیں کہ نہ تو ہم نے اپنے سچے رب سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا ہے اور نہ ہی اپنے بزرگوں کو دیئے ہوئے الفاظ کو عملی جامہ پہنایا ہے ۔ جب ہم نے مسلسل وعدہ خلافی کی تھی تو قیام پاکستان کے پچیس سال کے بعد اللہ نے ہم سے آدھا پاکستان چھین لیا تھا۔
آج جبکہ پاکستان کو بنے ہوئے پچاس سال ہو چکے ہیں اور ہماری تیسری نسل بھی آچکی ہے مگر ہم ایسی بد نصیب قوم ہیں کہ اب تک باقی ماندہ پاکستان میں بھی اسلامی نظام کو نافذ نہیں کرسکے ہیں مجھے تویہ خطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ان وعدہ خلافیوں اور بد عنوانیوں کی پاداش میں کہیں باقی ماندہ پاکستان بھی ہم سے نہ چھین لیں۔اتنا کہہ کر اماں جان اس طرح سے پھوٹ پھوٹ کر روئی تھیں کہ ہم سبھی کو بے اختیار رونا آ گیا تھا۔
اماں جان ہمیں بتانے لگیں (جب پاکستان بنا تھا) ان دنوں گرداسپورشہر سے سیالکوٹ شہر آدھے دن میں پہنچا جا سکتا تھا۔مگر ہمیں گردا سپور سے شکر گڑھ تک پہنچنے میں سات دن لگے تھے۔میں یہ سمجھتی ہوں کہ ہم پھر بھی جلد پہنچ گئے تھے ۔کیونکہ ہمارے قافلے کے ساتھ عورتیں بچے اور بوڑھے زیادہ تھے۔
جن میں کئی حاملہ عورتیں تھیں اور بہت سے ضعیف مرد تھے ،اوپر سے حبس تھا اور جھلسَانے والی دھوپ تھی۔اس لیے ہم لوگ تیزی سے سفر نہ کر سکتے تھے۔پھر حفا ظتی نقطہ ءنظر سے ہم لوگ نہ تو ہر راستہ اختیار کرسکتے تھے اور نہ ہی ہر مقام پر رک سکتے تھے اور یہ کہ نہ ہی ہر وقت محوِسفر رہ سکتے تھے۔
ان سات دنوں میں ہر فرد کی زبان پر کلمہ شہادت کا ورد تھا یا پھر جن کو آیت الکرسی زبانی یاد تھی وہ اس کا مسلسل ورد کر رہے تھے۔ہم لوگ تیّمم کرتے تھے اور باری باری نماز ادا کرتے تھے ۔ وہ وقت بیداری اور ہوشیاری کا وقت تھا ۔ان سات دنوں میں ہم لوگ ایک لحظے کو بھی غافل نہ ہوئے تھے۔ اگر ایک آدمی آرام کر رہا ہے یا رفع حاجت کر رہا ہے تو دو آدمی اس کی رکھوالی کر رہے ہیں۔
میں نے حیرت اور خوشی کے عالم میں اماں جان سے پوچھا تھا ۔تو اماں جان ایک سو سینتالیس میں سے ایک سو چھیالیس افراد صحیح سلامت پاکستان کی سرحد کے اندر پہنچ گئے تھے؟
ہاں بیٹا ! اور یہ سب کچھ ملک صاحب کی دانشمندی اور حکمتِ عملی کی بدولت ہوا تھا ۔اگر ان کی جگہ پر کوئی دوسرا شخص ہمارا راہنما ءہوتا تو شائد حالات کچھ اور ہی ہوتے کیونکہ اس ابتلا کے دور میں ہمارے ضلع سے بہت سارے قافلے چلے تھے۔ زیادہ تر تو اپنا راستہ بھٹک گئے تھے اور کہیں کے کہیں جا نکلے تھے اور پھر انجانے میں دشمن کے گھیرے میں آگئے تھے اور ان سینکڑوں ہزاروں لوگوںمیں سے چند ایک فرد ہی زندہ سلامت بچ سکے تھے زیادہ تر قافلے تو ایسے ہی تھے جو کہ کبھی بھی پاکستان نہ پہنچ سکے تھے۔
اکثر بد قسمت قافلوں کے سارے کے سارے افراد شہید کردیئے گئے تھے۔ کچھ ایسے قافلے بھی تھے جن قافلوں کے مر دوں نے بھاگ کر اپنی جانیں تو بچا لی تھےں اور عورتوں کا کیا بنا ؟ وہ خود بھی نہیں جانتے ۔
ہمارے علاقے سے چلنے والے قافلوں میں سے صرف ہمارا قافلہ ایسا تھا جس کے ایک بھی فرد کو کوئی بھی گزند نہ پہنچا تھا اور جس قافلے کی ایک بھی لڑکی نہ چھینی گئی ۔ورنہ بیٹا کیا بتاؤں ! ستر ہزار مسلمان لڑکی ایسی ہے جو کہ سکھوں نے واپس ہی نہیں کی۔ جو بے آبرو کر دی گئیں اورجو شہید کر دی گئیں ، ان کا حساب تو کوئی بھی نہیں جانتا۔یہ دردناک حقیقت بتاتے ہوئے اماں جان نے سرد آہ بھری تھی۔
بیٹا ہم اس لیے نہیں بھٹکے تھے کہ ملک صاحب ٹی اینڈ ٹی میں ملازم تھے ۔ان کو سائیکل چلانے کا بھی بڑا شوق تھا۔ان کو اپنے ضلع کی ہر گذرگاہ،ہر راستے ،ہرپگڈنڈی،ہرکچی اورہر پکی سڑک کا علم تھا۔ان کو اپنے ضلع کے ہر گاؤں، ہرکوٹ اورہر کٹیا کا بھی پتہ تھا۔
وہ یہ بھی جانتے تھے کہ کس گاؤں کی کل آبادی کتنی ہے؟ اس گاؤں میں سکھوں اور ہندوؤں کے کتنے گھر ہیں اور مسلمانوں کی آبادی کتنی ہے اور اس گاؤں کی کس گلی یا کس بازار میں مسجد، مندر یا گردوارہ ہے ۔ وہ تواپنے علاقے کے قبرستانوں سے بھی واقف تھے اور ان کو مرگھٹوں اور مڑھیوں کے مقامات کا بھی پتہ تھا۔ وہ نہروں ، کھالوں اور موگوں کا علم بھی رکھتے تھے اوران کو پلوں کا بھی پتہ تھا بلکہ وہ تو یہ بھی جانتے تھے کہ کس نہر یا کھال کو کس مقام سے کسی کی نظروں سے بچ کر اور ڈوبے بغیر پار کیا جاسکتا ہے۔
ریلوے لائن پر کتنے سٹیشن ہیں اور ڈاک بنگلے اور ریسٹ ہاؤس کس کس مقام پر واقع ہیں ۔وہ تو گھاٹیوں ،کھایوں ،اونچائیوں اور نیچائیوں سے بھی بڑی اچھی طرح سے واقف تھے ۔ کنویں تالاب اور کھڑے پانی کے جوہڑ بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہ تھے۔ ملک صاحب کو شرارتی اور فریبی ہندوؤں سے اچھی طرح سے آگاہی حاصل تھی اوران کومتعصب سکھوں کی حویلیوں کا حدوداربعہ بھی یاد تھا۔
وہ سڑکوں ،نہروں اور ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ لگے درختوں کی تعداد سے بھی واقف تھے یہاں تک کہ کھالوں نہروں اور دریا کے کنارے اگے سرکنڈوں اور جھاڑیوں کے جھنڈوں سے بھی ان کی آشنائی تھی۔بیٹا ! ان کی نظر سے تو ان کے علاقے کی کوئی بھی چیز اوجھل نہ تھی وہ تو اپنی آنکھیں بند کرکے صرف ہاتھ سے چھو کر اور سونگھ کر یہ بتا سکتے تھے کہ وہ کس دیوار کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں یا اس مقام سے گاؤں کے چوہدری کا مکان کتنی دور ہے؟
اگر ملک صاحب ہمارے قافلے کے قائد نہ ہوتے تو میں اس وقت یہاں پر بیٹھی ہوئی ،تمہیں اپنی داستان نہ سنا رہی ہوتی۔ یا تو قتل ہو کر مٹی بن چکی ہوتی یا پھر کسی سکھ کے بچوں کو جنم دینے کے بعد اسی سکھ کے پوتوں کو پال رہی ہوتی۔یہ بات کہتے کہتے اماں جان کا چہرہ پتھرا سا گیا تھا۔
اماں جان کی والدہ (نانی اماں)جو کہ بہت ہی کم گو ہیں اور زیادہ تر تسبیحات میں مگن رہتی ہیں اس پوری گفتگو میں پہلی مرتبہ گویا ہوئی تھیں۔کہنے لگیں۔جب گاؤں والے معراج پتّر سے اختلاف کرکے ہم سے علیحدٰہ ہونے لگے تھے تو میں نے ایک ایک کی منّت اور ایک ایک سے ترلا کیا تھا کہ معراج پتّر کی بات مان لو ۔
اس لیے نہیں کہ وہ میرا جوائی ہے بلکہ اس لیے کہ وہ ست پنڈوں میں سب سے سیانا منڈا ہے۔میرے مرحوم شوہر کہا کرتے تھے کہ وہ گھرانہ خوش نصیب ہو گا جس گھرانے کا جوائی معراج الدین بنے گا۔پھر ٹھنڈی سانس بھر کر نانی جان کہنے لگیں ۔افسوس کہ انہوں نے میری ایک نہ مانی تھی ۔سبھی مرد اپنی زندگیاںبے مقصد گنوا بیٹھے تھے اور ان کے ساتھ جو لڑکیاں اور عورتیں تھیں ان بے چاریوں کا کیا بنا ؟؟
پھر وہ کہنے لگیں ۔مجھے ان کے مرنے کا افسوس نہیں ہے ۔مجھے افسوس تو ان کی بے عقلی پر ہے انہوں نے جانیں بھی گنوائیں اور عزتیں بھی لٹوائیں ۔جو لوگ اور قومیں آنے والے برے اور بھلے وقت کی تیاری نہ کریں ان کے مرنے پر افسوس نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کی کم عقلی پر ماتم کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے عقل استعمال کرنے کے لیے دی ہے نہ کہ کسی کجے( کوزہ) میں ڈال کر رکھنے کو۔ یہ فقرہ کہتے ہوئے نانی جان نہایت غصے کے عالم میں تھیں۔
پھروہ مجھے مخاطب کرکے کہنے لگیں ۔ دیکھ پتّر ! ایک تو میری پنج جوان جہان کڑیاں تھیں ،اوپر سے میں بیوہ ،پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ میرا کلّم کلّا نابالغ منڈا۔پھر بھی میں صحیح سلامت اپنی نقدی اور زیورات سمیت پاکستان پہنچ گئی ۔ اب اگر میں معراج پتّر کی صفت نہ کروں تو کس کی کروں؟؟؟
نانی اماں نے یہ بھی بتایا تھا ۔
پتّر !! جب پاکستان بنا تھا اور لوگ باگ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے تھے تو بہت سے مہاجر کئی کئی مہینوں تک کیمپوں میں رہے تھے جب کہ اکثر مہاجروں کے برعکس ہم لوگ سیالکوٹ پہنچتے ہی کرایہ کا مکان لے کر رہنے لگے تھے۔ صرف ہمارا گھرانہ ہی نہیں ۔ ہمارے قافلے کے ساتھ جتنے بھی لوگ پاکستان پہنچے تھے کسی ایک مہاجر کوبھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی۔
سبھی قافلے والوں کوہفتے عشرے میں کوئی نہ کوئی ٹھکانہ میسر آگیا تھا۔شکر الحمدللہ! اور بہت بہت شکریہ پتّر معراج الدین کا، کہ اس کی حکمت اور سیانت ہمارے کام آئی ۔
اللہ نے اسے عقل دی،،، اس نے تیاری کی اس نے تدبیر کی اور اللہ نے تحفظ دیا ۔
یہ کہہ کر نانی اماں جلالی کیفیت میں تسبیح کرنے لگی تھیں۔
الحمد للہ !! الحمد للہ !! الحمد للہ !!۔۔
الحمد للہ !! الحمد للہ !! الحمد للہ !!۔۔ الحمد للہ !! الحمد للہ !! الحمد للہ !! ۔۔
14۔اگست۔2008ء
(اماں جان اور نانی جان کی زبانی یہ سچا واقعہ میں نے چودہ اگست انیس سو ستانوے کو سنا تھا اس وقت اماں جان کی گود میں ان کا ایک سالہ پوتا معراج الدین لیٹا ہواتھا۔اگر اللہ کریم نے توفیق دی تو ملک معراج الدین شہید کی شہادت کا واقعہ بھی تحریر کروں گا:: انشااللہ تعالیٰ)
ابن الملک
اسی عنوان یا لکھاری سے مزید
ڈاکٹر عصمت حیات علوی
Subscribe to:
Posts (Atom)