بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ہ
اگر قیام پاکستان کے وقت حکومت پاکستان کے وزیر اور مشیر دانش مند ہوتے تو ڈھاکہ میں قومی زبان کے مسلے پر ہنگامہ نہ ہوتا۔غالباً رائے دینے والوں نے قائداعظم محمد علی جناح کو گمراہ کن اعداد و شمار دیے تھے، تبھی تو بنگلہ اور اردو کا جھگڑا کھڑا ہو گیا تھا ۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ قائداعظم کواصل حقائق سے مکمل طور پر لاعلم ہی رکھا گیا تھا ورنہ وہ جمہور پسند رہنما اکثریت کے جذبات کا ضرور بہ ضرور احترام کرتا اس کی بنیادی وجہِ یہ تھی کہ قائد اعظم کی خاندانی زبان گجراتی تھی اور سپوکن لیگویج انگلش تھی۔
انہوں نے اردو بھی محض اسی خیال کے تحت سیکھنے کی کوشش کی تھی ،کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ برصغیر کے تمام کے تمام مسلم عوام اردو ہی بولتے ہیں۔اگر ان کے ذہن میں ذرا سا بھی شبہ ہوتا تو وہ بنگالی عوام پر کسی ایک طبقے کی یا کسی فرد واحد کی مرضی یا فیصلہ ٹھونسنے کی کبھی بھی کوشش نہ کرتے۔
اگر اس ابتدائی دور میں دوراندیش ،معاملہ فہم ،حقائق پسنداور با اصول وزیر، مشیر ہماری مرکزی حکومت اور قیادت کا حصہ ہوتے تو بنگالی قوم پرست ناراض نہ ہوتے اورپھر دلوں میں نفرت اس قدر نہ بڑھتی کہ بھائی ہی بھائی کا جانی دشمن بن جاتا ،بلکہ ہماری قومی اور سرکاری زبان کا مسلہ بھی ان ہی ایام میں بخوبی حل ہوتا، پھر ہمارے مسائل اور آپس کی رنجشیں اتنی نہ بڑھتیں کہ انجام کار میں بنگلہ دیش بنانے کی نوبت آتی۔
جب ہماری اجتماعی نااہلیوں اور نا سمجھیوں کی بدولت ہمارے بنگالی بولنے والے بھائی ہم سے علیحدہ ہوگئے تھے اور بنگلہ دیش بن گیا تھا، تب باقی ماندہ پاکستان کو تو اردو کی سیادت اور قیادت پر متفق نظر آنا چاہیے تھا۔ کیونکہ بظاہر تو اس خطہ میں اردو کی پذیرائی ایسے ہی کی جاتی تھی جیسے کہ یہ زبان سبھی کو قبول ہے۔
مگر یہاں پر بھی مسلہ کہیں نہ کہیں چھپا ہوا تھا، اس لئے نظروں سے اوجھل تھا ۔وہ تو اس وقت سامنے آیا تھا ،جب سندھی قوم پرستوں نے ممتاز علی بھٹو کی قیادت میں سندھی زبان کو صوبہ سندھ کی سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
میں ذاتی طور پر نہ تو سندھی زبان کی ترویج، ترقی یا اس کے نفاذ کے خلاف ہوں اور نہ ہی اس فعل پر ممتاز علی بھٹو کو وطن کا غدار قرار دیتا ہوں کیونکہ اپنی مادری اور علاقائی زبان کی حفاظت کرنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور یہ حق ہمیں ہمارے متفقہ آئین نے دیا ہے ۔اسی آئین کے تحت دیے گئے حق کے تحت میں یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ ممتاز علی بھٹو کے دوروزارت اعلیٰ کے دوران جتنے انسانوں کا قتل ہوا، جتنی جائد ادیں لوٹی، چھینی اور جلائی گئیں،جتنی لڑکیوں اور عورتوں کو اغواءکیا گیایا ان کی عزتیں لوٹی گئیں یا کوئی اور خلاف قانون بلوے ہوئے تھے ،سب کی غیر جانب دارانہ اور کھلی تحقیقات ہونی چاہئیں اور تمام مجرموں کو سزا بھی دی جانی چاہئے، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے پائے۔
اسی طرح سے میں اس مطالبہ کی بھی حمایت کرتا ہوں کہ قیام بنگلہ دیش سے قبل ،مشرقی پاکستان میں جتنے بھی بنگالی اور غیر بنگالی ناحق قتل کئے گئے تھے اور جن جن عورتوں کی آبروریزی کی گئی تھی ۔ان سب کو انصاف دینے کے لئے سارے کے سارے حقائق کو سامنے لایا جائے اورمجرموں کو قرار واقعی سزا بھی دی جائے ،خواہ اس کے لئے مرے ہوئے لوگوں کے خلاف مقدمات چلانے کی ضرورت پڑے اور بعد میں ان کی قبروں پر ان کو دی گئی سزاﺅں کے کتبے گاڑے جائیں، تاکہ ہمارے ملک میں انصاف مہیا کرنے کی روایت قائم ہو۔انصاف ہونا چاہئے جلد یا بدیر!کیونکہ دین اسلام ہمیں انصاف اور عدل قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔
چونکہ اسلام میّت کی حرمت کا بھی حکم دیتا ہے اس لئے ان تاریخ کے مجرموں کی قبروں کو قطعاً نہ چھیڑا جائے۔
سچ تو یہ ہے کہ اردو زبان کو قومی زبان قرار دینے کے خلاف مزاحمت اور نفرت آج بھی موجود ہے۔کیونکہ نواب محمد اکبر بگٹی نے اپنی زندگی کے اختتامی سالوں میں اردو کی بجائے پنجابی زبان میں گفتگو کرنے کو ترجیح دی تھی۔ آپ کہیں گے کہ وہ تو غدار تھا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ان فوجی جرنیلوں کا غدار وطن کا اپنا ہی ذاتی معیار ہے ۔میں تو ان پر بالکل ہی ٹرسٹ نہیں کرتا ۔ ان ظالموں نے تو فوج اور پاکستان کو اپنے ذاتی، گروہی اور مذہبی مفادات کے لئے اس بری طرح سے استعمال کیا ہے کہ دونوں کی اصلی شکلیں بگڑ کر بھیانک بن گئیں ہیں۔
پاکستان کی موجودہ بگڑی ہوئی امن و امان کی صورت حال اور تباہ شدہ اقتصادیات کے اصل ذمہ دار یہ جرنیل ہی تو ہیں جنہوں نے پاکستان کی نصف عمر ضائع کردی اور قوم کو نصف در نصف کر دیا ہے ۔جب کہ ہم اتنے احمق ہیں کہ اگر کسی جمہوری حکمران نے کوئی سختی کی تو بیلٹ بکس اورالیکشن کے عمل کے ذریعے سے اس کو ہٹانے کی بجائے فوجی جرنل کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔
پھرجب فوجی آتا ہے تو وہ جاتا ہی نہیں ،کیونکہ وہ کونسا ہم عوام کے ذریعے سے آیا تھا ، کہ اب ہم سے پوچھ کر جائے گا۔اب اگر ہم نے ایک برے سیاست دان سے پانچ برس کے بعد جان چھڑا لینی تھی، تواس سے بھی کہیں برے جرنل سے دس برس بعد بھی چھوٹ جائے تو غنیمت ہے۔پھر جنرل جاتے جاتے ملک کو اور بھی تقسیم کر جائے گایا کسی نہ کسی پاکستانی کو غدار کا خطاب دے جائے گا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ جنرل ایوب نے پہلے مولانا مودودی جیسے جید عالم اور سیاسی رہنما کو غدار قرار دیا تھا اور پھر شیخ مجیب الرحمٰن کو۔
یہ وہی مجیب الرحمٰن ہے جو کہ قائد اعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناح ؒکے بعد بنگالی عوام کا مقبول لیڈر رہا ہے اور ہمارے ملک کے فوجی حکمران تو مقبول عوامی لیڈروں کو ہمیشہ سے ہی اپنے راستے کا کانٹا سمجھتے رہے ہیں۔
پاکستان اس روئے ارض کا واحد ملک ہے جس میں سب سے زیادہ کلمہ گو انسانوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اور سب سے زیادہ مقبول عوامی رہنماﺅں کو غدار وطن کا تمغہ دیا گیا ہے۔ اگر ان فوجی حکمرانوں کے بس میں ہوتا تو وہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ مرحوم صاحب کو بھی غدار قرار دے ہی دیتے۔
اس لئے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ان دونوں الفاظ کے استعمال پر پابندی عائد کر دینی چاہئے۔
اگر کسی شخص کے ’ایمان‘ پر شک و شبہ ہے تو اسلام کے تمام سکول آف تھاٹ کے جید علماءپر مشتمل بورڈ اس متعلقہ شخص کے عقیدے اور سوچ کی مکمل تحقیق کرے اور اس کے ایمان کے متعلق فیصلہ صادر کرے اور اگر کسی شخص کی ’وطنی محبت ‘پر شک ہے تو اس شخص پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہئے۔ پانچ ججز پر مشتمل پینل ہو ۔ جن میں سے ایک بین الاقوامی قانون دان ہو،دوسرا تمام فقہوں کا سکالرہو، باقی کے تین سپریم کورٹ کے مستقل ججز ہوں۔ ( تاکہ حکمران ، عارضی ججوں کو بلیک میل نہ کر سکے۔)
ان با عزت اداروں کے علاوہ کسی بھی شخص یا کسی دوسری اتھارٹی کو یہ حق حاصل نہ ہو کہ کسی فرد،ادارے، گروہ ،جماعت یا کسی مکتب فکر کو کافر یا غدار قرار دے سکے ۔اگر کوئی شخص یا حکمران ان معتبر اداروں سے بالا ہی بالااپنی من مانی کرے تو اس کے خلاف نقص امن کا مقدمہ بھی چلنا چاہئے اور جس شخص،ادارے ،گروہ جماعت یا مکتب فکر کی بدنامی ہوئی ہے ، اسے ازالہ حیثیت عرفی( ہتک عزت )کا دعویٰ دائر کرنے اور حرجانہ وصول کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم پاکستانیوں نے اس اہم ایشوکے بارے میں بروقت ،صحیح سمت میں اقدامات نہ اٹھائے تو ایک دن ایسابھی آسکتا ہے کہ لوگ کسی بھی مسلم کوکافر اور کسی بھی محب وطن کو غدار کہتے پھریں گے اور پھر ان لفظوں کی آڑ لے کر اپنی ذاتی دشمنیاں نکالتے پھریں گے۔جس کی وجہِ سے پاکستان میں انارکی کی سی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔
اگر ہم نے نوکر شاہی کی بات مان کر قومی زبان کے بارے میں بے لچک رویہ اپنایا تو ایک مرتبہ پھر سے لسانی،نسلی اور گروہی فسادات ہوسکتے ہیں اور اس وقت تو پاکستان میں خانہ جنگی کا یقینی خطرہ یقیناًموجود ہے ۔ سابقہ مشرقی پاکستان اور صوبہ سندھ میں لسانی فسادات اور قتل عام کا عملی مظاہرہ ہم پاکستانی دو مرتبہ تو دیکھ چکے ہیںجن میں سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، اب اس برے عمل کا اعادہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔
اگر ہم نے مشترکہ قومی زبان کے نازک اور حساس مسلے کو ماضی کی طرح سے افسر شاہی کی عینک سے دیکھا اور پھر سے پرانے اور بے کار ہتھکنڈے آزمائے، تو نفرت کے رکے ہوئے جذبات کا ریلہ اس شدت سے بہہ نکلے گا کہ ایک مرتبہ پھر سے ہمارا دشمن ہماری اندرونی کمزوریوںسے فائدہ اٹھائے گا اورہم دیکھتے ہی رہ جائیں گے ۔ ہمیں ایک اور ڈھاکہ فال سے قبل ہی عقل کے ناخن لینے چاہییں۔ بجائے اس کے کہ ہم دس سال کے بعد ٹیبل پر بیٹھ کر ہتھیار ڈالنے کے کاغذات پر دستخط کر رہے ہوں ۔
افہام وتفہیم کا جذبہ لے کر مسلے کے تمام فر یقوں کو مل کر بیٹھنا چاہئے اور آج ہی کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کی بنیاد پر ،کسی ایک متفقہ فیصلہ پر پہنچ جانا چاہیے کیونکہ پہلے ہی بہت ہی زیادہ دیر ہوچکی ہے ۔قوموں کی ترقی کی دوڑ میں ہم روز بہ روز پیچھے ہی رہتے جا رہے ہیں ۔اگر ہم نے جلد ہی کوئی مثبت فیصلہ نہ کیا تو کسی دشمن کو آکر اور بم برسا کر ہمیں پتھر کے دور میں پہنچانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی بلکہ اپنی بدعقلی(میں نے کم عقلی نہیں لکھا)کی بدولت ہم خود ہی پتھروں کے عہد میں پہنچ جائیں گے۔ (اللہ قادر مطلق نہ کرے کہ ایسا برا ہو یا ایسا برا دن بھی ہماری قوم پر آئے ۔آمین !!)
مشترکہ اور متفقہ قومی زبان کونسی ہو نی چاہیے؟ اس پر بہت ساری آراءہو سکتی ہیں ۔میری رائے میں عربی زبان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں ،جن کی بناءپر نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے تمام غیر عرب مسلم ممالک بھی عربی زبان کو اپنی واحد یاپھر دوسری ،تیسری سرکاری زبان کے طور پر اپنا سکتے ہیں۔
یہ میری ذاتی تجویز ہے ۔اس پر سوچا جا سکتا ہے اور بحث بھی کی جا سکتی ہے ۔آخَر ہم نے وفاق پاکستان بچانا ہے جو کہ ہم نے صدیوں کی جدوجہد اورلاکھوں ایمان والوں کی قربانی دے کر حاصل کیا ہے۔اس عظیم نعمت کو چند عشروں میں صرف زبان کے مسلے پر ضد بازی میں گنوانا دانش مندی نہیں ہے۔اگر ہم نے ضدبازی اور اناء کی جھوٹی جنگ میں یہ عظیم خطہ کھو دیا تو ذرا یہ سوچیں کہ آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں کن کن برے ناموں سے یاد کیا کرینگی؟
صوبائی سطح پر ہر صوبے کی اسمبلی اپنے صوبے کی زبان کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار رکھتی ہے۔مگر مسلہ یہ ہے کہ پاکستان کے تمام صوبے غیر فطری طور پر بہت بڑے ہیں،کوئی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے کئی ممالک سے بڑا ہے ،تو کوئی اتنا رقبہ رکھتا ہے کہ اس میں یورپ کے کئی ملک سما جائیں،پھر ہر صوبے میں ایک سے زیادہ مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں ۔اس طرح سے ہر لسانی گروہ اپنی زبان کا نفاذ چاہے گا جو کہ ہر ایک پاکستانی کا پیدائشی اور بنیادی حق ہے اور کسی ایک اکثریت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسری اقلیت کا حق دبائے۔
اس لئے پاکستان کے تمام صوبوں کو فطری اور انتظامی بنیادوں پر آبادی کے مفاد میں چھوٹا کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ ہمیں اس بارے میں بھی غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ عوام الناس کی بھلائی کس طرح سے کی جا سکتی ہے؟
اورکس طرح سے عوام الناس کو انتظامی محکموں سے متعلق سہولتیں انکے گھر کی دہلیز پر دی جا سکتی ہیں؟ اس وقت تو زیر گفتگو مسلہ مشترکہ قومی زبان کا ہے۔اس میں بھی عوام الناس کی بھلائی ہی پیش نظر رکھی جانی چاہئے۔میرا ذاتی خیال ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس مسلے کو حل نہیں کیا جا سکتا ،کیونکہ آبادی کے لحاظ سے چھوٹے صوبے پھر سے وہی شکایت کریں گے، کہ پنجاب اپنی واحد اکثریت کی بناءپر ہم پر ایک ایسی زبان ٹھونس رہا ہے ،جو کہ اس کی اپنی زبان نہیں ہے۔
ویسے ان کی شکایت بجا بھی ہے ،کیونکہ پنجاب والے بہت سارے معاملات میں حقیقت پسندانہ سوچ نہیں رکھتے۔جیسے کہ باقی صوبوں کے عوام اور خود پنجاب کے جنوبی ڈویژن اپنی زبان اور ثقافت کے بارے میں خا صے حساس ہیں ، جبکہ وسطی پنجاب کے علاقے کے عوام ان سے مختلف سوچ رکھتے ہیں۔اسی لئے انہوں نے اپنی تہذیب اور زبان کی سرپرستی کرنے کی بجائے دوسروں کی تہذیب اور زبان کوگلے سے لگا لیا ہے۔ اردو کی جذباتی سرپرستی اس سوچ کا نتیجہ ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے ،اس عمل کے نتیجے میںپنجابیوں نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی اپنی مادر ی زبانوں کو اتنی بے رحمی سے نظر انداز کیا ہوا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت ساری علاقائی زبانیں مر رہی ہیں۔
اگر میں کہوں کہ اب تو اردو زبان بھی مر رہی ہے تو کیا آپ یقین کریں گے ؟
جی ہاں! اردو زبان دنیا کی ان زبانوں میں سے ایک ہے ، جس کے بولنے والے افراد کی تعداد میں بظاہر تو اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ مگر دنیا کی کل آبادی کے مقابلے میں اردو بولنے والوں کی اوسط کم ہو رہی ہے۔اس کی دو وجوہات ہیں۔
پہلی تو یہ ہے کہ اردو بولنے والے پنجابی متوسط طبقے کے لوگوں نے ایلیٹ کلاس کی نقل میں انگلش لیگویج کی سرپرستی شروع کر دی ہے، دوسری یہ ہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں اور صوبوں سے جو پاکستانی بیرون ملک سیٹل ہو رہے ہیں وہ خود تو بے شک اردو پڑھ لکھ سکتے ہیں،مگر ان کی دوسری نسلیں اردو یا اپنی مادری زبانیں بول تو سکتی ہیں ،مگر پڑھ یا لکھ نہیں سکتیں تیسری نسل یاچوتھی نسل ملی جلی زبانیں بولتی ہیں اور اگر وہ تعلیم یافتہ ہیں تو پھر اپنے بڑوں کی زبانوں سے تقریباً نا آشنا ہی ہیں اگر یہی صورت حال جاری رہی تو ایک دن اردو زبان بھی پنجابی کی طرح سے صرف مشاعروں، ڈراموں اورفلموں کی حد تک ہی محدود ہوجائی گی یا پھریار لوگ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے کبھی کبھاربھانڈوں سے فرمائش کیا کریں گے کہ پیا جی۔ اردو میں کوئی چٹکلہ ہی سنا دو۔
اس وقت جو زبانیں دنیا میں پھیل رہی ہیں ان میں انگلش تو سر فہرست ہی ہے ،مگر ساتھ ہی ساتھ عربی، سپینیش، فرینچ اور مندرین (چین کی مرکزی سرکاری زبان) بولنے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ۔اگر کسی ملک نے ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہنا ہے ،تو اسے اپنی قومی اور سرکاری زبان کے ساتھ ساتھ ا ن زبانوںمیں سے کسی ایک یا دو زبانوں کو اپنانا ہی پڑے گا۔جیسے کہ چین والے انگلش کو اپنا رہے ہیں ۔جبکہ امریکہ میں انگلش کے ساتھ ساتھ سپینیش زبان بھی استعمال ہوتی ہے۔
پاکستان اگر صرف اردو کو ہی سرکاری زبان قرار دے دے، تو ہمیں بین الاقوامی سطح پر رابطے کے لئے اوپر بیان کی گئی، کسی ایک زبان کو لازمی اپنانا ہی پڑے گا اور اگر ہم اب بھی انگلش کی جگہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کی جنگ بدستور جاری رکھیں گے تو اندرون ملک زبانوں کی موجودہ جنگ بھی بدستورجاری ہی رہے گی اورپھر اردو کے ساتھ ساتھ ہمار ی ما دری، علاقائی ،مقامی اور قبائلی بولیاں بھی معدوم ہوتی چلی جائیں گی۔
ایک آپشن اور بھی ہے ۔وہ یہ کہ ہم صرف انگلش زبان کواپنی سرکاری زبان کے طور پر اپنا نے کا فیصلہ کر لیں ؟
بے شک انگلش موجودہ دور کی سب سے موثر بین الاقوامی زبان ہے، مگر اس کا مزاج،تہذیب اورثقافت ایسی ہے کہ ایک مسلم قوم اسے ایک زبان کے طور پر تو سیکھ سکتی ہے مگر قومی یا سرکاری زبان کے طور پر اپنا نہیں سکتی۔کیو نکہ جو بھی ملک اسے اپنا رہے ہیں۔ وہاں کے لوگ غیر شعوری طور پر انگلش اور امریکن ثقافت بھی اپنائے جا رہے۔
دوسرے ممالک کی تو خیر ہے ان کو کوئی بھی فرق نہیں پڑتا ،کیونکہ ان کو تو مادی ترقی سے مطلب ہے۔مگر ہمیں فرق پڑتا ہے۔کیونکہ ہم مسلم ہیں اور ہمارا دین اسلام ہے۔ اگر ہم لوگ ماضی کی طرح سے انگلش کو بدستوراپنائے رکھیں گے توہماری روایات ،تہذیب،ثقافت اوررسم ورواج تباہ وبرباد ہوتے رہیں گے۔
کیا ہم صرف مادی ترقی کی خا طر اپنی روایات ،تہذیب ،ثقافت اور رسم ورواج کو تباہ وبرباد ہوتے دیکھتے رہیں گے ؟
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہم اپنے دین اور اس سے وابستہ اقدار کو خیر آباد کہہ سکتے ہیں؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی قوم،، کسی دوسری قوم کی زبان کو اپنی مرضی سے اپناتی ہے یاپھرکوئی اجنبی زبان اس پر زبردستی مسلط کر دی جاتی ہے تو وہ قوم اس اجنبی زبان سے وابستہ بہت ساری روایات اور اصطلاحات کوغیر شعوری طور پر اپنا ہی لیا کرتی ہے۔جو کہ اس کے اپنے مزاج اور مذاق سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں۔جیسے کہ ہندی زبان میں سلام،عید اور طلاق کے خالص اسلامی الفاظ کو ہندو اپنی روز مرّہ کی زبان میں استعمال کرتے ہیں حالانکہ یہ خالص عربی زبان کے الفاظ ہیں، ان کا نہ توہندو تہذیب روایات اور مذہب سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی عربوں کی آمد سے قبل ان الفاظ کا سنسکرت زبان میں کوئی وجودتھا۔
بلکہ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ الفاظ ہندومذہب کی تعلیمات کی ضد اور الٹ ہیں،مگر پھر بھی کثیر ہندو آبادی اسے استعمال کرنے پر مجبور ہے۔کیونکہ یہ الفاظ ہندی میں فارسی سے آئے ہیں ،جو کہ مسلم حکمرانوں کے دور حکومت میں ہند کی سرکاری زبان تھی۔اب آپ خود ہی سوچیں کہ اگر عربی زبان ہند کی سرکاری زبان ہوتی تو ہندی میں کتنے فیصد سنسکرت باقی رہ جانی تھی؟
اسی ڈر سے تو جواہر لال نہرو نے ہندی کے لئے سنسکرت رسم الخط اپنانے کا فیصلہ کیا تھا کہ رہی سہی ہندی ہی بچا لی جائے ۔ یاد رہے کہ وہ بھارت کا پہلا وزیر اعظم تھا۔
بہت ساری خوبیوں کے علاوہ عر بی زبان میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ہماری دینی زبان بھی ہے ۔ہماری مقدس کتاب قرآن مجید اسی زبان میں نازل ہوئی ہے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کی احادیث بھی اسی زبان میں ہیں ۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان میں بولی جانے والی ساری کی ساری زبانیں اور بولیاں عربی زبان سے ہی نکلی ہیں اور صرف عربی ہی ان کی حفاظت کر سکتی ہے اور ان کو پروان بھی چڑھا سکتی ہے۔
تو کیوں نہ ہم عربی کو بطور سرکاری زبان اپنا لیں ؟؟؟
کیونکہ ہمارا بد ترین دشمن عربی زبان سے بری طرح سے گھبراتا ہے ۔سوچیں کہ اگر یہ زبان اس کی سرحد تک آگئی تو ڈر کے مارے اس کا کیا حال ہوگا؟؟؟
خادم الاسلام والمسلمین ڈاکٹر عصمت حیات علوی 30 جون 2009ء
اگر قیام پاکستان کے وقت حکومت پاکستان کے وزیر اور مشیر دانش مند ہوتے تو ڈھاکہ میں قومی زبان کے مسلے پر ہنگامہ نہ ہوتا۔غالباً رائے دینے والوں نے قائداعظم محمد علی جناح کو گمراہ کن اعداد و شمار دیے تھے، تبھی تو بنگلہ اور اردو کا جھگڑا کھڑا ہو گیا تھا ۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ قائداعظم کواصل حقائق سے مکمل طور پر لاعلم ہی رکھا گیا تھا ورنہ وہ جمہور پسند رہنما اکثریت کے جذبات کا ضرور بہ ضرور احترام کرتا اس کی بنیادی وجہِ یہ تھی کہ قائد اعظم کی خاندانی زبان گجراتی تھی اور سپوکن لیگویج انگلش تھی۔
انہوں نے اردو بھی محض اسی خیال کے تحت سیکھنے کی کوشش کی تھی ،کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ برصغیر کے تمام کے تمام مسلم عوام اردو ہی بولتے ہیں۔اگر ان کے ذہن میں ذرا سا بھی شبہ ہوتا تو وہ بنگالی عوام پر کسی ایک طبقے کی یا کسی فرد واحد کی مرضی یا فیصلہ ٹھونسنے کی کبھی بھی کوشش نہ کرتے۔
اگر اس ابتدائی دور میں دوراندیش ،معاملہ فہم ،حقائق پسنداور با اصول وزیر، مشیر ہماری مرکزی حکومت اور قیادت کا حصہ ہوتے تو بنگالی قوم پرست ناراض نہ ہوتے اورپھر دلوں میں نفرت اس قدر نہ بڑھتی کہ بھائی ہی بھائی کا جانی دشمن بن جاتا ،بلکہ ہماری قومی اور سرکاری زبان کا مسلہ بھی ان ہی ایام میں بخوبی حل ہوتا، پھر ہمارے مسائل اور آپس کی رنجشیں اتنی نہ بڑھتیں کہ انجام کار میں بنگلہ دیش بنانے کی نوبت آتی۔
جب ہماری اجتماعی نااہلیوں اور نا سمجھیوں کی بدولت ہمارے بنگالی بولنے والے بھائی ہم سے علیحدہ ہوگئے تھے اور بنگلہ دیش بن گیا تھا، تب باقی ماندہ پاکستان کو تو اردو کی سیادت اور قیادت پر متفق نظر آنا چاہیے تھا۔ کیونکہ بظاہر تو اس خطہ میں اردو کی پذیرائی ایسے ہی کی جاتی تھی جیسے کہ یہ زبان سبھی کو قبول ہے۔
مگر یہاں پر بھی مسلہ کہیں نہ کہیں چھپا ہوا تھا، اس لئے نظروں سے اوجھل تھا ۔وہ تو اس وقت سامنے آیا تھا ،جب سندھی قوم پرستوں نے ممتاز علی بھٹو کی قیادت میں سندھی زبان کو صوبہ سندھ کی سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
میں ذاتی طور پر نہ تو سندھی زبان کی ترویج، ترقی یا اس کے نفاذ کے خلاف ہوں اور نہ ہی اس فعل پر ممتاز علی بھٹو کو وطن کا غدار قرار دیتا ہوں کیونکہ اپنی مادری اور علاقائی زبان کی حفاظت کرنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور یہ حق ہمیں ہمارے متفقہ آئین نے دیا ہے ۔اسی آئین کے تحت دیے گئے حق کے تحت میں یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ ممتاز علی بھٹو کے دوروزارت اعلیٰ کے دوران جتنے انسانوں کا قتل ہوا، جتنی جائد ادیں لوٹی، چھینی اور جلائی گئیں،جتنی لڑکیوں اور عورتوں کو اغواءکیا گیایا ان کی عزتیں لوٹی گئیں یا کوئی اور خلاف قانون بلوے ہوئے تھے ،سب کی غیر جانب دارانہ اور کھلی تحقیقات ہونی چاہئیں اور تمام مجرموں کو سزا بھی دی جانی چاہئے، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے پائے۔
اسی طرح سے میں اس مطالبہ کی بھی حمایت کرتا ہوں کہ قیام بنگلہ دیش سے قبل ،مشرقی پاکستان میں جتنے بھی بنگالی اور غیر بنگالی ناحق قتل کئے گئے تھے اور جن جن عورتوں کی آبروریزی کی گئی تھی ۔ان سب کو انصاف دینے کے لئے سارے کے سارے حقائق کو سامنے لایا جائے اورمجرموں کو قرار واقعی سزا بھی دی جائے ،خواہ اس کے لئے مرے ہوئے لوگوں کے خلاف مقدمات چلانے کی ضرورت پڑے اور بعد میں ان کی قبروں پر ان کو دی گئی سزاﺅں کے کتبے گاڑے جائیں، تاکہ ہمارے ملک میں انصاف مہیا کرنے کی روایت قائم ہو۔انصاف ہونا چاہئے جلد یا بدیر!کیونکہ دین اسلام ہمیں انصاف اور عدل قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔
چونکہ اسلام میّت کی حرمت کا بھی حکم دیتا ہے اس لئے ان تاریخ کے مجرموں کی قبروں کو قطعاً نہ چھیڑا جائے۔
سچ تو یہ ہے کہ اردو زبان کو قومی زبان قرار دینے کے خلاف مزاحمت اور نفرت آج بھی موجود ہے۔کیونکہ نواب محمد اکبر بگٹی نے اپنی زندگی کے اختتامی سالوں میں اردو کی بجائے پنجابی زبان میں گفتگو کرنے کو ترجیح دی تھی۔ آپ کہیں گے کہ وہ تو غدار تھا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ان فوجی جرنیلوں کا غدار وطن کا اپنا ہی ذاتی معیار ہے ۔میں تو ان پر بالکل ہی ٹرسٹ نہیں کرتا ۔ ان ظالموں نے تو فوج اور پاکستان کو اپنے ذاتی، گروہی اور مذہبی مفادات کے لئے اس بری طرح سے استعمال کیا ہے کہ دونوں کی اصلی شکلیں بگڑ کر بھیانک بن گئیں ہیں۔
پاکستان کی موجودہ بگڑی ہوئی امن و امان کی صورت حال اور تباہ شدہ اقتصادیات کے اصل ذمہ دار یہ جرنیل ہی تو ہیں جنہوں نے پاکستان کی نصف عمر ضائع کردی اور قوم کو نصف در نصف کر دیا ہے ۔جب کہ ہم اتنے احمق ہیں کہ اگر کسی جمہوری حکمران نے کوئی سختی کی تو بیلٹ بکس اورالیکشن کے عمل کے ذریعے سے اس کو ہٹانے کی بجائے فوجی جرنل کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔
پھرجب فوجی آتا ہے تو وہ جاتا ہی نہیں ،کیونکہ وہ کونسا ہم عوام کے ذریعے سے آیا تھا ، کہ اب ہم سے پوچھ کر جائے گا۔اب اگر ہم نے ایک برے سیاست دان سے پانچ برس کے بعد جان چھڑا لینی تھی، تواس سے بھی کہیں برے جرنل سے دس برس بعد بھی چھوٹ جائے تو غنیمت ہے۔پھر جنرل جاتے جاتے ملک کو اور بھی تقسیم کر جائے گایا کسی نہ کسی پاکستانی کو غدار کا خطاب دے جائے گا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ جنرل ایوب نے پہلے مولانا مودودی جیسے جید عالم اور سیاسی رہنما کو غدار قرار دیا تھا اور پھر شیخ مجیب الرحمٰن کو۔
یہ وہی مجیب الرحمٰن ہے جو کہ قائد اعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناح ؒکے بعد بنگالی عوام کا مقبول لیڈر رہا ہے اور ہمارے ملک کے فوجی حکمران تو مقبول عوامی لیڈروں کو ہمیشہ سے ہی اپنے راستے کا کانٹا سمجھتے رہے ہیں۔
پاکستان اس روئے ارض کا واحد ملک ہے جس میں سب سے زیادہ کلمہ گو انسانوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اور سب سے زیادہ مقبول عوامی رہنماﺅں کو غدار وطن کا تمغہ دیا گیا ہے۔ اگر ان فوجی حکمرانوں کے بس میں ہوتا تو وہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ مرحوم صاحب کو بھی غدار قرار دے ہی دیتے۔
اس لئے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ان دونوں الفاظ کے استعمال پر پابندی عائد کر دینی چاہئے۔
اگر کسی شخص کے ’ایمان‘ پر شک و شبہ ہے تو اسلام کے تمام سکول آف تھاٹ کے جید علماءپر مشتمل بورڈ اس متعلقہ شخص کے عقیدے اور سوچ کی مکمل تحقیق کرے اور اس کے ایمان کے متعلق فیصلہ صادر کرے اور اگر کسی شخص کی ’وطنی محبت ‘پر شک ہے تو اس شخص پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہئے۔ پانچ ججز پر مشتمل پینل ہو ۔ جن میں سے ایک بین الاقوامی قانون دان ہو،دوسرا تمام فقہوں کا سکالرہو، باقی کے تین سپریم کورٹ کے مستقل ججز ہوں۔ ( تاکہ حکمران ، عارضی ججوں کو بلیک میل نہ کر سکے۔)
ان با عزت اداروں کے علاوہ کسی بھی شخص یا کسی دوسری اتھارٹی کو یہ حق حاصل نہ ہو کہ کسی فرد،ادارے، گروہ ،جماعت یا کسی مکتب فکر کو کافر یا غدار قرار دے سکے ۔اگر کوئی شخص یا حکمران ان معتبر اداروں سے بالا ہی بالااپنی من مانی کرے تو اس کے خلاف نقص امن کا مقدمہ بھی چلنا چاہئے اور جس شخص،ادارے ،گروہ جماعت یا مکتب فکر کی بدنامی ہوئی ہے ، اسے ازالہ حیثیت عرفی( ہتک عزت )کا دعویٰ دائر کرنے اور حرجانہ وصول کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم پاکستانیوں نے اس اہم ایشوکے بارے میں بروقت ،صحیح سمت میں اقدامات نہ اٹھائے تو ایک دن ایسابھی آسکتا ہے کہ لوگ کسی بھی مسلم کوکافر اور کسی بھی محب وطن کو غدار کہتے پھریں گے اور پھر ان لفظوں کی آڑ لے کر اپنی ذاتی دشمنیاں نکالتے پھریں گے۔جس کی وجہِ سے پاکستان میں انارکی کی سی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔
اگر ہم نے نوکر شاہی کی بات مان کر قومی زبان کے بارے میں بے لچک رویہ اپنایا تو ایک مرتبہ پھر سے لسانی،نسلی اور گروہی فسادات ہوسکتے ہیں اور اس وقت تو پاکستان میں خانہ جنگی کا یقینی خطرہ یقیناًموجود ہے ۔ سابقہ مشرقی پاکستان اور صوبہ سندھ میں لسانی فسادات اور قتل عام کا عملی مظاہرہ ہم پاکستانی دو مرتبہ تو دیکھ چکے ہیںجن میں سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، اب اس برے عمل کا اعادہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔
اگر ہم نے مشترکہ قومی زبان کے نازک اور حساس مسلے کو ماضی کی طرح سے افسر شاہی کی عینک سے دیکھا اور پھر سے پرانے اور بے کار ہتھکنڈے آزمائے، تو نفرت کے رکے ہوئے جذبات کا ریلہ اس شدت سے بہہ نکلے گا کہ ایک مرتبہ پھر سے ہمارا دشمن ہماری اندرونی کمزوریوںسے فائدہ اٹھائے گا اورہم دیکھتے ہی رہ جائیں گے ۔ ہمیں ایک اور ڈھاکہ فال سے قبل ہی عقل کے ناخن لینے چاہییں۔ بجائے اس کے کہ ہم دس سال کے بعد ٹیبل پر بیٹھ کر ہتھیار ڈالنے کے کاغذات پر دستخط کر رہے ہوں ۔
افہام وتفہیم کا جذبہ لے کر مسلے کے تمام فر یقوں کو مل کر بیٹھنا چاہئے اور آج ہی کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کی بنیاد پر ،کسی ایک متفقہ فیصلہ پر پہنچ جانا چاہیے کیونکہ پہلے ہی بہت ہی زیادہ دیر ہوچکی ہے ۔قوموں کی ترقی کی دوڑ میں ہم روز بہ روز پیچھے ہی رہتے جا رہے ہیں ۔اگر ہم نے جلد ہی کوئی مثبت فیصلہ نہ کیا تو کسی دشمن کو آکر اور بم برسا کر ہمیں پتھر کے دور میں پہنچانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی بلکہ اپنی بدعقلی(میں نے کم عقلی نہیں لکھا)کی بدولت ہم خود ہی پتھروں کے عہد میں پہنچ جائیں گے۔ (اللہ قادر مطلق نہ کرے کہ ایسا برا ہو یا ایسا برا دن بھی ہماری قوم پر آئے ۔آمین !!)
مشترکہ اور متفقہ قومی زبان کونسی ہو نی چاہیے؟ اس پر بہت ساری آراءہو سکتی ہیں ۔میری رائے میں عربی زبان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں ،جن کی بناءپر نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے تمام غیر عرب مسلم ممالک بھی عربی زبان کو اپنی واحد یاپھر دوسری ،تیسری سرکاری زبان کے طور پر اپنا سکتے ہیں۔
یہ میری ذاتی تجویز ہے ۔اس پر سوچا جا سکتا ہے اور بحث بھی کی جا سکتی ہے ۔آخَر ہم نے وفاق پاکستان بچانا ہے جو کہ ہم نے صدیوں کی جدوجہد اورلاکھوں ایمان والوں کی قربانی دے کر حاصل کیا ہے۔اس عظیم نعمت کو چند عشروں میں صرف زبان کے مسلے پر ضد بازی میں گنوانا دانش مندی نہیں ہے۔اگر ہم نے ضدبازی اور اناء کی جھوٹی جنگ میں یہ عظیم خطہ کھو دیا تو ذرا یہ سوچیں کہ آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں کن کن برے ناموں سے یاد کیا کرینگی؟
صوبائی سطح پر ہر صوبے کی اسمبلی اپنے صوبے کی زبان کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار رکھتی ہے۔مگر مسلہ یہ ہے کہ پاکستان کے تمام صوبے غیر فطری طور پر بہت بڑے ہیں،کوئی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے کئی ممالک سے بڑا ہے ،تو کوئی اتنا رقبہ رکھتا ہے کہ اس میں یورپ کے کئی ملک سما جائیں،پھر ہر صوبے میں ایک سے زیادہ مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں ۔اس طرح سے ہر لسانی گروہ اپنی زبان کا نفاذ چاہے گا جو کہ ہر ایک پاکستانی کا پیدائشی اور بنیادی حق ہے اور کسی ایک اکثریت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسری اقلیت کا حق دبائے۔
اس لئے پاکستان کے تمام صوبوں کو فطری اور انتظامی بنیادوں پر آبادی کے مفاد میں چھوٹا کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ ہمیں اس بارے میں بھی غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ عوام الناس کی بھلائی کس طرح سے کی جا سکتی ہے؟
اورکس طرح سے عوام الناس کو انتظامی محکموں سے متعلق سہولتیں انکے گھر کی دہلیز پر دی جا سکتی ہیں؟ اس وقت تو زیر گفتگو مسلہ مشترکہ قومی زبان کا ہے۔اس میں بھی عوام الناس کی بھلائی ہی پیش نظر رکھی جانی چاہئے۔میرا ذاتی خیال ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اس مسلے کو حل نہیں کیا جا سکتا ،کیونکہ آبادی کے لحاظ سے چھوٹے صوبے پھر سے وہی شکایت کریں گے، کہ پنجاب اپنی واحد اکثریت کی بناءپر ہم پر ایک ایسی زبان ٹھونس رہا ہے ،جو کہ اس کی اپنی زبان نہیں ہے۔
ویسے ان کی شکایت بجا بھی ہے ،کیونکہ پنجاب والے بہت سارے معاملات میں حقیقت پسندانہ سوچ نہیں رکھتے۔جیسے کہ باقی صوبوں کے عوام اور خود پنجاب کے جنوبی ڈویژن اپنی زبان اور ثقافت کے بارے میں خا صے حساس ہیں ، جبکہ وسطی پنجاب کے علاقے کے عوام ان سے مختلف سوچ رکھتے ہیں۔اسی لئے انہوں نے اپنی تہذیب اور زبان کی سرپرستی کرنے کی بجائے دوسروں کی تہذیب اور زبان کوگلے سے لگا لیا ہے۔ اردو کی جذباتی سرپرستی اس سوچ کا نتیجہ ہے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے ،اس عمل کے نتیجے میںپنجابیوں نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی اپنی مادر ی زبانوں کو اتنی بے رحمی سے نظر انداز کیا ہوا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت ساری علاقائی زبانیں مر رہی ہیں۔
اگر میں کہوں کہ اب تو اردو زبان بھی مر رہی ہے تو کیا آپ یقین کریں گے ؟
جی ہاں! اردو زبان دنیا کی ان زبانوں میں سے ایک ہے ، جس کے بولنے والے افراد کی تعداد میں بظاہر تو اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ مگر دنیا کی کل آبادی کے مقابلے میں اردو بولنے والوں کی اوسط کم ہو رہی ہے۔اس کی دو وجوہات ہیں۔
پہلی تو یہ ہے کہ اردو بولنے والے پنجابی متوسط طبقے کے لوگوں نے ایلیٹ کلاس کی نقل میں انگلش لیگویج کی سرپرستی شروع کر دی ہے، دوسری یہ ہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں اور صوبوں سے جو پاکستانی بیرون ملک سیٹل ہو رہے ہیں وہ خود تو بے شک اردو پڑھ لکھ سکتے ہیں،مگر ان کی دوسری نسلیں اردو یا اپنی مادری زبانیں بول تو سکتی ہیں ،مگر پڑھ یا لکھ نہیں سکتیں تیسری نسل یاچوتھی نسل ملی جلی زبانیں بولتی ہیں اور اگر وہ تعلیم یافتہ ہیں تو پھر اپنے بڑوں کی زبانوں سے تقریباً نا آشنا ہی ہیں اگر یہی صورت حال جاری رہی تو ایک دن اردو زبان بھی پنجابی کی طرح سے صرف مشاعروں، ڈراموں اورفلموں کی حد تک ہی محدود ہوجائی گی یا پھریار لوگ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے کبھی کبھاربھانڈوں سے فرمائش کیا کریں گے کہ پیا جی۔ اردو میں کوئی چٹکلہ ہی سنا دو۔
اس وقت جو زبانیں دنیا میں پھیل رہی ہیں ان میں انگلش تو سر فہرست ہی ہے ،مگر ساتھ ہی ساتھ عربی، سپینیش، فرینچ اور مندرین (چین کی مرکزی سرکاری زبان) بولنے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ۔اگر کسی ملک نے ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہنا ہے ،تو اسے اپنی قومی اور سرکاری زبان کے ساتھ ساتھ ا ن زبانوںمیں سے کسی ایک یا دو زبانوں کو اپنانا ہی پڑے گا۔جیسے کہ چین والے انگلش کو اپنا رہے ہیں ۔جبکہ امریکہ میں انگلش کے ساتھ ساتھ سپینیش زبان بھی استعمال ہوتی ہے۔
پاکستان اگر صرف اردو کو ہی سرکاری زبان قرار دے دے، تو ہمیں بین الاقوامی سطح پر رابطے کے لئے اوپر بیان کی گئی، کسی ایک زبان کو لازمی اپنانا ہی پڑے گا اور اگر ہم اب بھی انگلش کی جگہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کی جنگ بدستور جاری رکھیں گے تو اندرون ملک زبانوں کی موجودہ جنگ بھی بدستورجاری ہی رہے گی اورپھر اردو کے ساتھ ساتھ ہمار ی ما دری، علاقائی ،مقامی اور قبائلی بولیاں بھی معدوم ہوتی چلی جائیں گی۔
ایک آپشن اور بھی ہے ۔وہ یہ کہ ہم صرف انگلش زبان کواپنی سرکاری زبان کے طور پر اپنا نے کا فیصلہ کر لیں ؟
بے شک انگلش موجودہ دور کی سب سے موثر بین الاقوامی زبان ہے، مگر اس کا مزاج،تہذیب اورثقافت ایسی ہے کہ ایک مسلم قوم اسے ایک زبان کے طور پر تو سیکھ سکتی ہے مگر قومی یا سرکاری زبان کے طور پر اپنا نہیں سکتی۔کیو نکہ جو بھی ملک اسے اپنا رہے ہیں۔ وہاں کے لوگ غیر شعوری طور پر انگلش اور امریکن ثقافت بھی اپنائے جا رہے۔
دوسرے ممالک کی تو خیر ہے ان کو کوئی بھی فرق نہیں پڑتا ،کیونکہ ان کو تو مادی ترقی سے مطلب ہے۔مگر ہمیں فرق پڑتا ہے۔کیونکہ ہم مسلم ہیں اور ہمارا دین اسلام ہے۔ اگر ہم لوگ ماضی کی طرح سے انگلش کو بدستوراپنائے رکھیں گے توہماری روایات ،تہذیب،ثقافت اوررسم ورواج تباہ وبرباد ہوتے رہیں گے۔
کیا ہم صرف مادی ترقی کی خا طر اپنی روایات ،تہذیب ،ثقافت اور رسم ورواج کو تباہ وبرباد ہوتے دیکھتے رہیں گے ؟
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہم اپنے دین اور اس سے وابستہ اقدار کو خیر آباد کہہ سکتے ہیں؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی قوم،، کسی دوسری قوم کی زبان کو اپنی مرضی سے اپناتی ہے یاپھرکوئی اجنبی زبان اس پر زبردستی مسلط کر دی جاتی ہے تو وہ قوم اس اجنبی زبان سے وابستہ بہت ساری روایات اور اصطلاحات کوغیر شعوری طور پر اپنا ہی لیا کرتی ہے۔جو کہ اس کے اپنے مزاج اور مذاق سے ہم آہنگ نہیں ہوتیں۔جیسے کہ ہندی زبان میں سلام،عید اور طلاق کے خالص اسلامی الفاظ کو ہندو اپنی روز مرّہ کی زبان میں استعمال کرتے ہیں حالانکہ یہ خالص عربی زبان کے الفاظ ہیں، ان کا نہ توہندو تہذیب روایات اور مذہب سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی عربوں کی آمد سے قبل ان الفاظ کا سنسکرت زبان میں کوئی وجودتھا۔
بلکہ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ الفاظ ہندومذہب کی تعلیمات کی ضد اور الٹ ہیں،مگر پھر بھی کثیر ہندو آبادی اسے استعمال کرنے پر مجبور ہے۔کیونکہ یہ الفاظ ہندی میں فارسی سے آئے ہیں ،جو کہ مسلم حکمرانوں کے دور حکومت میں ہند کی سرکاری زبان تھی۔اب آپ خود ہی سوچیں کہ اگر عربی زبان ہند کی سرکاری زبان ہوتی تو ہندی میں کتنے فیصد سنسکرت باقی رہ جانی تھی؟
اسی ڈر سے تو جواہر لال نہرو نے ہندی کے لئے سنسکرت رسم الخط اپنانے کا فیصلہ کیا تھا کہ رہی سہی ہندی ہی بچا لی جائے ۔ یاد رہے کہ وہ بھارت کا پہلا وزیر اعظم تھا۔
بہت ساری خوبیوں کے علاوہ عر بی زبان میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ہماری دینی زبان بھی ہے ۔ہماری مقدس کتاب قرآن مجید اسی زبان میں نازل ہوئی ہے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کی احادیث بھی اسی زبان میں ہیں ۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان میں بولی جانے والی ساری کی ساری زبانیں اور بولیاں عربی زبان سے ہی نکلی ہیں اور صرف عربی ہی ان کی حفاظت کر سکتی ہے اور ان کو پروان بھی چڑھا سکتی ہے۔
تو کیوں نہ ہم عربی کو بطور سرکاری زبان اپنا لیں ؟؟؟
کیونکہ ہمارا بد ترین دشمن عربی زبان سے بری طرح سے گھبراتا ہے ۔سوچیں کہ اگر یہ زبان اس کی سرحد تک آگئی تو ڈر کے مارے اس کا کیا حال ہوگا؟؟؟
خادم الاسلام والمسلمین ڈاکٹر عصمت حیات علوی 30 جون 2009ء